اب میں کیا لکھوں؟

مانسہرہ سے ایک دوست نے فون کیا کہ یار ہمارے ہاں ایک ماں کو دو بچوں سمیت مار دیا گیا ہے ، اس واقعے پر کچھ لکھیں نا ؟ عرض کیا فرمائشی لکھا نہیں جاتا ، دکھ ہی محسوس کر سکتا ہوں ،

کال ختم ہوئی تو حضرت انسان پر سوچنے لگ گیا کہ آخر یہ انسان ہے کیا ؟ جتنا غور کیا یہ عجیب سے عجیب تر لگا ، ویسے یہ انسان بڑی عجیب شے ہے

یہ اپنے ہاتھوں سے مسجد بناتا ہے ، بنانے کے بعد اسکی تکریم فرض سمجھتا ہے ، یہ مسجد کی بے حرمتی پر مر مٹنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے جبکہ خدا کا بنایا ہوا انسان اپنے ہاتھوں سے مار دیتا ہے اور پھر روتا بھی نہیں ،

انسان مسجد کو گالی دینا برداشت نہیں کرتا دوسری طرف اپنے ہی بھائی کو ماں بہن کی گالیاں دیتا ہے ، یہ بھول جاتا ہے کہ ایک انسان کی تکریم کعبہ سے زیادہ ہے ،

یہ محبت کرنے پر آئے تو پھول کے پتے اٹھا کر قرآن کے دامن میں رکھ دیتا ہے اور نفرت کرنے پر آئے تو اللہ کے باغ کے پھولوں کو قتل کر دیتا ہے ،

انسان کتنا عجیب ہے ؟

یہ نیک بنے تو فضول پانی بہانے سے روکتا ہے ، بد بنے تو خون بہانے سے بھی نہیں چوکتا ، چومنے پر آئے تو تتلیوں کے پر اٹھا کے چوم لیتا ہے تھوکنے پر آئے تو ماں کے چہرے پر بھی تھوک دیتا ہے ، پالنے پر آئے تو بغیر نکاح سے پیدا ہونے والے بچوں کو پالنے لگ جاتا ہے اور نکالنے پر آئے تو ماں باپ کو بھی گھر سے نکال دیتا ہے ، نبھانے پر آئے تو بڑے بڑے صدمات جھیل جاتا ہے اور بگاڑنے پر آئے تو رائی کو پہاڑ بنا دیتا ہے ، خیر کی طرف آئے تو مجسمہ خیر بن جاتا ہے شر کی طرف رخ کرے تو شیطان کو بھی شرما دیتا ہے ،

عشق کرنے لگے تو ذات پات اور اوقات بھول جائے، محبوب فرمائش کرے تو پہاڑ کھودنے لگ جائے ، کبھی نہریں نکالنے لگ جائے اور کبھی رب کے سامنے کھڑا ہو کر اسے مانگنے لگ جائے ، سخی بنتا ہے تو محبوب کے تل پر سمرقند و بخارا قربان کر دیتا ہے،

یہ انسان کیا ہے ؟

اس میں جب بے نیازی آتی ہے تو خود کو خدا سمجھنے لگ جاتا ہے اور جب عاجزی آتی ہے تو خاک نشین ہو جاتا ہے ، ابن آدم نرالا ہے

اس نے اپنی تباہی کے آلات بھی خود بنائے اور مرہم بھی خود بنائی ، یہ ایٹم بم بنا کر اپنی موت کا سامان تیار کرتا ہے اور پھر اس پر فخر بھی کرتا ہے ، جس چیز سے زیادہ انسان مریں یہ اسے سنبھال کے رکھتا ہے ،

اس کا ہیرو بھی وہ ہے جس نے بندوق اور بم بنائے ،بیساکھی بنانے والا اسکی نظر میں فضول ہے ، یہ ایٹم بم بنانے والے کو محسن بتاتا ہے ،اسکے لیے القابات ڈھونڈتا ہے ، اسے دنیا کا عظیم سائنسدان ثابت کرتا ہے، اور معذوروں کی سہولت پیدا کرنے والے کے لیے آج تک کوئی لفظ ایجاد نا کر سکا _

اتنا کچھ لکھنے کے بعد بھی سوال وہیں کھڑا مسکرا رہا ہے کہ آخر حضرت انسان ہے کیا چیز ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے