بندہ صحرائی اور مرد کوہستانی

آج سابق وزیراعظم ‘ میاں محمد نوازشریف کی تقریر سن کر بہت رنج ہوا۔ انہوں نے اپنے کارناموں کا خلاصہ کرتے ہوئے امید دلائی کہ آنے والے ستر سالوںمیں وہ عوام کی اسی طرح عیش کرائیں گے جیسے گزشتہ ستر سال پاکستانی قوم کو نصیب ہوئے۔ماضی کے ستر سال تو مجھ پر پاکستان کے غریبوں کی طرح بڑی تکلیف میں گزرے لیکن جب میاں صاحب نے اگلے ستر برسوں کی خوش حالی‘ آسودگی اور پر تعیش زندگی کی خبریں سنائیں تو میرا رنج مزید تکلیف دہ ہو گیا۔گزرے ہوئے ستر سالوں میں میرا حال وہی رہا‘ جو عوام کی اکثریت کا ہوا۔ لیکن جب آنے والے سترسالوں کے دوران میاں صاحب نے ‘اپنی مزیدخدمات کی نوید سنائی تو میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ پچھلے ستر سالوں کی غریبی‘ محنت اور دکھ بھرے شب و روز کی اذیت ناک زندگی یاد آئی تو میرا دل آنے والے دنوں کا تصور کر کے تڑپ اٹھا۔ اور میں اگلے چالیس برس کے خوف سے لرزنے لگا۔خدانخواستہ اگر اگلے ستر سالوں میں صحافت سے وابستہ رہا اور لاہور شہر میں بھٹکنے والے مسافروں کو راستہ بتانے کی فیس لینا‘ میرا روزگار ٹھہرا تو مجھ پر کیا بنے گی؟

گزشتہ سالوں کے دوران جتنے بھی انتخابا ت ہوئے‘ ہر مرتبہ عوام کے مصائب پہلے سے بھی بڑھتے رہے۔ خصوصاً مشرقی پاکستان والوں پر اتنے ظلم توڑ ے گئے کہ انہوں نے اپنے وطن میں رہنے کے لئے دشمن کی مدد مانگی۔ یہ اور بات ہے کہ آج ان کا وطن‘ پرانے وطن سے بھی اذیت ناک ہو چکا ہے۔ میں قریباً24سال پہلے ڈھاکہ گیا تھا۔ وہاں چیمبر آف کامرس کے ممبران سے ملاقات ہوئی تو سب نے ایک ہی بات کہی کہ ” پاکستان میںہم جیسے ہزاروںچھوٹے چھوٹے مسلمان دکانداروں کو‘ آسان شرائط پر بڑے بڑے قرض دے کر‘ خوش حال تجارت کے مواقع مہیا کئے گئے اور اچھی زندگی نصیب ہوئی۔ لیکن سارے مسلمانوں کی ترقی ایک حد پر آکر رک گئی‘‘۔ یوں لگتا ہے کہ آج بھی ان کا وہی حال ہو گا۔مجھے اپنے قومی لیڈر کی آج والی تقریر سن کریوں لگا کہ میرے آنے والے ستر سال بھی ‘بلوچ عوام کی طرح گزریں گے۔اور میرے دل سے دعا نکلی کہ اے خدا وند کریم! ستر برسوں کے بعدمظلوم بلوچ بھائیوں پر امید کا جو پہلا دن طلوع ہوا‘دوبارہ انہیں کوئی پرانا دن یاد نہ کرنا پڑے۔مجھے امید ہے کہ جس طرح بلوچ بھائیوں کو خوش قسمتی کا ایک موقع نہیں بلکہ ایک ہی دن میں دو مواقع میسر آئے۔ لگتا ہے کہ ایسے پر مسرت دنوں کی قطاریں اگلی صدیوں تک مسلسل نصیب ہوتی رہیں گی کیونکہ بلوچ قوم کے ستر برس بہت اذیت میں گزرے ہیں۔

پاکستان کی بلوچ قوم بہادر‘ جفا کش‘ آزادی پسند اور سرفروش رہی ہے۔انگریزوں کے پٹھو ‘جو بلوچوں پر بطور حکمران مسلط ہوئے۔انہوں نے جس طرح پنجاب اور سندھ کے محنت کشوں پر مظالم ڈھائے‘ بلوچوں کو بھی اسی انداز میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ان کی زندگی میں آزادی‘جفا کشی بلکہ سرکشی تاریخی معمول ہے۔بلوچ عوام کے لیڈر وں نے پاکستان کو اپنا وطن تصور کرتے ہوئے‘ اپنے طویل و عریض صحرائوں اور سر بلند پہاڑوں میں گزارے ہوئے ماضی سے بہتر زندگی میسر آئے گی۔بلوچوںکی زندگی میں عیش و عشرت کا خاص تصور نہیں تھا۔انہیں اپنے اونٹ‘ بھیڑ بکریاں کبھی کبھار پیدا ہونے والی اچھی فصلیں پسند تھیں ۔ آزادی کے ابتدائی سالوں میں بھی ان کی زندگی میں خاص فرق نہیں آیااور وہ فطرت کے آغوش میں اپنی زندگی بندہ صحرائی اور مرد کوہستانی کے روایتی انداز میں گزارتے رہے۔

پرانے زمانے کے لوگ بتاتے ہیں کہ تمام بہادر قوموں کی طرح‘ بلوچ بھی جاں فروش اور سرکش ہیں ۔ ان کے طرز زندگی میں جرائم کا نام و نشان نہیں تھا۔کوئی جرائم پیشہ‘ بلوچ قوم کی زندگی میں ظاہر ہوتا تو اسے اجتماعی سزا دے کر‘ طویل عرصے کے لئے قبیلے سے باہر کر دیا جاتا۔پاکستان بننے کے بعد جب باقاعدہ پولیس اور بیوروکریسی ‘ بلوچستان میں متعارف ہونے لگی تو ہر خوش حال اور غریب بلوچ ‘ پولیس کو دیکھ کر اس کی میزبانی کرتا۔انگریز کی تربیت یافتہ پولیس فورس‘ بلوچوں کی تہذیب اور میزبانی کے انداز دیکھ کر‘ ان سے غلام ہندوستان کے ڈاکوئوں اور روایتی جرائم پیشہ لوگوں جیسا سلوک کرنے لگی۔جواب میں سرکش بلوچوں نے ایسامزہ چکھایا کہ پولیس کھلے صحرائوں میں داخل ہونے سے ڈرنے لگی۔کافی عرصہ گزرنے کے بعد‘جب بلوچ سرداروں اور حکومتی نمائندوں کے درمیان انڈرسٹینڈنگ پیدا ہوئی تو پولیس کو بلوچوں کے طرز زندگی کی سمجھ آنے لگی۔

پرانے زمانے کے پولیس افسر بتایا کرتے تھے کہ بلوچوںمیں چوری اور ڈاکے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اگر کوئی چورمل جاتا تو اسے پکڑنے والے‘ تھوڑی ہی دیرکے بعد سمجھ جاتے کہ یہ بھاگنے کی کوشش نہیں کر رہا۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ پولیس کا حوالدار چور پکڑ لیتا تو وہ اپنی اگلی منزل کی طرف جاتے ہوئے ‘چور کو کسی ٹیلے پر بٹھا کر ا سے کہتا تم یہیں رہنا۔میں اگلے گائوں کا جھگڑا نمٹنے کے بعد واپس آئوں گا۔بہت عرصے تک پولیس کے اہلکار اسی انداز میں کام کرتے رہے۔ یہ تھی وہ سادہ لوح‘ اصول پرست اور چوری چکاری سے بے خبر بلوچ قوم۔ دل تو بہت کچھ لکھنے کو چاہتا ہے۔

کالم میںاس کی گنجائش نہیں۔ بلوچوں کی نوجوان نسل نے جب تعلیم سے فیض یاب ہو کر ‘جمہوری آزادیاں حاصل کرنے کے طور طریقے سیکھنے کے بعد‘جو پہلا جمہوری تجربہ اختیار کیا‘ اس کا مظاہرہ پوری پاکستانی قوم نے دیکھا۔ بلوچ قوم نے جمہوری زندگی میں داخل ہونے کاابھی پہلا تجربہ حاصل کیا ہے۔بہتر ہو گا اس کے ساتھ چالاکیاں‘فریب کاریاں اور دغا بازیاں کرنے سے پرہیز کیا جائے۔جنگجو قومیں جب مہذب زندگی میں داخل ہوتی ہیں تو جرمنوں کی طرح دلیرانہ طرز زندگی اختیار کر کے‘ بہترین تخلیقی صلاحیتوں سے کام لیتی ہیں۔ایسی قو موں کے مزاج میں جھکنا اور اطاعت گزار ی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔بلوچ قوم کو جمہوری زندگی سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ہے تواسے انصاف کے ساتھ آگے بڑھنے کے مواقع ملنا چاہئے۔ورنہ انہیں طاقت اور زبردستی کا سامنا کرنا پڑا تو یہ کام بلوچ صدیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے