سینیٹ انتخابات اور جمعیت علماء اسلام

ویسے تو سیاست میں گرما گرمی کا کوئی موسم نہیں ہوتا لیکن طے شدہ پروگرام کے مطابق مارچ کے مہینے میں ایوان بالا کے انتخابات ہونے تھے جسکی وجہ سے گرمی کی طرف بڑھتے موسم کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی خوب گرما گرمی رہی،اندیشوں ، وسوسوں اور غیر یقینی صورتحال کے برعکس خوشی کی خبر یہی ہے کہ ایوان بالا کے انتخابات کے دونوں مراحل خیروعافیت سے انجام پاگئے ہیں گو کہ حالات سیاسی جماعتوں اور قائدین سے 90 کی دہائی کی طرز سیاست سےباہر نکلنے اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرنے کا تقاضا کر رہے تھے لیکن سیاسی جماعتوں نے انتخابی میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کی بجائے غیر مرئی قوتوں کے بل بوتے پر ایک دوسرے کو چت کرنے اور بے تحاشہ پیسے استعمال کرکے فتح یاب ہونے کو ترجیح دی

جمعیت علماء اسلام کو بھی ایوان بالا کے ان انتخابات میں کامیابی ملی بلوچستان سے جے یو آئی کے امیر مولانا فیض محمد اور کے پی کے سے سابق سینیٹر محمد طلحہ محمود کامیاب قرار پائے یوں جمعیت علماء کے کل ارکان کی تعداد چار ہوگئی اورایوان میں پارٹی پوزیشن کی فہرست میں جے یو آئی ساتویں نمبر پر آگئی تاہم چئیر مین اور ڈپٹی چئیرمین کے انتخاب میں جےیو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان صاحب کی حکمت عملی اور بہتر انداز سے سیاسی امور کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے اس پورے عمل میں مرکزی سطح کی قیادت کے ساتھ مسلسل مشاورت اور ملاقاتوں کا حصہ رہے

سیاست جس کے بارے مشہور ہے کہ ناممکن کو ممکن بنا دیتی ہے ،کی یہ شہرت حالیہ سینیٹ انتخابات میں بھی برقرار رہی اور پی ٹی آئی بالواسطہ اور بلا واسطہ ہر دو راستوں سے اپنے سخت ترین حریف پی پی پی سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہوئی ، غیر سنجیدگی کا عالم یہ تھا کہ ہر نئے دن سورج طلوع ہونے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے جناب عمران خان صاحب اپنے بیانات تبدیل کر تے رہے یوں خان صاحب نے بیانات تبدیل کرنے کی روش برقرار رکھ اس اولوالعزمی کا ثبوت ایک بار پھر فراہم کیا کہ وہ بیانات اور موقف تبدیل کرنے کی عادت میں ثابت قدم رہتے ہیں بہر حال سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے اصول ونظریات کے مطابق صف بندی کی پی پی پی ، پی ٹی آئی ،بلوچستان اور فاٹا سے آزاد منتخب ہونے والے سینیٹرز ، سمیت دیگر جماعتیں ایک صف میں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن ، جمعیت علماء اسلام ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی اور کچھ دیگر جماعتیں ایک صف میں تھیں

پی پی پی اور انکے اتحادی جماعتوں کی جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک غیر معروف سیاسی نام جناب صادق سنجرانی چئیرمین کےاور پی پی پی کے سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چئیرمین جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے راجہ ظفر الحق اور عثمان کاکڑ امیدوار تھے، انتخابات ہوئے اور پی پی پی کے امیدوار کامیاب ہوگئے ،ان نتائج پر سیاست کے ادنی سے ادنی طالب علم کا یہی تبصرہ تھا کہ وہی نتائج سامنے آئے ہیں جو بڑےگھر کو پسند تھے

انتخابات کے بعد حسب سابق افسوسناک صورتحال پیش آئی اور جمعیت علماء اسلام کی کردار کشی شروع کر دی گئی کہ جے یو آئی کے اراکین نے ن لیگ کو ووٹ نہیں دئے ، جبکہ جے یو آئی کے ترجمان مفتی ابرار احمد انتخابات سے قبل جماعتی موقف بغیر کسی ابہام کے پیش کر چکے تھے کہ جے یو آئی پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوارون کو سپورٹ کرے گی لیکن اس کے باوجود جے یو آئی کا میڈیا ٹرائل کیا گیا ،قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب ، سینیٹر مولانا عطاء الرحمان صاحب ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولانا امجد خان اور جناب اسلم غوری صاحب کی جانب سے اسکی تردید کی گئی ،پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر پرویز رشید ،ڈاکٹر آصف کرمانی اور ڈاکر مصدق ملک صاحب کی جانب سے بھی اس موقف کو افواہ قرار دیا گیا لیکن میڈیا میں یہ موضوع مسلسل زیر بحث رہا

یہ سب پاکستانی سیاست کا ایک تاریک پہلو ہے کہ باوجود جمہوری ملک ہونے کے اور ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کی جانب سے جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنے کی خواہش کے سیاسی جماعتوں کوآزادانہ فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ،دبا و ،دھونس اور دھمکیاں دی جاتی ہیں ،مولانا فضل الرحمان صاحب نے میڈیا کے سامنے اس دباو کا اظہار بھی کیا ۔یہ دباو ڈالنے والے کون ہیں ،ظاہر ہے اس بارے سب جانتے ہیں اگر تو دباو کو قبول کر لیا جائے تو ٹیکس ورنہ میڈیا ٹرائل شروع کر کے عوام کے سامنے دباو قبول نہ کرنے والی جماعت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کئے جاتے ہیں ،اتحادی جماعتوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے یوں سیاسی اور جمہوری عمل کو کمزور سے کمزور کرکے ملبہ بھی بالاکر سیاستدانوں پر ڈالا جاتا ہے پھر اسی بناء پر کرپشن کے الزامات لگتے ہیں حکومتیں گرتی اور بنتی ہیں

بہر کیف جمعیت علماء نے دباو قبول نہیں کیا ،جمہوری قوتوں کی صفوں میں کھڑے ہو کر اپنے اس بیانیے کو عملی طور پر ڈیفینڈ کیا جس کا اظہار مولانا فضل الرحمان صاحب تسلسل سے کرتے آرہے ہیں کہ جے یو آئی مذہبی سیاسی جماعت ہے جو آئین اور قانون سے ماوراء کسی بھی اقدام کی حمایت نہیں کرتی ، مذہب ،آئین اور قانون کے دائرہ اختیار میں رہ کر اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کی جانب جدوجہد میں مصروف ہے اور ان حدود کو کراس کر کے کسی غیر آئینی طریقہ کار کو نہ اختیار کرتی ہے نہ ہی حمایت کرتی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے