امام کعبہ کی پاکستان آمد،چندسوالات

جس ملک میں انصاف ناپید ہو، طبقاتی نظام کا راج ہو ، امیر اورغریب میں حد درجہ فاصلہ پایا جاتا ہو وہ کھبی بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل نہیں ہوسکتا ۔ معاشرے میں انصاف کی فراہمی کسی بھی ملک کی پیشرفت اور خوشحالی کا اولین زینہ ہوتی ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں سر فہرست شمار ہوتا ہے جن کے عوام کی اکثریت انسانی بنیادی ضروریات جیسے تعلیم، طعام، لباس ،پانی ، بجلی ۔۔۔ سے بھی محروم ہے ،جس کی وجہ پاکستان غریب ملک ہونا نہیں بلکہ کچھ فرعونی صفت کے حامل افراد بر سر اقتدار رہ کر دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹنا ، قومی خزانے خالی کرکے دوسرے ملکوں میں لے جاکر اپنی اولاد اور خاندان کے لئے سرمایہ بنانا ہے ۔

وطن عزیز میں اب تک جتنے بھی حکمران آئے ہیں انہیں قوم اور ملک کی ترقی کی فکر کم اور اپنی ترقی کی فکر زیادہ رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پاکستان کو مستحکم مربوط اور منظم نظام دینے سے عاجز اور قاصر رہے،انہوں نے عوام کو ہمیشہ کالے نظام کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور کررکھا ، یاد رہے کسی بھی ملک کو نظم ونسق اور مضبوط سسٹم سے چلانے کے لئے اس کےحکمران اپنےمفادات سے زیادہ ملک اور قوم کے خیر خواہ ہونا ضروری ہے، اس خصوصیت کے حامل حکمران میسر آنا فقط اس صورت میں ممکن ہے کہ عوام باصلاحیت ایماندار افراد کو ووٹ دے کر انہیں اپنے ملک کا حکمران منتخب کریں، البتہ اس کے لئے پڑھے لکھے طبقوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو اس حوالے سے شعور دیں انہیں اس بات پر باور قلبی پیدا کروائیں کہ حکمران اور نمائندوں کے انتخاب کا واحد معیار قابلیت اور باصلاحیت ہونا ہے۔

لیکن ہمارے ہاں تو الٹی کنگا بہتی نظر آتی ہے ۔ حکمران منتخب کرنے کا ہمارا معیار ثروت اور دولت ہے جو جتنا مالدار ہوگا اسے اقتدار اعلی کے لئے سب سے زیادہ شائستہ سمجھا جاتا ہے ۔ ماضی سے لے کر آج تک کچھ حکمران کو چھوڑ کر زرداری ،نواز شریف سمیت نالائق ترین حکمران پاکستان کا مقدر بنے رہے ۔ جنہوں نے اپنی نالائقی کے سبب قوم اور ملک کو کنگال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔انہوں نے ملک کو پستی کی طرف لے جانے میں تو بھرپور کردار ادا کیا مگروہ ملک کی ترقی جو ہر پاکستانی کا خواب ہے کو شرمندہ تعبیر نہ کرسکے۔ وہ وطن عزیز میں یکساں قانون نافذالعمل کروانے سے عاجز رہے ۔آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے اندر قانون فقط غریبوں کے لئے ہے۔ امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والے قانون کے دائرے سے خارج ہیں ۔ تعلیم کسی ملک کی ترقی کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے مگر ہمارے ہاں نصاب تعلیم ،اساتذہ اور تعلیمی درسگاہیں بھی امیر وغریب کی تفریق کی بنیاد پر متعین ہیں۔گورنمنٹ اسکولوں میں تعلیمی صورتحال انتہائی مخدوش ہے جہاں غریب طبقوں کے بچے پڑھتے ہیں ۔امیرطبقہ توگورنمنٹ اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھوانےکا تصور بھی نہیں کرسکتا بلکہ وہ اسے بہت بڑا عیب سمجھتا ہے ۔یہی وجہ ہےکہ وہ بھاری فیس ادا کرکے مہنگا ترین پرائیویٹ اسکول میں بھیج دیتے ہیں ۔۔ غریبوں کے لئے ٹیکس ادا کرنا واجب لیکن وڈیروں وزیروں و۔۔ کے لئے ٹیکس دینا نہ صرف واجب نہیں بلکہ مباح بھی نہیں سمجھاجاتا ۔

ہمارے حکمران فکری پستی کے حامل ہونے کی وجہ سے داخلی اور خارجہ پالیسی دونوں میں ناکام دکھائی دیتے ہیں جس کی بین علامت تمام شعبہ ہاٸے زندگی مساٸل اور مشکلات سے دوچار رہنا ہے ۔ پاکستان کے سیاسی میدان میں اجنبی افکار اور غلامانہ ذہنیت مسلط ہے ، ہمارے سیاست دان دوسروں کے مہرے بنے ہوٸے ہیں، ہمارا سیاسی نظام اغیار کی مداخلت سے محفوظ نہیں ۔اگر غور کیا جاٸے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں جو خارجی ملک سب سے زیادہ دخالت کررہا ہے وہ سعودی عرب ہے۔ حالیہ امام کعبہ کا دورہ پاکستان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ وہ ایسے وقت میں پاکستان تشریف لاچکے ہیں کہ سینیٹ انتخابات سے لوگ فارغ ہوچکے ہیں اور عام انتخابات نزدیک ہیں ۔

امام کعبہ شیخ صالح بن محمد آل طالب کا دورہ پاکستان کا ہدف اصلی ایک بار پھر سیاسی نظام میں مداخلت کرکے اپنے ہمفکر افراد کو اقتدار کے اعلی درجے تک پہنچانے کو ممکن بنانا تھا، بانی پاکستان کو کافر اور پاکستان کو کافرستان سمجھنے والے منصب واقتدار کے پیاسے ٹولوں نے اپنے سیاسی عزاٸم کی تکمیل کے لٸے امام کعبہ کو خصوصی طور پر مدعو کرکے لاہور لایا گیا، چنانچہ وہ آٸے پاکستان اور جمیعت اہلحدیث کی کانفرنس میں شرکت کی، طاہر اشرفی کے عصرانے میں بھی شریک ہوئے ،تکفیری سوچ کو پروان چڑھاکر دہشگردوں کی تربیت کرنے والے مدارس کا دورہ بھی کیا اور سعودی عرب کے ہر حکم کو دل وجان سے قبول کرنے والے وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف سے ملاقات بھی کی۔ انہوں نے لاہور میں جمعہ پڑھایا اور جمعہ کے خطبے میں دہشگردی کی مزمت بھی کی و۔۔۔۔

لیکن ہر محب وطن پاکستانی امام کعبہ سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہے کہ قبلہ آپ ہماری سرزمین پر تشریف لاکر تو دہشگردی کی بڑی مزمت کررہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ اسلام امن محبت اور رواداری کا نام ہے اسلام میں شدت پسندی کی کوٸی گنجاٸش نہیں تو جس ملک سے آپ تشریف لاچکے ہیں وہ کیوں عرصہ دراز سے یمن کے غریب عوام پر بڑی شدت اور بے رحمی سے دہشگردی کررہا ہے؟ کیوں سعودی عرب مسلمانوں کو چھوڑ کر اسلامی کے دشمن امریکہ واسراٸیل کا دوست بنا ہوا ہے؟ کیوں سعودی عرب پاکستان میں تکفیری سوچ رکھنے والوں کو سپورٹ کرتا ہے ؟کیوں سعودی عرب پاکستان کی سرزمین پر القاعدہ داعش اور طالبان کو تقویت فراہم کیا جارہا ہے؟ ظاہر ہے امام کعبہ کے پاس ان سوالوں کا کوٸی جواب نہیں۔ ہم امام کعبہ سے بس اتنا عرض کریں گے کہ ایھا الشیخ147 اول دار ثم الجار147 انتبہ یا شیخ 148یقول اللہ عزوجل فی القرآن لِمَ تقولون مالا تفعلون کبُر مقتاً عند اللہ ان تقولوا ما لا تفعلون وایضاً یقول قُو انفسکم واھلیکم ناراً وقودھا الناس والحجارة۔

اقتصادی میدان میں سود خوری، چوری بازی اور غیر ملکی قرضوں نے معیشت کو تباہ کررکھا ہے ، ایک طبقہ بسیار خوری سے بیمار ہے اور دوسرے طبقہ پر بھوک اور فاقہ کشی کا عفریت مسلط ہے ، سماجی میدان میں اسلامی شعائر عادات واخلاق مفقود ہیں ۔اسلامی اخوت بھائی چارہ اور ایک دوسرے سے محبت والفت کے سارے رشتے منقطع ہوچکے ہیں اور مسلمان ایک معاشرہ ایک محلہ بلکہ بعض اوقات تو ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے بیگانہ نظر آتے ہیں ۔

لسانی علاقائی اور فرقہ وارانہ عصبیت عروج پر ہے ، مغربی اور لادین نظام تعلیم رائج ہے ،ثقافتی میدان میں مادی تہزیب وتمدن حاوی ہے ، فکری طور پر الحاد اور مادہ پرستی کی جانب راغب ہیں ، اسی رغبت نے غلامانہ ذہنیت پست ہمتی اور احساس کمتری میں مبتلا کررکھا ہے ، عدالتی نظام مغربی قوانین پر مشتمل ہے ، عسکری نظام بھی بقیہ شعبوں سے مختلف نہیں ، معاشرہ سے رب کا تصور تک ختم ہونے کو ہے ، دینی تعلیمات اور اسلامی اخلاق پر عمل یا تو مفقود ہے یا نہ ہونے کے برابر۔ ان سارے مساٸل کی موجودگی میں کون یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ پاکستان ترقی کررہا ہے ارے میاں انصاف کی فراہمی ترقی کا پہلا زینہ ہوتی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے