سپریم کورٹ کا ایگزیکٹ کو 10 سالہ ٹیکس ریکارڈ جمع کروانے کا حکم

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایگزیکٹ کیس کی سماعت کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے کمپنی کے گزشتہ دس برس کا ٹیکس ریکارڈ طلب کرلیا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے جعلی ڈگری اسکینڈل پر لیے گئے ازخود نوٹس کے خلاف ایگزیکٹ کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ایف بی آر کو ایگزیکٹ کے دس سالہ ٹیکس ریکارڈ کو جمع کرنے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن کی جانب سے فریق بننے کی درخواست بھی خارج کردی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ایگزیکٹ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے خلاف سنگین الزامات ہیں جس پر وکیل شہاب سرکی نے کہا کہ حکومت ہمارے خلاف ہے اور ادارے بھی ہمارے خلاف ریوٹ دیتے ہیں اس لیے عدالت تحقیقات کے لیے آزاد کمیشن بنائے۔

جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران بول چینل کے حوالے سے وکیل سے استفسار کیا کہ اشتہار کے بغر کیسے چلا رہے ہیں، اگر آپ تحقیقات میں سرخرو ہوئے تو عدالت کلین چٹ دے گی۔

انھوں نے حکم دیا کہ بول متاثرین کو تنخواہیں دی جائیں جس پر ایگزیکٹ کے وکیل نے کہا کہ ہم تنخواہیں کہاں سے دیں تاہم چیف جسٹس نے جواب دیا کہ جہاں سے بول چلا رہے ہیں۔

ایگزیکٹ کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بول پیسہ کہاں سے لے رہا ہے جبکہ بول اشتہار بھی نہیں لے رہا تو کیوں نہ ہم ایف بی آر سے آڈٹ کروا لیں کیونکہ جب ان کے پاس پیسے نہیں ہیں تو سارا کھاتا کیسے چل رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ایف بی آر کے نمائندے کو بلاتے ہوئے کہا کہ ہمیں صرف پاکستان کی عزت مقدم ہے اور باقی سب کچھ ثانی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر غلط نہیں کیا تو ان کا چہرہ صاف ہونا چاہیے لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے۔

سماعت کے دوران بول کے متاثرین کے نمائندے نے بنچ کو بتایا کہ متاثرہ ملازمین کی مجموعی تعداد 300 سے زائد ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں مجموعی رقم کا پتہ نہیں چلے گا تو ہم کیسے ریلیف دیں گے اور اگر بول نے آپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا ہے تو اب اس کی داد رسی کا فورم کون سا ہوگا جس پر بول متاثرین کے نمائندے نے کہا کہ ہم مائی لارڈ کے پاس آئے ہیں تاہم چیف جسٹس نے پوچھا کہ مائی لارڈ کیا کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ بول ملازمین کی تنخواہوں کا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا اور جب مقدمے کی سماعت ہو تو تیاری کرکے آئیں۔

بعد ازاں ایگزیکٹ کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 19 جنوری کو ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے 10 روز میں رپورٹ طلب کر تے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی بدنامی کرنے والا کوئی بچ کر نہیں جائے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسکینڈل سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں، ڈی جی ایف آئی اے جعلی ڈگری سے متعلق مہم کا پتہ چلائیں۔

بعد ازاں 19 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو ایف آئی آر میں نامزد شعیب شیخ سمیت دیگر تمام ملزمان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم بول ملازمین اور سینئر صحافیوں سمیع ابراہیم اور جاوید سومرو کی درخواست پر کچھ دیر بعد واپس لے لیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایگزیکٹ کے سی ای او اور بول نیوز کے مالک شعیب شیخ کو حکم دیا تھا کہ وہ تحریری طور پر جواب جمع کرائیں کہ وہ ملک سے باہر نہیں جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی ٹرائل کورٹ کو حکم دیا تھا کہ اگر تمام ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو ان کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست ٹرائل کورٹ کو دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے