میں ہوں ’’ووٹ‘‘

ووٹ کا فخر اور تقدس خطرے میں۔ کیا کبھی اسے انصاف مِل پائے گا؟

ذرائع ابلاغ میں آج کل ووٹ ڈالنے والوں کے ہاتھوں ووٹ کے غلط استعمال کی بحث جاری ہے۔ مناسب ہو گا میں پہلے آپ سے اپنا تعارف کرا دوں۔ میرا نام ووٹ ہے۔ صدیوں سے مختلف ملکوں میں لوگ اپنے مقاصد اور جدوجہد کے مختلف مرحلوں میں اپنی کامیابی اور اپنے نمائندوں کے انتخاب اور چنائو کیلئے میرا استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ بنیادی طور پر میری ویلیو بڑی سائنسی اور حسابی ہے۔ دانشمندی سے ہو تو میرا استعمال فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ میں…

عوام اور پرائیویٹ سیکٹر میں مقابلے کی دوڑ میں اس کیلئے کامیابی کی نوید بنوں۔ مجھ سے لوگوں کی شہرت اور بدنامی دونوں وابستہ ہیں، میں اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے، اس کی آگاہی کے لئے رائے عامہ ہموار کرتا ہوں۔ میرا دانشمندانہ استعمال…میرے مالک کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی مرضی اور منشا کے بغیر میں کچھ نہیں کرتا۔ میں کسی ایک کی ذاتی ملکیت نہیں، اکثریت اور اقلیت دونوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے کام کرتا ہوں۔ بعض اوقات جب میرا استعمال غلط ہو تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں ناانصافی کے کئی دروازے کُھل جاتے ہیں۔ ایک تواتر سے اس طرح کا غلط استعمال معاشرے میں بدعنوان اور نااہل سیاست دانوں اور حکمرانوں کو جنم دیتا ہے جبکہ اس کے برعکس اگر میرا استعمال دانشمندی سے اور سوچ سمجھ کر کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ایسے ایماندار اور اہل حکمران سامنے آتے ہیں جو ملکوں کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔ لالچی اور بدعنوان عناصر کے ہاتھوں استعمال کی صورت میں مجھے خریدنے والامجھے باکس میں ڈالنے سے قبل ہی اپنے ووٹوں کی تعداد بڑھانے کیلئے میری ذات سے بھاری بھرکم مالی مفادات وابستہ کر لیتا ہے۔ مجھے سخت بُرا محسوس ہوتا ہے جب میرا مالک لالچی اور شرافت سے عاری ہو کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح میرا نام بھی بدنام ہوتا ہے۔

میرے وجود سے آئین بنانے والی مقننہ تیار ہوتی ہے جو ان لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے قانون سازی کرتی ہے، جنہوں نے نیک نیتی سے میرا استعمال کیا ہوتا ہے۔ میری طاقت اور اہمیت میرے مالک کے ضمیر پر منحصر ہوتی ہے جو مجھے بہتری کیلئے استعمال کرتا ہے قطع نظر اس کے کہ یہ کاروبار کے لئے ہو حکومت کی تشکیل مقصود ہو یا پارلیمنٹ کی ، مجھے ایک قوت قرار دیا جاتا اور اپنے مالک کی مرضی اور منشا کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہئے کہ میرا مالک اگر میرا استعمال اپنے ضمیر کی آواز کے برعکس اپنے مذموم خفیہ اور پوشیدہ مقاصد کی خاطر کرے گا تو معاشرے پر اس کے تباہ کن اثرات ظاہر ہوں گے۔

میری قدر و قیمت اور اثر پذیری اس وقت روبہ عمل آتی ہے جب مجھے باکس میں ڈالا یا کمپیوٹر کا بٹن دبا دیا جاتا ہے یوں مجھے آج کی جمہوری دنیا میں ایک فیصلہ کن عنصرکی حیثیت مل جاتی ہے۔ میں ہی وہ ہوں جو دوسروں کیلئے نمبر گیم بناتا اور اپنی طاقت سے ان کی کامیابی یا ناکامی کا راستہ بناتا ہوں۔ میرا غلط استعمال بڑا مہلک اور ہلاکت آفریں ہو سکتا ہے جب میرا مالک مجھے برائے فروخت قرار دے کر میری قیمت لگاتا ہے اورمیں طوعاً اور کرعاً اپنے مالک کی مذموم خواہشات کا نشانہ بنتا ہوں۔ میرا فخر میرا دانشمندانہ استعمال ہے جو قوموں میں قابل فخر خوبیاں پیدا کرتا اور تبدیلیاں لاتا ہے۔ دنیا بھر میں میرا استعمال غلط ہوتا ہے اور افسوس میرے پاس انکار اور نہ کہنے کی سکت بھی نہیں!
پاکستان میں پہلی بار میری عزت اور وقار کے گلے میں قیمت کی چٹ حزب اختلاف کی ایک سیاسی جماعت نے لگائی جس نے میرا سہارا لے کر عدم اعتماد کی تحریک سے ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اپنے مفادات کی خاطر میری خرید و فروخت کا سلسلہ رُکے بغیر چلتا رہا اور کسی کو میری عزت اور وقار کا خیال تک نہ آیا۔

ووٹ کے طور پر میری عزت اور شہرت کو حالیہ دنوں میں پاکستان میں جو شدید دھچکا لگا اس کا میڈیا میں بڑا چرچا ہے۔ میں پاکستان میں اپنے مالکوں اور کچھ دوسرے لوگوں کی طرف سے غلط استعمال کا نشانہ بنتا رہا ہوں۔ جنہوں نے جعلسازی اور دھاندلی کے ذریعے اپنے من چاہے نتائج حاصل کرنا چاہے۔ میری تکالیف اور اس ناانصافی کو ماضی میں کبھی سنجیدگی سے نہ لیا گیا اور بااثر افراد اپنے شور و غوغا سے میری آواز دبانے میں کامیاب رہے۔ میرے قابل فروخت جنس بن جانے اور بولیاں لگنے سے مجھ سے محبت کرنے والوں کو میری طاقت بارے ممکن ہے مایوسی ہوئی ہو۔ اس طرح ان کا مجھ پر یقین اور اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے میں خود اپنے مالکوں کے ہاتھوں زخمی ہوں اور چہرے پر خراشیں ہیں، جن کو کبھی میں نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ میں آج کل اپنے نام کے حوالے سے ہارس ٹریڈنگ کابڑا شور سن رہا ہوں اور لگتا ہے مجھے ایک بار پھر ان لالچی مالکوں کے ہاتھوں نیازخم اٹھانا پڑے گا جن کا یقین عزت و وقار کے بجائے گندی دولت پر انحصار ہے۔ افسوس پاکستان بھر میں کُھلے عام میری بولیاں لگیں، میرے دفاع کیلئے کوئی سامنے نہ آیا لالچی اور بے حس مالکوں نے کُھلے بازار میں میری مرضی اور منشا کے بغیر کُھلے بازار میں مجھے فروخت کیا۔ کیا حکام کبھی میری بے بسی اور مظلومیت کا نوٹس لیں گے۔ لالچی اور دولت کے پجاریوں نے میری عزت و وقار کو بٹہ لگا کر میرا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ مجھے اُمید ہے اب میری آواز نئے چھپے کرنسی نوٹوں کے زور سے مزید نہ دبائی جا سکے گی اور میرے مالک مستقبل میں مجھے بازاری جنس فروخت سمجھ کر میری بولیاں نہیں لگائیں گے۔

خدارا! مجھے میرا اصل چہرہ اور فخر واپس دلائیں اور میرے چہرے پر پڑا گندے نوٹوں کا گند صاف کر کے مجھے میرا اعتماد دلایا جائے میری اصل قدر و قیمت اور اقدار بحال کر کے میرا فخر محفوظ کریں اور پاکستان کو محفوظ بنائیں۔

میں، بطور ووٹ مطالبہ کرتا ہوں کہ میرے ان تمام مالکوں کو جنہوں نے میری خرید و فروخت کی بولیاں لگا کر میری عزت و وقار مجروح کیا اُن سب کو اب سزا ملنی چاہئے تاکہ مستقبل میں میری خرید و فروخت کا یہ گھنائوناسلسلہ بند ہو اور لوگوں کا مجھ پر اعتماد اور میری گرتی ہوئی ساکھ بحال ہو…

کیا میری عزت و وقار کی بحالی کی خاطر تمام سیاسی پارٹیاں میرے لالچی مالکوں کیخلاف قانونی کارروائی بارے کبھی سوچیں گے؟ آج میری طاقت اور ساکھ پر حملے ہو رہے ہیں۔ مجھ پر عوام کا اعتماد و یقین بحال اور محکم کرنے کیلئے اس کا سدباب ضروری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے