چڑیا کے گھونسلے سے جونہی کوئی بچہ (بوٹ) نیچے گرتا تو اس کی ماں ایک دم شور مچانا شروع کر دیتی۔ بعض مرتبہ انڈے نیچے گرتے اور ٹوٹ جاتے، بعض اوقات بچہ اس قدر چھوٹا ہوتا کہ گرتے ہی دم توڑ دیتا اور سیاہ چیونٹیوں کا جھرمٹ اس پر ٹوٹ پڑتا۔ لیکن کچھ بچے ایسے ہوتے تھے جو بچ جاتے تھے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے پر نکل چکے ہوتے تھے لیکن بیچارے اڑ نہیں سکتے تھے۔ ہمیں پتا تھا کہ یہ نیچے رہا تو بلی کھا جائے گی۔
ہمارے گھر لکڑی کی ایک سیڑھی ہوتی تھی۔ ہم اس تھرتھراتی ہوئی باریک باریک ٹانگوں اور چھوٹی سی پیلی جونچ والے بچے کو پکڑتے اور اسے دوبارہ اس کے گھونسلے میں رکھ دیتے۔ بعض مرتبہ تو یہ خوف سے اپنی مکمل طاقت کے ساتھ انگلی کا ماس چونچ سے پکڑ لیتا یا پھر پنچے کے باریکے لیکن تیز ناخنوں سے نشان ڈال دیتا۔
یہ منظر ہمیں تواتر سے دیکھنے کو ملتا تھا۔ ہمارے کچے صحن کے بائیں جانب واقع یہ کمرہ نما برآمدہ چڑیوں کے گھونسلو ں سے بھرا پڑا تھا۔
ہم اس بڑے برآمدے کے لیے پنجابی کا لفظ “ٹارا” استعمال کرتے تھے۔ پچھلے دنوں امرتا پریتم کی ایک پنجابی نظم نظر سے گزری تو مجھے فورا اپنا ٹارا یاد آ گیا۔
“امبر ھَس کے ویکھن لگا
اس ٹارے چھتن والی نُوں
وے سائیں تیرے چرخے نے
کت لیا کتن والی نُوں
اس ٹارے کی چھت مکمل لکڑی کی تھی۔ شہتیر اور “بالوں” کے درمیان خالی جگہیں ان چڑیوں کے تنکوں سے بنے گھونسلوں نے پُر کر رکھی تھی۔
گرمیوں میں رات کو بارش آتی تو دو تین چار پائیاں اس ٹارے میں بھی آ جاتیں۔ بارش کے ساتھ تیز ہوا چلتی تو پھوار کھیس سے باہر نکلے ہوئے چہرے کو ترو تازہ کر جاتی۔ یہ کمرہ نما برآمدہ اسٹور کا کام بھی دیتا تھا۔ چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں کاٹ کر بھی ہم وہاں رکھتے، کچی چھتوں کی لپائی میں اور بھینس کو ڈالنے کے لیے توڑی (بھوسی) بھی ادھر رکھتے۔ کسی چارپائی کا پایا بھی ٹوٹتا تو اس کے لیے محفوظ جگہ یہی اسٹور نما برآمدہ تھا۔ بعض مرتبہ امی کچے اچاری آم لاتیں تو ہم چند ایک آم وہاں رکھی توڑی میں دبا دیتے تاکہ گرمی سے جلدی پک جائے۔
ہمارے صحن کے بائیں جانب واقع کمرے میں بھی چڑیوں نے گھونسلے بنانے کی کوشش کی۔ ہم سبھی بہن بھائیوں کا یہی کمرہ تھا۔ بڑی باجی کو جھاڑو دینا پڑتا تھا اور ہمیشہ یہ اعتراض رہتا تھا کہ یہ چڑیاں گند بہت ڈالتی ہیں۔ باہر سے تنکے لاتی رہتی ہیں اور یہاں گراتی رہتی ہیں۔
ویسے تو اب باجی کا نظریہ بدل چکا ہے۔ دو ہفتے پہلے بڑی باجی سے بات ہو رہی تھی تو وہ اب اس بات پر بہت خوش تھیں کہ ان کے ایک کمرے میں چڑیوں نے گھونسلے بنا لیے ہیں۔
خیر بات ہمارے پرانے گھر کی ہو رہی تھی۔ تو چڑیاں جلد ہی اس کمرے سے ہجرت کر گئیں اور اس کی وجہ گوں گوں کی آواز دینے والا پرانا چھت والا پنکھا تھا۔ لائٹ اس وقت کم کم ہی آتی تھی۔
ہم جب بھی پنکھا چلاتے تو آتے جاتے کوئی چڑیا اس سے ٹکراتی اور بیچاری ماری جاتی۔ ہم کئی مرتبہ پنکھا بند کر کے چڑیوں کو کمرے سے باہر نکال دیتے۔ لیکن چار پانچ چڑیوں کے مرنے کے بعد وہ خود ہی یہ کمرہ چھوڑ گئیں۔ لیکن اس کے برعکس اس برآمدے (ٹارے) میں ان کی نسل پروان چڑھتی رہی۔
انسان کے ضمیر کی سب سے بڑی “خرابی یا خوبی” یہ ہے کہ یہ اکثر تو سویا رہتا ہے اور جب کبھی بھی اسے بھنک پڑ جائے، پتا چل جائے، احساس ہو جائے، ادراک ہو جائے کہ اس نے کچھ غلط کیا ہے تو یہ سکون نہیں لینے دیتا۔
چند ماہ پہلے کی بات ہے، ڈی ڈبلیو میں ہم چند دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ گفتگو یہ چل رہی تھی کہ ضمیر جب کوئی بات پکڑتا ہے، چاہے وہ نہایت معمولی ہی کیوں نا ہو تو جان نہیں چھوڑتا۔ عدنان نے بتایا کہ ایک مرتبہ اس نے جان بوجھ کر کسی کو راستہ غلط بتایا تھا اور یہ بات آج تک اس کا پیچھا کرتی ہے۔ عاطف بلوچ نے بھی ایک قصہ سنایا۔ تو مجھے بھی ایک بات جو ہَنٹ کرتی ہے، جو پیچھا کرتی ہے، ضمیر جس پر ملامت کرتا ہے وہ ایک چڑیا کی موت ہے۔
چھٹی، ساتویں جماعت کا واقعہ ہے۔ میں گرمیوں کی چھٹیوں میں نیم کے درخت کے نیچے چار پائی پر لیٹا ہوا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، چھوٹی سی۔ سامنے ایک ٹہنی پر دو چڑیاں لڑ رہی تھیں ایک دوسرے پر چونچوں سے حملہ آور تھیں اور میں غور سے دیکھتا جا رہا تھا۔ میرے ذہن میں پتا نہیں کیا آیا، میں نے چھڑی زور سے ان کی طرف پھینکی۔ وہ ایک چڑیا کو لگی اور وہ وہیں مر گئی۔ اب مجھے بہت دکھ ہوا۔ پھر میں نے اس چڑیا کی قبر بھی کھودی اور بھاری دل کے ساتھ اسے دفنایا بھی لیکن وہ شرمندگی اور ہلکا سا احساس ندامت میں آج تک محسوس کرتا ہوں۔
اس واقعے کے بعد چڑیوں اور چھوٹے جانوروں کے لیے میری محبت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ایک تو جرم پر شرمندگی تھی، گلٹی تھی، جرم کا احساس تھا اور دوسرا یہ خیال آیا کہ کہ نہیں اب میں ان کے لیے بہتری کروں گا، اس کا ازالہ کروں گا۔اس کے بعد ایک اور میرے اندر تبدیلی آئی کہ میں نے چیونٹیوں کا تھوڑا بہت خیال کرنا شروع کر دیا۔
گرمیوں میں نلکے کے قریب چند ایک چیونٹیاں وغیرہ ہوتیں تو پانی چلانے سے پہلے میں جھاڑو کے ایک تنکے سے انہیں دائیں بائیں کر دیتا۔ یا پانی میں گھری چیونٹی کو سوکھی جگہ پر رکھ دیتا۔
ابھی پچھلی گرمیوں کی بات ہے۔ جرمنی میں میرے گھر کے قریب دو بچے کھیل رہے تھے ۔ ایک بچے نے چیونٹی پر پاوں مارا تو دوسرے نے بڑھ کر اسے فورا روک دیا اور کہنے لگا، “دیکھو تم اگر چیونٹی ہوتے اور وہ تم پر پاوں مارتی تو تم فورا مر جاتے، تمہاری زندگی ختم ہو جاتی، پھر تم نہ کھیل سکتے نہ تم لولی پاپ کھا سکتے۔” یقین جانیے مجھے اس بچے کی بات سن کر بہت خوشی ہوئی۔ اگر یہی سوچ پروان چڑھے گی تو کل کو یہ بچے چڑیوں کا شکار کرنے کی بجائے انہیں دانہ ڈالنے اور انہیں پانی پلانے میں زیادہ خوشی محسوس کریں گے۔
بات اس برآمدے (ٹارے) اور چڑیوں کے گھونسلے کی چل رہی تھی۔ میں جرمنی آ چکا تھا، سن دو ہزار چھ یا سات کی بات ہے کہ ایک دن فون آیا کہ رات شدید بارش اور تیز آندھی کی وجہ سے وہ ٹارا گر گیا ہے۔ لیکن گھر والے پریشان بھی نہیں تھے۔ اعجاز بھائی نے ساتھ ہی یہ “خوشخبری” بھی سنائی کہ اب ہم پکی چھت ڈالیں گے، لینٹر ڈالیں گے۔ مکان نئے بنے تو جہاں کبھی نیم اور بکائن کا درخت تھا، وہ جگہ پانچ چھ فٹ کی ڈاولینس کی فریج نے لے لی۔
ہم سب کو لینٹر اور پختہ چھت کی خوشی تو تھی لیکن ہم میں سے کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ کچی چھت پر بارش کی قطروں سے پیدا ہونے والی پر ترنم آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ہے۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ چڑیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس گھر سے روٹھ گئی ہیں۔ کسی نے بھی یہ سوچا کہ وہ چہچہاہٹ، شام ڈھلتے ہی لگنے والا پنچھیوں کا میلہ، ان کے چھوٹے چھوٹے بچے(بوٹ) اب کبھی بھی اس گھر واپس لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
اور اب بھی یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ اگر چھتیں اسی طرح پختہ ہوتی رہیں، لینٹر پڑتے اور درخت کٹتے رہے تو چڑیاں بیچاری اپنے بچوں کو لے کر کدھر جائیں گی؟
آج بیس مارچ چڑیوں کا عالمی دن ہے۔