جمہوریت کا اصول ہے کہ انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے والے کو اقتدار ملتا ہے اور کم نشستیں حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں بیٹھتی ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی صف میں شامل ہے جہاں اقلیت کو اکثریت میں بدلا جاتا ہے اور اکثریت کو اقلیت میں، یہاں جمہوریت کے نام پر انتخابات تو ہوتے ہیں مگر جتینے والے گھوڑوں کی لگامیں کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہیں وہ اپنی مرضی سے انھیں موڑتا ہے
پاکستان میں سینٹ انتخابات ہارس ٹریڈنگ کی بازگشت میں ہوئے سینٹ انتخابات سے قبل ایک انہونی ہوئی اور وہ یہ کہ بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ کے میر عبدالقدوس بزنجو کو آگے لایا گیا نادیدہ قوتوں نے یہ کام ان سے کروایا جو کچھ عرصہ قبل اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے تھے پھر وہ خوف سے وطن سے کوسوں دور باہر جا کے بیٹھ گئے جی اپ درست سمجھے میری مراد زرداری صاحب کی ہے جن کے خوف سے وہ باہر چلے گئے تھے واپس ا کر انہی کا مہرہ بن گئے
آج سینٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے ووٹنگ ہونا تھی ہم صبح دس بجے پارلیمنٹ پہنچ گئے پارلمنیٹرین آتے رہے ان سے گفت و شنید ہوتی رہی جوڑ توڑ میں طاقتیں مصروف رہی ن لیگ والے مطمئن تھے اور ان کے چہرے پر اطمینان ہی اطمنیان تھا.
گیم دو بجے کے بعد بدلی جب سینٹ چئرمین کے دفتر کے بالکل عین سامنے کانفرنس ہال میں پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعتوں کا شیری رحمن کی صدارت میں اجلاس ہوا ، اجلاس شروع ہونے سے قبل محترمہ شیری رحمن سے ہم نے پوچھا کہ آپ کا ووٹ یقیناََ سنجرانی صاحب کو جائے گا ، ان کو ووٹ دیتے ہوئے جمہوریت کہاں کھڑی ہو گی؟ ان کا جواب تھا کہ جمہوریت یہی ہے کہ ہم اپنے امیدوار کو ووٹ دیں
ہم نے پوچھا محترمہ! ان صاحب کا تعلق تو پیپلز پارٹی سے کچھ خاص نہیں رہا؟ یہ بلوچستان سے آزاد سینٹر منتخب ہوئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں حق ہے کہ آپ ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ مخالف کو چاروں شانے چت کر دیں ، اس کے بعد پیپلزپارٹی کا اور اتحادیوں کا اجلاس شروع ہوا، اجلاس ختم ہونے کے بعد 47 سینیٹرز باہر آئے، رحمن ملک صحافیوں کے نرغے میں آ گئے، انھوں نے کہا کہ جیت ” ڈان ” کی ہو گی ہم نے پوچھا ” ڈان ” سے مراد آپ کی وضاحت کر دیں ہمارے ساتھ ایکسپریس کے رپورٹر کھڑے تھے ، ان کی طرف انھوں نے اشارہ کیا کہ آپ کی جیت ہو گی ، سبھی کو معلوم ہے کہ اس رپورٹر کی ہمدردیاں کس کے لیے ہیں.
راجہ ظفرالحق اور حاصل بزنجو کے چہروں پر خوشی تھی لیکن جب وہ اپنے اتحادیوں سے اجلاس کرنے کے بعد باہر آئے تو ان کے چہروں پر مایوسی جھلک رہی تھی وہ انتخاب سے قبل شکست تسلیم کر چکے تھے.
ن لیگ کے ڈپٹی چیئرمین کے امیدوار عثمان کاکڑ جب باہر آئے تو انھوں نے اسٹبلیشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ آج کا گھناونا کھیل اسٹیبلشمنٹ کھیل رہی ہے اور بلوچستان سے جتنے بھی سینیٹر آزاد آئے ہیں ، یہ سارے ان کے پرووردہ ہیں، ہم ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ن لیگ کے ہاتھوں سے گیم اس وقت نکلی ، جب فاٹا ارکان نے سنجرانی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ، فاٹا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہدایت اللہ شاہ سے جب ہم نے پوچھا کہ آپ جمہوریت کو ووٹ کر رہے ہو یا پھر…. تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک مخصوص نمبر سے کال آئی کہ آپ لوگوں نے ووٹ سنجرانی کو دینا ہے تو پھر ہم مجبور ہوئے اپنا فیصلہ بدلنے پر
ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا تو ایوان میں تناؤ کی کیفیت تھی سب سے پہلا ووٹ حافظ عبدالکریم نے کاسٹ کیا ، سبکدوش ہونے والے سینٹ چیئرمین رضا ربانی گم سُم بیٹھے رہے ، وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان مسلسل ورد میں رہے ، پرویز رشید مختلف سینیٹر کے پاس جاتے اور ان سے سرگوشیاں کرتے رہے ، دوران پولنگ شیری رحمن کو مسلسل کالز آتی رہی اور وہ بار بار اٹھ کر باہر جاتی رہیں.
فاٹا ارکان بھی سرگوشیوں میں مشغول رہے ، جمعیت کے ارکان کی سرگرمیاں بھی مشکوک تھیں ، انھوں نے اپنی باری پر ووٹ نہیں ڈالا بلکہ سب سے آخر میں ووٹ ڈالا ، جماعت اسلامی کے سینیٹر نے تو ووٹ کاسٹ ہونے سے قبل ہی بتا دیا تھا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمارا ووٹ ن لیگ کے امیدوار کو جائے گا
چئیرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب تو ہو گیا مگر مجھے آج احساس ادارے کے ایک اہم رینک افیسر کی باتوں میں صداقت نظر آئی جو مئی دو ہزار سترہ میں اس نے میرے ساتھ کی تھی ، ان میں سے تین باتیں سچ ثابت ہوئی ، نواز شریف کو وزارت اعظمی سے ہٹانا، سینیٹ انتخابات میں کس کو کامیابی ملے گی، نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ کرنا ایک بات ابھی باقی ہے کہ عمران خان کو عام انتخابات میں اقتدار دیا جائے گا مگر بھان متی کا کنبہ بنا کر اب اس کی ابتداء ہو گئی ہے جمہوریت فی الحال تیل لینے گئی ہوئی ہے، وہ طاقتیں کامیاب ہو گئی جو جمہوریت کو اس ملک میں پھلنا نہیں دیکھ سکتی ، پیپلزپارٹی بھی ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے