’’یہ بچ گئے تو ہم نہیں بچتے‘‘

چشم بددور کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے رت بدل رہی ہے، برف پگھل رہی ہے، کونپلیں نمودار ہورہی ہیں، نیم مردہ زمینیں زرخیز ہورہی ہیں، خواب اور تعبیر گلے ملنے کو بےتاب ہیں، گہری پیاس اور پانی کا ملاپ ہونے جارہا ہے…….پاکستان کروٹ بدل کر گہری نیند سے بیدار ہورہا ہے…….چشم بددور، اللہ نظر بد سے بچائے کہ دودھ کے جلے چھاچھ کو پھونکیں مارہے ہیں۔”Too good to believe”جیسی صورتحال ہے، منظر کی تبدیلی پر یقین نہیں آرہا، آنکھیں دیکھنے اور کان سننے سے انکاری نہیں تو ہچکچا ضرور رہے ہیں کہ پاکستان میں تو ایسی باتوں کا تصور تک محال تھا۔کیسے کیسے اونٹ اونٹنیاں پہاڑوں کے نیچے آرہے ہیں۔

کیسے کیسے شاہی گریبان ٹٹولے جارہے ہیں۔کیسے کیسے ڈبل بلکہ ٹرپل شاہوں کی سکیننگ جاری ہے۔ہر’’برہمن‘‘ سہما ہوا اپنی باری کا منتظراللہ پاک ہر اس شخص اور اس کے حوصلے کو سلامت رکھے جو پاکستان کی سمت تبدیل کرنے کے معاملہ میں سیریس ہے۔چیخ و پکار سننے کے عادی کان، مسحور کن موسیقی سن رہے ہیں۔’’بیرون ملک جائیدادیں، کیوں نہ 100بڑے لوگوں کو بلالیں‘‘۔’’قوم کا پیسہ واپس لانا سب کی ذمہ داری ہے‘‘۔’’اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر سب کچھ پاک کرلیاجاتا ہے‘‘۔’’کرپشن کی رقم محفوظ بنانے کے لئے باہر رکھی جاتی ہے‘‘۔’’بےایمان لوگوں کو خصوصی مراعات دیں جاتی ہیں‘‘۔’’غیر قانونی طریقوں سے پیسہ منتقل کرکے قانونی طریقے سے واپس لاتے ہیں‘‘۔کون نہیں جانتا کہ حرف حرف حقیقت پر مبنی ہے۔میں نہیں جانتا کہ کون ایسا کرسکتا ہے لیکن ایسا کرنا ضرور چاہئے۔

اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اشتہارات چلائے جائیں کہ جو شخص کسی بھی شخص کے حرام مال، اثاثوں وغیرہ کے بارے میں ٹھوس اطلاعات فراہم کرے گا، نہ صرف یہ کہ اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا، اس کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے گا بلکہ اس کی نشاندہی، معلومات وغیرہ کی روشنی میں ریکور کی جانے والی رقوم، اثاثوں وغیرہ کا ایک چوتھائی اسے بطور انعام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اسے دیگر مراعات سے بھی نوازا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ تجویز بغیر کسی فنشنگ کے بہت ہی کروڈ شکل میں پیش کی جارہی ہے جسے سنوارا، نکھارا جاسکتا ہے لیکن’’مرکزی خیال‘‘ کے بارے مجھے یقین ہے کہ اگر کبھی ایسا ہوگیا تو ایسا ایسا انکشاف ہوگا کہ چودہ نہیں چوبیس طبق روشن ہوجائیں گے کہ ہم نے آج تک بہت سے رستم ہی نہیں، بے شمار چھپے رستم بھی پیدا کئے اور سہرابوں کی تعداد کا تو کسی کو اندازہ ہی نہیں۔پنجاب حکومت بھی بالآخر اس نتیجہ پر جاپہنچی کہ ’’نیب‘‘ سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پرانے چیئرمین نیب کے بعد، ان کے برعکس نئے چیئرمین کی آمد کو اتفاق سمجھاجائے یا معجزہ؟پہلے عرض کیا کہ”Too good to believe”والی سچوئشن ہے، اس لئے یقین نہیں آرہا کہ ہمارے نصیبوں میں ایسے روشن دن بھی تھے لیکن آج 22مارچ مولانا فضل الرحمن کی گریہ و زاری دیکھ، سن ، پڑھ کر یقین سا ہونے لگا ہے کہ معاملات منطقی ا نجام تک ضرور پہنچیں گے اور’’کچی ٹٹ گئی جنہاں دی یاری اوپتناں تے رون کھڑیاں‘‘ جیسا حادثہ نہیں ہوگا۔ مولانا کے ماتم کی ہائی لائٹس ملاحظہ فرمائیں۔ ’’جمہوریت لاچار اور بےبس‘‘ ’’سیاستدان متحد نہ ہوئے تو ذلیل ہوں گے‘‘ ’’یہ سیاسی نظام کو سوالیہ نشان بنارہے ہیں‘‘۔’’لوگوں کے دلوں میں عوامی نمائندوں کے لئے نفرت پیدا کی جارہی ہے‘‘۔’’قوم اس صورتحال سے چھٹکارا چاہتی ہے‘‘۔مولانا کی سیاسی جمہوری پرفارمنس پر اک لفظ کہے بغیر چند بنیادی باتیں۔حضور! جینوئن جمہوریت کبھی لاچار اور بےبس ہوہی نہیں سکتی جیسے دو نمبر جمہوریت کبھی توانا ہو نہیں سکتی۔

اتحاد کی اہمیت کو صرف شعور محسوس کرسکتا ہے جس کی ہمارے سیاستدانوں میں کمی نہیں، قحط ہے، ان کی تو روٹی روزی انتشار میں ہے۔رہ گیا سیاسی نظام کو سوالیہ نشان بنانا تو یہ سیاسی نہیں مافیائی، موروثی، اجارہ داری نظام ہے اور جہاں تک تعلق ہے’’عوامی نمائندوں کے لئے نفرت پیدا کرنے کا‘‘ تو اس نفرت نے ان کے اپنے کرتوتوں کی کوکھ سے جنم لیا ہے کہ ان لوگوں نے لوگوں کو دیا ہی کیا ہے اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ قوم اس صورتحال سے نہیں، اس کے ذمہ داروں سے چھٹکارا چاہتی ہے کہ اگر ان کے ستارے روشن ہیں تو سمجھو ہمارے ستارے بجھ گئے……اگر ان مافیاز کا مستقبل روشن ہے تو ہمارا مستقبل تاریک ہے اور اگر اس بار بھی یہ بچ گئے تو ہم نہیں بچتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے