شام میں ہو کیا رہا ہے؟

انسان کو چاہیے کہ انسان ہی رہے، بطورِ انسان ہر انسان پر اصلاح کی دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انسان ایک طرف تو اپنی اصلاح کا ضامن ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی اصلاح کا بھی ضامن ہے۔جب انسان اللہ تعالی کی ذات سے غافل ہوجاتاہے تو وہ صرف خود کو ہی عقلِ کُل اور مصلحِ اعظم سمجھ کر دوسرے انسانوں پر ظلم ڈھانے لگتا ہے۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ نہ ہی تو یمن اور بحرین کا مسئلہ شیعہ اور دیوبندی کا ہے ، نہ ہی شام اور عراق کا مسئلہ وہابی اور شیعہ کا ہے اور نہ ہی افغانستان و کشمیر کے مسائل بریلوی اور اہلحدیث کے جھگڑے ہیں بلکہ اصل مسئلہ اصلاحِ اُمت کا ہے، ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ بطورِ مسلمان ہم اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی اصلاح کے ضامن ہیں۔

جب ہم اصلاح کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مقابلہ کفر اور شرک کے مبتدیوں اور مقلدین سے نہیں ہوتا بلکہ کفر اور شرک کے ائمہ سے ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں کفر و شرک کے امام ہندوستان، امریکہ اور اسرائیل و روس ہیں۔جب تک ہمارے یہ دشمن منظم، ہوشیار اور بیدار ہیں تب تک انہیں شکست دینے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ہم ان سے بھی زیادہ منظم، ہوشیار اور بیدار ہو جائیں، چونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علم و ٹیکنالوجی کو جہالت سے، نظم و ضبط کو بدنطمی سے،آگاہی اور بیداری کو غفلت سے اور شعور و مکالمے کو تعصب سے شکست نہیں دی جا سکتی۔

عالمِ اسلام کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے ہماری تمام تر توجہ اصلاحِ امت پر متمرکز ہونی چاہیے، ہمیں بحیثیت مسلمان ، دنیا بھر میں ایسی بیدار، دیندار اور ہوشیار سوسائٹی کی ضرورت ہے جو دنیا کے سامنے اسلامی اصولوں، اقدار اور تعلیمات کی درست ترجمانی کرے۔

اگر اسلامی دنیا کی سربراہی اور ملت اسلامیہ کی قیادت ان بادشاہوں کے سپرد کر دی جائے کہ جو اپنا تن من دھن سب کچھ امریکہ کو راضی اور خوش کرنے کے لئے لٹانے پر تیار ہیں تو مسلم دنیا میں طالبان اور داعش سے بچے کچھے ممالک بھی جلد اس دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔

اگر ہمارے حکمران اسی طرح امریکہ و اسرائیل کے مفادات کی جنگوں میں اپنے جوانوں کو لقمہ اجل بناتے رہے تو دہشت گردی کی یہ وبا اب ممالک کے ممالک کو چاٹ جائے گی۔ اس وقت تک بھی امریکہ کی خوشامد ، چاپلوسی اور غلامی کا جو ہولناک نتیجہ نکلا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

اگر ہم خداوندِ عالم کی وحدانیت اور رسولِ اسلام کی ختمِ نبوت پر قطعی عقیدہ رکھتے ہیں تو پھر ہمیں امریکہ و اسرائیل کے قدموں پر ڈھیر نہیں ہونا چاہیے اور ممالک و مسالک کے بجائے اسلامی اصولوں اور معیارات کا ساتھ دینا چاہیے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اذان تو توحید کی دیں اور گردنیں اہلِ قبلہ کی کاٹیں، نعرے تو اللہ اکبر کے لگائیں اور مسلمانوں کے سروں سے فٹبال بھی کھیلیں، باتیں تو اسلامی خلافت کی کریں اور آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے بچوں کو گولیوں سے بھی بھون دیں۔

اس وقت اصلاحِ اُمت کی کوشش صرف اس لئے ضروری نہیں کہ دنیا کو اس کی ضرورت ہے بلکہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ شدت پسندی کی یہ آگ ہمارے ملک میں بھی گھس چکی ہے۔

ظاہر ہے جب ہم نےاسلامی دنیا کا حکومتی نظام ہی امریکہ و اسرائیل کے پٹھو حکمرانوں کے حوالے کیا ہوا ہے تو پھر ہم امن، صلح اور انسانی حقوق کی اپیلیں کس سے کر رہے ہیں!؟

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ شام کی ملت نے اپنے ملک میں غیر ملکی غنڈوں کے خلاف ایک بڑی جنگ بہت کامیابی سے لڑی ہے اور اب غوطہ میں جاری اپریشن دہشت گردوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے جا رہا ہے۔

یہ پتھر پر لکیر ہے کہ شام میں دہشت گردوں کے خلاف جاری اپریشن اپنے منطقی نتیجے کو پہنچ کر رہے گا چونکہ اس اپریشن کی قیادت کوئی ایسا چیف آف آرمی اسٹاف نہیں کر رہا جس نے اپریشن کے بعد جا کر سعودی عرب کے ہاں نوکری بھی کرنی ہو۔ لہذا شام سے دہشت گردوں کے انخلا کے لئے اس آپریشن کا جاری رہنا ضروری اور حتمی ہے۔

بے شک آخری فتح اہلِ شام کی ہی ہوگی اور آخری شکست غیرملکی غنڈوں کو ملے گی ۔چونکہ جو اصولوں اور اقدار کی خاطراپنے وطن کی سرزمین پر جان دے دیتا ہے وہ مر کر بھی زندہ رہتا ہے اور جو دوسروں کے گھر میں گھس کر لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے وہ مار کر بھی شکست خوردہ اور زلیل ہوتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے