حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی، مڈل کلاس

دنیا کی اس وقت آبادی7 ارب 50 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور 2050 تک آبادی 9 ارب سے تجاوز کر جائے گی ، دنیا کی آبادی میں میں امیر ترین 2028 افراد کی دولت انداز کیجئے ،، ان کے پاس 9 کھرب ڈالر سے زائد دولت موجود ہے جبکہ دنیا کی مجموعی دولت اس 280 کھرب روپے ہے جبکہ سی این بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایک فیصد امیر ترین آباد دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں۔

یہ تفصیلات مکمل اور جامع طریقے سے فراہم کر کے فل سٹاپ لگا دیا ہے اس لیے کہ ہم انکی بات ہی نہیں کرنے والے ، یہ ہے ایلیٹ کلاس جن کا اوڑھنا بچھونا ہماری سوچوں سے ماورا ہے ، انکی دنیا ہماری دنیا کے جیسی نہیں ہے ، نہ انکو ہماری دنیا سے کچھ لینا دینا اور نہ ہم انکی دنیا بارے جان سکتے ہیں۔

ہم بات کریں گے مڈل کلاس کی، دنیا میں 3 ارب سے زائد افراد متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایشیا میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 1 ارب 38 کروڑ ہے ایک اندازے کے مطابق 2030 متوسط طبقے کی یہ تعداد3 ارب 5 کروڑ تک پہنچ جائے گی "اورسن وولز کہتے ہیں متوسط طبقہ زندگی اور معاشرے کا دشمن ہے”

ہم مڈل کلاس یعنی متوسط طبقے کی تعریف نہیں کرتے کہ یہ تعریف ہر معاشرہ کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے ،، ہر معاشرے میں متوسط طبقے کی الگ مالی حیثیت ہوتی ہے ، عین ممکن ہےدنیا کے ایک حصے میں متوسط کہلانے والا شخص دنیا کے دوسرے حصے میں امیر سمجھا جاتا ہو، لیکن جس جس معاشرے میں جو جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے ، ان سب کا آپ س میں ایک تعلق ہوتا ہے ایک یکسانیت پائی جاتی ہے انکی زندگیوں میں اور وہ ہے محنت ، آگے بڑھنے کی لگن، پریشانیوں کو اپنے سر لینے کا حوصلہ ، عزت ، غیرت ،اور شہرت کی تگ و دو، اس طبقے میں فلسفی، ڈاکٹر ، بزنس مین، مینجر،فورمین ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر طرح قسم کے پلیٹ فارم پر اچھی پوزیشنز پر کام کرنے والے ہوتے ہیں۔

یہ کام کرنے والے ساری زندگی ایلیٹ کلاس اور لوئر کلاس کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے والے اپنی بقا کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں ،، کسی شخصیت کا قول ہے کہ یہ متوسط طبقے کی گردنیں اڑا دینی چاہیں "ان کے پاوں کیچر اور نظریں آسمان میں ہوتی ہیں” بالکل سچ کہا ہے ، ساری عمر محنت کرنے اونچے خواب دیکھنے ، اپنے گول سیٹ کرنے اور اچیو کرنے کے علاوہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے چکروں میں انکی اپنی زندگیاں ختم کر لیتے ہیں لیکن ذمہ داریاں پیچھا کب چھوڑتی ہیں ،، موت کی آخری ہچکی بھی کبھی اس پریشانی میں گزر جاتی ہے کہ اگلے آنے والی کسی بھی ایونٹ میں پیسے کہاں سے لینے ہیں اور ادھار کہاں سے لینا ہے ، چھوٹی اوقات کے بڑے خواب دیکھنے والے یہ لوگ اپنی خوشیاں ادھار میں خریدتے ہیں اور پھر ادھار چکانے میں روز مرہ زندگی کی خوشیوں کا گلہ گھونٹتے ہیں ، بقول جون ایلیا کے ” حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی” ان کی یہی حالت رہتی ہے ، یہ اپنے مستقبل کی فکر میں حال کی خوشیوں کا بھی کئی دفعہ گلہ گھونٹ دیتے ہیں ، ایسے مستقبل کی فکر رکھتے ہیں جو زیادہ تر ان کے بغیر ہی گزر جاتا ہے ، اس طبقہ میں زیادہ حصہ تنخواہ دار افراد پر مشتمل ہوتا ہے ، اور زمانہ جانتا ہے تنخواہ دار طبقہ کبھی امراء میں شامل نہیں ہو سکا،اپنی خوشیوں کی جنگ لڑتا یہ طبقہ ہر معاشرے میں نہایت ہی اہم کردار اداکرتا ہے

کچھ اچھی باتیں بھی ہیں اس طبقہ کی ہیں، یہ عزت دار لوگ ہوتے ہیں ، یہ عزت کی جنگ بھی لڑتے ہیں ، دراصل ان کے پاس عزت کے سوا اور کچھ ہوتا ہی نہیں ، ایلیٹ کلاس کے بااعتماد اور لوئر کلاس کےلئے انکے حقوق کے پاسبان یہ مڈل کلاس والے دونوں طرف اپنی عزت بنائے رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں ، ہمارے معاشرے میں تو عزت و غیرت کے نام پر قتل بھی ہوتے ہیں ، لیکن یہ لکھنے دیجئے کہ اس معاشرے میں عزت اسکی ہے جو طاقتور ہے ، ہمیشہ سے نچلے طبقے کا استحصال کیا جاتا ہے ،، وڈیرے کےلئے باسی کی کوئی عزت نہیں ہوتی ، جرگے کی اعلی شخصیات کی انی تو عزت ہوتی لیکن عام مزدور کی کوئی عزت نہیں ہوتی ، چوہدری و خان صاحب تو عزت دار ہیں لیکن غربت کے مارے ایک سفید پوش کی کوئی عزت نہیں ہوتی ، متوسط طبقہ بس ہروقت مصروف نظر آتا ہے ، نہ یہ پوری طرح دنیادار ہو سکتے نہ دیندار ، اور زندگی کا اختتام کچھ یوں ہوتا ہے ، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے، میں آپ اور ہم سب ، متوسط طبقے کے افراد ہیں کیونکہ غریب اس تحریر کو پڑھنے کےلئے شاید لیپ ٹاپ یا موبائل نہیں رکھتا ہوگا اور امراء کےلئے اس کو پڑھ کر اپنا وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے