جہاد عظیم اور جمہوری قبضہ گروپ

میں خود بور ہو جاتا ہوں تو میرے قارئین پر کیا گزرتی ہو گی ؟لیکن میں بھی کیا کروں؟کدھر جائوں کہ لکھنا کسی اور موضوع پر چاہتا ہوں لیکن ’’میاں جی اینڈ ہمنوا‘‘ میں سے کوئی نہ کوئی اپنے کسی نہ کسی قول یا کارنامے کی وجہ سے میرے سامنے آ جاتا ہے۔آج لکھنا تو مجھے اک بدنصیب مغل شہزادے داراشکوہ پر تھا لیکن ملکی معیشت کو بری طرح برباد کرنے والا مفرور فنکار اسحاق ڈار پھر سامنے آ گیا جس کے بارے میں چند ماہ پہلے میں نے کہیں لکھا یا کہا تھا ….’’گھر کا نام ہجویری لیکن پیشہ ہیرا پھیری‘‘اس مکروہ مائنڈ سیٹ کی بہتات ہے۔ڈاروں کی ڈاریں اس ’’جنگل‘‘ میں کھلی پھرتی ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن میں صرف پانچوں شرعی عیب ہی موجود نہیں ہوتے بلکہ پانچ سات عیب ان لوگوں نے خود ایجاد کر رکھے ہوتے ہیں۔ان کے حلیوں اور حرکتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔حلیے پاکیزہ، ظواہر پہ زور، مزاروں پر جھاڑو بھی دیں گے اور ہم وطنوں کے حقوق پر بھی جھاڑو پھیریں گے۔

سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں اور موقع ملے تو کروڑوں لوگوں کے حقوق پر ڈاکے مار کر چند لوگوں کو فاقے سے بچا کر یہ سمجھتے ہیں ’’آخرت‘‘ بھی ٹھگ لی ۔یہ کج فہم نہیں جانتے کہ زمینی زندگی بھی آخرت ہی کا حصہ بلکہ دیباچہ ہے اور انسان کی اصل پہچان صوم وصلوٰۃ نہیں ،آپس کے معاملات سے ہوتی ہے جس میں یہ ناکام ہی نہیں بری طرح بدنام بھی ہیں ۔اسحاق ڈار کی وجوہات شہرت میں تازہ ترین ان کے گھر ’’ہجویری ہائوس ‘‘ کے سامنے بچوں کے پارک پر ہاتھ صاف کرنا ہے ۔یہ کیسی ذہنیت اورتربیت ہے ؟یہ کس سطح کی سوچ ہے جو ننگی تجاوزات پرندامت محسوس کرنے کی بجائے تنک کر یہ پوچھتی ہے …..’’میں نے اگر فون کیا تو ڈی جی ایل ڈی اے نے عمل کیوں کیا ۔60کنال کے پارک میں صرف ایک کنال 6مرلے کی ہی تو بات ہو رہی ہے ‘‘سچ کہا تھا اس صوفی شاعر نےنیچاں دی اشنائی کولوںفیض کسے ناں پایاکِکر تے انگور چڑھایاہر گچھا زخمایایہ تو کیکروں سے بھی گئے گزرے ہیں بلکہ کیکر تو عالیشان درخت ہے کبھی اس کے پھول دیکھے ہیں ؟

کبھی اس کی مسواک استعمال کی ؟اس کی گوند کے فوائد سے واقف ہیں آپ ؟اور سب سے بڑھ کر کیکر کی پھلیاں جو ابتدائی مراحل میں ہوں تو بہترین سبزی، ذرا پک جائیں تو ان پھلیوں کا اچار لذیذ ہی نہیں جوڑوں کے درد کی دوا بھی ہے اور جب یہ پھلیاں پوری طرح پک جائیں تو بھیڑ بکریوں کیلئے عمدہ غذا بھی ۔ اللہ بخشے حمیداختر مرحوم کو ہمارے ’’بیلی پور ‘‘ والے گھر میں کیکر، بیری، لسوڑھی اور پیپل کے درخت بہت پسند تھے۔بڑے دکھ سے کہا کرتے کہ ’’ہمارے یہ ’’اصلی ‘‘ درخت تو اب لگاتا ہی کوئی نہیں ،تم جنتی ہو جو ا تنی محبت سے انہیں پروان چڑھا رہے ہو۔ان لوگوں کو کیکر سے تشبیہ دینا کیکر جیسے لج پال درخت کی توہین ہے ۔

ڈار ارب پتی ہو گیا لیکن اندر کی بھوک نہ گئی، پارک کی زمین بھی سڑک میں ڈلوا کر اپنی تشنہ تکمیل آسودگی کا بندوبست کیا جس پر عدالت نے کہا ’’بیوروکریسی سیاسی آقائوں کی غلام ہے ‘‘ سیاسی مافیا ایک دوٹرمز کیلئے مسلط ہو تو بیوروکریسی مزاحمت بھی کرے لیکن جہاں نسل در نسل اقتدار کی منتقلی کے مذموم عزائم ہوں وہاں یہ بیچارے گلوری فائیڈ کلرک جائیں تو جائیں کہاں ؟کہ اسی لئے ان سیاسی مہم جوئوں کے جن جھپےتوڑنا جائز ہی نہیں، عبادت ہے ۔صرف ایک ڈار ہی کیا ان سب کی ذہنیت زنگ آلود ہے ۔کراچی کے بلاول ہائوس سے لاہور کے جاتی عمروں اور ماڈل ٹائونوں تک کا منظرنامہ یکساں طور پر مکروہ اور بدبودار ہے تو ڈار بہادر اس بہتی گنگا میں ڈبکیاں کیوں نہ لگائے کہ یہی تو اس ’’سمدھی جمہوریت‘‘ کا حسن ہے جس کا تہہ در تہہ غازہ اترنے کے بعد اس کا حقیقی غلیظ چہرہ سامنے آ رہا ہے ۔

اب دس روز میں پارک بحال ہو جائے گا، قبضہ چھڑوالیا جائے گا اور تمام تر اخراجات کی وصولی بھی ذمہ داران سے کی جائے گی ۔پوری قوم کو اس جہاد عظیم کا پشت پناہ بننا چاہئے تاکہ کبھی کوئی جمہوری قبضہ گروپ دوبارہ مسلط نہ ہو سکے۔رسی جل گئی بل ابھی باقی ہیں ورنہ ڈار کا باس کبھی یہ نہ کہتا کہ وہ ہر ادارے سے بات کرنے کو تیار ہے …یہاں تو ہر ’’ڈارا‘‘ اپنی ذات میں پورا ادارہ ہے لیکن کب تک ؟جمہوریت کی آڑ میں یہ آمریت کب تک ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے