اس وقت جو تین سیاسی پارٹیاں انتخابی اور آئینی معاملات پر بر سر پیکار ہیں‘ ان تینوں میں سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا زورد ار مقابلہ ہوا۔مسلم لیگ(ن) بڑے زور شور سے دعوی کر رہی تھی کہ وہ سینیٹ کے خالی عہدوں پراپنے امیدوار اتارے گی۔ ہمارے مقابلے میں کسی دوسری پارٹی میں یہ سکت نہیں کہ وہ ہمارے مقابلے میںایک امیدوار بھی کھڑا کر سکے۔بہت زوردار مقابلہ ہوا۔اپوزیشن کی طرف سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مشترکہ امیدوار کھڑے کئے۔جبکہ مسلم لیگ(ن) کی نظر میں کوئی دوسری جماعت اس کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتی تھی۔ن لیگ کی قیادت ٹانگ پہ ٹانگ رکھے‘ بڑے بڑے دعوے کر رہی تھی اور سینیٹ کے عہدیداروں کے مقابلے کو خاطر میں ہی نہیں لا رہی تھی۔اس نے اطمینان سے اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ سابق وزیراعظم جو درحقیقت بر سر منصب وزیراعظم ہیں‘ وہ اپنے امیدوار بنا کر بھول گئے کہ ایسے چھوٹے چھوٹے مقابلوں میں بذات خود حصہ لیناان کے شایان شان نہیں۔
جب ڈبے میں ووٹ ڈالے جانے لگے تو پاکستان کے ” تاحیات وزیراعظم‘‘ کو اچانک خیال آیا ۔ انہوں نے اپنے ماہر مشیروں سے جلدی میں سوال کیاکہ ”ہمارے دونوں امیدوار جیت چکے ہیں یا وہ میدان چھوڑ کر بھا گ گئے؟‘‘گنتی سے کچھ دیر پہلے جب (ن) لیگ کی ٹیم نے ووٹوں کی پوزیشن کا جائزہ لے کر ” تاحیات وزیراعظم ‘‘کو یہ خبر سنائی کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین تو ہمارے مخالفین کی طرف سے منتخب ہو چکے ہیں۔یہ خبر (ن) لیگ کے کیمپ میں پھیلتے ہی دہائی مچ گئی۔ساری حکمران ٹیم چاروں طرف دوڑ بھاگ میں لگ گئی ۔ گنتی ہونے کے بعد‘ نتائج سامنے آئے تو کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ پاکستان پر مستقل حکومت کرنے والی(ن) لیگ کو ‘دو جماعتوں سے شرم ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ سچ یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے مہا گرو‘ جو سیاست کی تمام اونچ نیچ کے ماہر ہیں۔انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی جیت ہار کے بارے میں‘ نتائج بہت پہلے بتا دئیے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ دو بڑے عہدوں کے بعد ہم قائدحزب اختلاف بھی اپنی پارٹی کی طرف سے کھڑا کریں گے۔یعنی موصوف کی سیاسی مہارت کا یہ عالم تھا کہ وہ کامیاب گروپ کے دونوں بڑے امیدواروں سے ہارنے کے بعد‘اپنے آپ کو تھپکیاں دے رہے تھے اور انہوں نے بڑے اعتماد سے اعلان کر دیا کہ قائدحزب اختلاف بھی ہماری طرف سے ہو گا۔ جائو اعلان کر دو۔
جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ حزب اختلاف کی قیادت کے لئے‘ جس امیدوار کو انہوں نے میدان میں اتارا تھا‘ مسلم لیگ(ن) تو اس کے مقابلے کے لئے بھی کھڑی ہو گئی ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے کہ حزب اختلاف کی قیادت کے لئے بھر پور مقابلہ ہو گا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابی مقابلوں کے مہا گرو اپنے امیدوار کو میدان میں اتار کے‘ شاگردوں کو سیاست کا سبق پڑھا رہے تھے۔ ساتھ ہی تیاری کر رہے تھے کہ سینیٹ کے چیئرمین کے لئے بھی وہ اپنا ایک کھلاڑی میدان میں اتاریں گے۔ ان کے پاس ٹرمپ کا ایک کارڈ موجود ہے‘ جسے وہ عین وقت پرکھیلیں گے۔ جب چیئرمین کے امیدوار کے لئے نام افشا ہوا‘ توان کے نیاز مندوں نے واہ واہ کے آوازے بلند کئے اور گرو جی نے ایک فاتحانہ نظر اپنے نیاز مندوں پر ڈالی اور چیئرمین کا منصب جیت لینے کے انداز میں بتایا کہ ”بس تھوڑے دن میں چیئرمین کا عہدہ ہماری مٹھی میں ہو گا‘‘۔
دوسری طرف منتخب چیئرمین سینیٹ‘ صادق سنجرانی جو اپنی کامیابی پرگرو جی کی مہربانیوں اور احسانوں پر جھک جھک کر شکریہ ادا کر رہے تھے‘اچانک یہ دھماکہ ہوا کہ گرو جی کے حامیوں نے‘ کوئٹہ ہائی کورٹ میں اپیل کر کے‘ سنجرانی صاحب کی قانونی پوزیشن کے بارے میں استدعا کی ہے۔ہائی کورٹ کی طرف سے جواب ملا کہ چیئرمین سینیٹ کی عمر کی کا تعلق قائم مقام صدر بننے کی عمر سے نہیں۔یہ دونوں عہدے الگ الگ ہیں۔صدر جب کسی بیرونی ملک جائیں گے تو قانون کے مطابق ان کی غیر حاضری میں ‘ چیئرمین سینیٹ کی عمر ‘اپنے منصب کے مطابق ہو گی‘ نہ کہ صدر مملکت کے منصب کی عمر کے مطابق۔ غالباً اسی دلیل کی بنیاد پر کوئٹہ ہائی کورٹ نے‘ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا انتخاب بالکل درست قرار دیا۔ دونوں منتخب عہدیدار آئین کے مطابق بالکل جائز ہیں۔عام سیاسی کارکن آپس میں گفتگو کر رہے ہیں کہ ہمارے لیڈروں کو توا میدواروں کے فارم بھی پر کرنے نہیں آتے۔ جہاں منصب کے لئے عمر درکار ہے‘ فارم میں وہ خانہ ہی نہیں۔نہ بیچارے امیدوار کو پتہ چلا اور نہ ہی ان کے بزرگ سیاسی رہنمائوں کو سمجھ آئی۔
یہ ہیں اگلے انتخابی میدان میں اترنے والے تمام بزرگ سیاست دان اور ان کی مہارتیں‘جن کی روشنی میں کوئی معمولی سیاسی کارکن بھی سمجھ سکتا ہے کہ جن قومی سیاست دانوں کو اپنے امیدواروں کے فارم پر کرنے کا پتہ نہیں‘ وہ خود حکومتی امور کیسے چلائیں گے؟ہمارا حال تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ آ ف پاکستان نے ایک وزیراعظم کو نا اہل قرار دے دیا اور وزیراعظم صاحب اس فیصلے کو خاطر میں نہیں لا رہے۔عدالت عظمیٰ یہ کہہ رہی ہے کہ حضرت‘ اب وزیراعظم نہیں رہے۔ نا اہل ہو چکے ہیں۔ اور سابق وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ” جج حضرات ہی اس قابل نہیں کہ وہ مجھے وزارت عظمیٰ سے برطرف کر سکیں‘‘۔اگر انہی لیڈروں میں سے کسی ایک کو‘ حکومتی ذمہ داریاں سنبھالنا پڑیں ”تو تمہارا کیا بنے گا کالیو؟‘‘رہنمائوں کے اس ہجوم میں عمران خان ہی بھلے‘ جنہوں نے پہلے ہی قدم پر جان لیا تھا کہ وہ اپنے ووٹ کس کس کو دیں گے؟ جن دو امیدواروں کو خان صاحب نے ووٹ د ئیے‘ وہ کامیاب رہے۔ جو دوسرے لیڈر اِدھر اُدھر ہاتھ پائوں مارتے رہے‘ وہ کلاسیکل بھارتی فلم” بیجو باورا‘‘ کے استاد کی طرح زور لگا لگا کر کہہ رہے ہیں ”آگیا ہمارا شاگرد۔آگیا ہمارا شاگرد‘‘۔