نوازشریف اور چوہدری نثار علی خان

پہلے اقتدار کا نشہ اور اب مقبولیت کا زعم ۔ یہی وجہ ہے کہ شریف خاندان آج بھی خوداحتسابی اور گریبان میں جھانکنے پر آمادہ نہیں ۔

محترمہ کلثوم نوازشریف کی علالت، اپنی والدہ کی تیمارداری کے لئے مریم نوازکو پیشی سے استثنیٰ نہ ملنااور پے درپے عدالتی پیشیوں جیسے معاملات دیکھتے ہیں تو مظلوم نظرآتے ہیں اور حسب عادت ان کی شاہانہ طرز سیاست دیکھتے ہیں تو ایسے ظالم نظر آتے ہیں جو ملک کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ بھی ظلم کا ارتکاب کرتے نظر آرہے ہیں ۔ پاکستانی سیاست کے منیجرو ں نے بھی کمال کردیا۔ اس بھونڈے طریقے سے نوازشریف سے جان چھڑانے کی کوشش کی کہ آج وہ بیک وقت حکمران بھی ہیں اور اپوزیشن لیڈر بھی ۔ حاکم بھی ہیں اور محکوم بھی ۔ ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی ۔ چنانچہ وہ عوام اور کیمروں کے سامنے آتے ہیں تو رونا دھونا شروع کردیتے ہیں اور ڈرائنگ روم یا کانفرنس روم میں بیٹھتے ہیں تو وہی غرور ، وہی رعونت، وہی چاپلوسوں اور خوشامدیوں کا غول ۔ وہاں وہ عہدے بانٹتے اور واہ واہ ، ماشاء اللہ ماشاء اللہ سے لطف اٹھاتے ہیں ۔ کسی حد تک آزمائش ضرور ہے لیکن ساتھ ساتھ حکمرانی

اور مقبولیت کا مزہ بھی ہے ، اسی لئے رویے میں حقیقی تبدیلی نہیں آرہی ۔ حقیقی مشکل وقت کا خطرہ ضرور ہے لیکن ابھی مشکل وقت نہیں آیا۔ مشکل وقت 12اکتوبر 1999سے لے کر اس دن تک تھا جب تک سعودی عرب روانگی نہیں ہوئی تھی ۔ بہادراوربزدل ، وفادار اور بے وفا یا مخلص اور خوشامدی کا فرق تک واضح ہوگا جب خاکم بدہن اسی طرح کا حقیقی مشکل وقت آئے گا ۔

مقبولیت کے زعم میں آکر اپنے کارندوں کے ذریعے چوہدری نثار علی خان کو طیش دلا نے سے انا کی تسکین تو کی جارہی ہے لیکن یہ نہیں سوچا جارہا کہ حقیقی مشکل وقت آئے گا تو یہ خوشامدی نوازشریف کوچھوڑ کر کسی نئے مشرف کے ساتھ ہوں گے ۔ ذخیرہ الفاظ کی ڈکشنری کی حیثیت رکھنے والے صاحب ِعرفان کے تجویز کردہ اشعار سے اداروں اور چوہدری نثارجیسے وفاداروں کو اشتعال دلانے کی کوشش تو کی جارہی ہے لیکن یہ نہیں سوچا جارہا کہ جب کسی اٹک قلعے کی نوبت آئے گی تو پھر وہ ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے ایوان صدر میں بیٹھ کرکسی جنرل راشد قریشی کے سامنے ایسے اشعا ر پڑھ رہے ہوں گے ۔

لوگوں سے وفا اور اندھی تقلید کا تقاضا توکیا جارہا لیکن میاں نوازشریف اپنے عمل سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کے ہاں مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کی نہیں بلکہ دغادینے والے خوشامدیوں کی قدر ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے چوہدری نثار علی خان کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی لیکن وہ نوازشریف کے ساتھ وفاداری نبھاتے رہے جبکہ اس کے برعکس اسحاق ڈار نے معافیاں مانگیں اور حدیبیہ کیس میں وعدہ معاف گواہ بن کر شریف خاندان کے خلاف اپنے دست مبارک سے کئی صفحات سیاہ کئے ۔ ڈار صاحب ایسے محترم ٹھہرے کہ اشتہاری بن جانے کے بعدبھی سینیٹ کے ٹکٹ کے مستحق قرار پاتے ہیں لیکن چوہدری نثار خان کو کبھی ایک اور کبھی دوسرے سے بے عزت کرایا جارہا ہے ۔

وہ پیر صابر شاہ جنہوں نے بارہ اکتوبر 1999 کے بعد پہلی مرتبہ جرات کا مظاہرہ کرکے محترمہ کلثوم نواز اور مریم بی بی کے سروں پر چادر رکھی تھی، اقتدار کے دنوں میں محروم رکھے قسرکاری عہدہ تو کیا دیا جاتا انہیں پارٹی کی صوبائی صدارت سے بھی محروم کردیا گیا لیکن اس دوران پرویز مشرف کے زاہد حامد اور ماروی میمن جیسے چہیتے ، میاں صاحب کے منظور نظر رہے ۔ میجر (ر) عامر پر نیب کا کوئی مقدمہ بن سکا تھا اور نہ کسی اور جرم کے مرتکب ہوئے تھے ۔ غلطی ان کی یہ تھی کہ بارہ اکتوبر کو انہوں نے میاں نوازشریف کو گالی دینے والے فوجی افسر کو جواب میں گالی دی تھی ۔ اس کی سزا ان کو یہ دی گئی کہ بچوں سمیت سات ماہ تک گھر میں محصور رکھے گئے ۔ مشرف کے کارندے جاکر انہیں نوازشریف سے اعلان برات کی صورت میں رہائی کے ساتھ ساتھ سرکاری عہدے پیش کرتے رہے لیکن ان کا جواب ہوتا کہ جب بھی نوازشریف کو ضرورت پڑی ، اپنے اکلوتے بیٹے کا سر ہتھیلی میں رکھ کر پیش کردوں گا۔

اقتدار کے دنوں میں وہ زیرعتاب رہے جبکہ اس کے برعکس وہ صاحب ِعرفان منظور نظر رہے جو نوازشریف کو رخصت کرنے والے جنرل پرویز مشرف کے ترجمان راشد قریشی کے لئے بیانات اور تقاریر لکھتے رہے ۔لوگ بجا سوال اٹھاتے ہیں کہ مشکل وقت میں ساتھ سید غوث علی شاہ نے دیا تھا یا جنرل یحییٰ خان کے دست راست جنرل(ر) عمر کے بیٹے زبیر عمر نے ۔ مشکل وقت میں سید ظفر شاہ نے فوجی آمر پرویز مشرف کے تکبر کو چیلنج کیا تھا یا پھر ان کے ترجمان ِ اعلیٰ مشاہد حسین سید نے ۔ پرویز مشرف نے مشکل وقت میں نوازشریف کا ساتھ دینے کے جرم میں صدیق الفاروق کو ڈمپ کیا تھا یا دانیال عزیز کو ۔آئندہ حقیقی مشکل وقت آیا اور کسی نے ساتھ دیا تو وہ ان کا اپنا ظرف ہوگا ورنہ تو میاں صاحب نے عمل سے پیغام یہی دیا ہے کہ اچھے وقت میں ان کے دربار میں بے وفائی کرنے والے خوشامدیوں کی قدر ہوتی ہے ، کھری بات کی جرات رکھنے والے مخلص لوگوں کی نہیں ۔ بلکہ طاقت ملنے پر وہ مشکل وقت کے ساتھیوں کو خوشامدیوں سے بے عزت کرکے حظ اٹھاتے ہیں ۔

چوہدری نثار علی خان کی خامیاں بے شمار ۔ ذات کے حصار میں بند حد سے زیادہ اناپرست ۔ دنیا کے ساتھ چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے طرز پر چلانے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں ۔وہ سیاست بھی فوجی انداز میں کرتے ہیں لیکن ان کے دشمن بھی اعتراف کریں گے کہ کبھی نوازشریف کے ساتھ دغا نہیں کیا ۔ وہ کبھی ذات کے لئے بھی اپنی ذات کے حصار سے نہیں نکلے لیکن نوازشریف کے لئے اس سے نکلتے رہے۔

انہوں نے دوسروں کے ساتھ زیادتیاں بھی کیں اور دل بھی توڑے لیکن یہ سب کچھ نوازشریف کا دل رکھنے کے لئے کرتے رہے ۔ ان کے قصور بے شمار ہیں لیکن پانامہ کے معاملے میں ان کا کوئی قصور نہیں ۔ پہلی مرتبہ لندن پراپرٹی کا معاملہ سامنے آیا تو انہوںنے میاں نوازشریف سے حقیقت دریافت کی ۔ انہوں نے حقیقت بتانے کی بجائے ان کو وہی کہانی سنائی جو قوم کو سناتے رہے ۔ پانامہ کا ایشو سامنے آیا تو چوہدری صاحب مشورہ دیتے رہے کہ اس معاملے کو عدالت میں نہ لے جایا جائے لیکن تب خوشامدیوں نے ذہن میں بٹھا رکھا تھا کہ عدالت سے پارسائی کا سرٹیفکیٹ لئے بغیر انتخابات میں جانا نقصان دہ ہوگا ۔ جے آئی ٹی میں عسکری اداروں کے بندے شامل ہوئے تو چوہدری نثار مشورہ دیتے رہے کہ سپریم کورٹ سے رجوع کرکے ان اداروں کو جے آئی ٹی سے نکال دینا چاہئے لیکن تب چونکہ اداروں کی قیادت تازہ تبدیل ہوئی تھی ، اس لئے توقع کی جارہی تھی کہ وہ بچالیں گے ۔ چنانچہ چوہدری نثار کو جواب ملتا رہا کہ عسکری اداروں کی موجودگی میں ہی عمران خان نتیجہ تسلیم کریں گے ۔ چنانچہ ہر حوالے سے چوہدری نثار کی رائے درست ثابت ہوئی لیکن اب عدالت میں جانے اور جے آئی ٹی میں عسکری اداروں کی موجودگی پر تالیاں بجانے والے خوشامدیوں کو سزادینے کی بجائے غصہ چوہدری نثار علی خان پر اتارا جارہا ہے ۔

چوہدری نثار نے جو راستہ اپنایا ہوا ہے وہ خودان کے لئے بھی درست نہیں ۔ نہ صرف اس سے اختلاف ہے بلکہ مجھے ڈر ہے کہ اس راستے پر جاکر کہیں وہ مسلم لیگ(ن) کے اجمل خٹک نہ بن جائیں ۔ خدشہ ہے کہ اس راستے پر جاکر کہیں وہ اس عزت نفس کو نہ کھودیں جس کے بارے میں وہ بہت حساس ہیں لیکن چوہدری نثار علی خان کو ناراض کرنے کا سودا میاں نوازشریف کو بھی بہت مہنگا پڑے گا ۔ ناقابل تصور حد تک مہنگا ۔ اس کا اندازہ میاں صاحب کو تب ہوگا جب کبھی ان پر حقیقی مشکل آئے گی یا پھر جب وہ مقبولیت کے گھوڑے سے اتریں گے۔

اس لئے بہتر ہوگا کہ دونوں فریق اپنی اپنی انائوں کے حصار سے نکل کر واپس لوٹ جائیں نہیں تو دونوں نقصان اٹھائیں گے ۔ خدانخواستہ چوہدری نثار علی خان بھی نئے اجمل خٹک بن جائیں گے لیکن میاں نوازشریف کو بھی محمود خان اچکزئی بنا دیں گے ۔چوہدری نثار علی خان نوازشریف تو کیا چوہدری شجاعت حسین بھی نہیں بن سکتے لیکن وہ مشاہد حسین سید بھی نہیں ۔ وہ میاں نوازشریف کے متبادل نہیں لیکن انہیں خواجہ آصف یا احسن اقبال سمجھنا بھی حماقت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے