مقدس گائے ، اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت

ہمارے ملک کی عوام کو سلام ،، عمران خان کے دھرنے میں ناچنے سے فیض آباد کے دھرنے میں لڑنے اور مرنے کا سفر پلک جھپکنے میں طے کرنے والی عوام کا مسلہ دھرنا نہیں بلکہ شاہرات کی بندش تھا ،، ان شاہراہوں پر سفر کرنے والے ہزاروں افراد جن مصیبتوں اور صعوبتوں کے بعد اپنی اپنی منزل تک پہنچتے تھے اسکا حال تو آپ بارہا سن ہی چکے ہیں ، لیکن آج کل جڑواں شہروں کی عوام ایک نئی پریشانی سے دوچار ہیں وہ ہے 23 مارچ کے لئے تیار ہوتا نیا پاکستان ، ہماری پاک و جانباز فوج نے اسلام آباد کی جانب رخ کرنے والی ہر گاڑی کو موڑ کر نئے راستوں کی طرف دھکیل دیا ،، لیکن ان خوار ہوتے شہریوں کی گاڑیوں میں اور بہت سارے ٹی وی سکرینوں پر ایک ملی نغمہ چل ہے "امن کا نشان ہمارا پاکستان ، ہم ہیں پاکستانی ہمارا پاکستان”۔

چند روز پہلے ایک لطیفہ نظر سے گزرا ، برطانوی دور میں ایک گاوں میں جبری فوجی بھرتی کا عمل جاری تھا ایک مراثی کو بھی بھرتی کیا گیا ، مراثی کی ماں کو اس کی مبارکباد دی گئی کہ آپ کا بیٹا فوج میں بھرتی کر لیا گیا ہے ، تو اس کی ماں نے جواب دیا ” پتر گل تے فخر دی اے” پر ملکہ کو بتائیں کہ اگر نوبت مراثیوں کے بچوں تک آ گئی ہے تو پھر صلح کر لے۔ تو بات کچھ یہی ہے اگر نوبت شہر اقتدار جو شہر جی ایچ کیو میں موبائل سروس اور روڈز بند کر کے ریہرسل کرنے کی آ گئی ہے تو آئندہ سے جنگ کےلئے پر نہ ہی تولے جائیں۔
یہ تو ایک رخ ہے ہمارے وطن کے پاسبانوں کا ، دنیا بھر کی افواج میں ترکی کی فوج واحد فوج ہے جو ملکی سرحدوں کے علاوہ ملکی آئین کی بھی پاسبان ہے ، جب ترک فوج نے جمہوریت پر شب خون مارنے کی کوشش کی تو انکی ” سو کالڈ ” سازش کا سر کچل دیا گیا اور جمہوری حکومت کے اس عمل کو خوب سراہا، ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی جمہوریت اتنی مضبوط ہے کہ کوئی فوجی اس پر حملہ آور ہونے کا سوچ تک نہیں سکتا۔

لیکن پاکستان کا ماضی اورحال جتنا فوج کے قبضے میں تھا اتنا ہی مستقبل فوج کے قبضے میں رہے گا ، پچھلے دو ادوار جمہوریت میں یہ بات کہی جا رہی تھی کہ اگر جمہوریت اپنے تسلسل سے چلتی رہی تو اتنی مضبوط ہو جائے گی کہ کوئی بھی اسکی طرف میلی آنکھوں سے نہیں سکے گا ، لیکن جمہوریت کے علمبرداروں کی جانب سے دیکھا گیا کہ یوسف رضا گیلانی سے نواز شریف تک ایک دوسرے کو ہی کاٹتے رہے ، ایک دوسرے کے خلاف ہی لڑتے اور نااہل ہوتے رہے ، ایک دوسرے کے خلاف ہی دھرنوں اور ریلیوں کی فضا کو ساز گار بنائے رکھا۔

حالیہ دنوں میں آپ نے سینٹ الیکشن سے چیرمین سینٹ اور شہباز شریف کی پارٹی صدارت کے لمحات بھی دیکھے ، کھلاڑی زرداری اتحاد بھی دیکھا ، ربانی سے سنجرانی تک سفر براستہ راولپنڈی کا نعرہ بھی سنا ، یہ سب ابھی چل ہی رہا تھا کہ ٹیلیویژن سکرینز سرخ ہوئی ، ن لیگ کے نئے صدر کا دورہ راولپنڈی اعلی شخصیات سے ملاقات ، اور پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کی تردید ، ایک ممتاز صحافی کا کہنا تھا کہ اگر خبرغلط ہو تو تردید نہیں ڈنڈا آتا ہے۔ کیا ہی خوبصورت لمحات گرزے جمہوریت کے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں۔ ایک اعلی فوجی افسر سے جب دوران بحث بات فیض آباد دھرنے پر آئی تو انکا کہنا تھا اس میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں یہ تو شہباز شریف کا کیا دھرا تھا۔

جب فوج سرحدوں کی حفاظت کی بجائے سیاست کرنے لگے تو کچھ سیاسی لوگ ڈپلومیسی سے سرحدوں کی حفاظت کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں جن کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف لڑنے اور جانوں کا نذرانہ دینے والے ملک کو گرے لسٹ میں ڈال دیا جاتا ہے ، اگر ملٹری ڈپلومیسی اور پاکستانی جمہوریت ایک پیج پر آ جائیں تو شاید اس وطن عزیز کو آئندہ بلیک لسٹ میں ڈالنے والی بیرونی طاقتوں کو روکا جا سکے۔

جیسے نا اہلی کے بعد پٹواری ، سینٹ الیکشن کے بعد زرداری اور کھلاڑی کے جیالوں اور متوالوں کو کوئی فرق نہیں پڑا ویسے ہیں جڑواں شہروں کی عوام کی زندگی اجیرن بنانے ، میٹرک کے پرچے دینے والے طلبا کا مستقبل تاریک ہونے اور کتنے ہی دیگر مسائل سے دوچارہونے والی عوام کےلئے فوج ، سیاسی رہنما اور وڈیرے سب ہی مقدس گائے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے