جس معاشرے کے فکری انحطاط کا یہ عالم ہو کہ وہ مخیر ہندوؤں کے بنائے گئے خیراتی ہسپتالوں کے نام بھی تبدیل کر کے عمارات کو مسلمان بنانا چاہتا ہواس معاشرے میں کوئی بھگت سنگھ کے حق میں لکھے پر معترض ہوتا ہے تو یہ ایک فطری امر ہے۔ آدمی اپنی افتاد طبع کا اسیر ہوتا ہے۔اور اس اسیری سے رہائی کے لئے جو لوازمات درکار ہیں اپنے سماج میں ان کی تلاش وہ کوہ کنی ہے جس کے تصور ہی سے زہرہ آب ہو جاتا ہے۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ بھگت سنگھ کے حق میں سب سے پہلے اٹھنے والی بھر پور اور توانا آواز کس کی تھی؟ بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ جے۔این۔ڈکشت کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ ’’ سب سے توانا ،مظبوط اور بے خوف آواز جو بھگت سنگھ کے حق میں اٹھی ،محمد علی جناح کی تھی‘‘۔
سید شریف الدین پیرزادہ کی گواہی ان کے مقالے ’قائد اعظم محمد علی جناح اینڈفنڈامنٹل رائٹس‘ میں موجود ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ،قائد اعظم نے اس ٹرائل کو ’انصاف کا مذاق‘ قرار دیا تھاانہوں نے اس مقدمے کو ” Travesty of Justice”کانام دیا تھا۔قانون ساز اسمبلی میں قائد اعظم نے 12ستمبر اور 14ستمبر1929کو اس معاملے پر تفصیل سے بات کی۔اپنی تقریر میں انہوں نے کہا:
. "He was not an ordinary criminal who is guilty of cold blooded sordid wicked crime………The money of the tax payers will not be wasted in prosecuting men,nay citizens,who are fighting and struggling for the freedom of their country”.
جس آدمی کو قائد اعظم خود آزادی کا سپاہی قرار دے رہے ہوں اس کے حوالے سے خیر کے دو کلمات کوئی لکھ دے تو اس میں قباحت ہی کیا ہے؟
بھگت سنگھ کی لڑائی کس سے تھی؟ مسلمانوں کے ساتھ یا انگریز کے ساتھ؟ انگریز کے ساتھ لڑنے والے بھگت سنگھ سے ،جسے قائد اعظم بھی آزادی کا سپاہی قرار دے رہے ہوں ،ہمارا کیا جھگڑا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اس خطے سے ہمارا اقتدار ختم کرنے والے ہندو یا سکھ نہیں تھے بلکہ انگریز تھے۔ یہ الگ بات کہ جاتے جاتے انگریز نفرتوں کا ایک نیا بیج بو گئے اور آج ہم انگریزوں سے ڈالر لے کر اپنے بچوں کو ڈرون سے مرواتے ہیں لیکن بھگت سنگھ کا نام ہماری غیرت مند سماعتوں پر گراں گزرتا ہے۔
انگریز کے خلاف جدوجہد ہمارا مشترکہ ورثہ ہے۔ اس سے انکار تاریخ سے لڑنے کے مترادف ہے اور تاریخ کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ سلطان ٹیپو بھی انگریز سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔کیا ہمیں علم ہے بھارت میں ٹیپو کا کیا مقام ہے؟
کرناٹکا کی نصابی کتابوں میں ہمارے شہید سلطان کا ذکر آزادی کے مجاہد کے طور پر درج ہے۔ میں نے نیپال میں ’تری بھون یونیورسٹی‘ میں یہ کتابیں خود دیکھی ہیں۔ کرناٹکا کے ضلع ’منڈیا ‘میں سلطان شہید کی یاد میں دو کالج اور ایک میوزیم بنایا گیا ہے۔اس میوزیم میں جس محبت سے سلطان سے منسوب چیزیں جمع کی گئی ہیں وہ جذبہ قابل قدر ہے۔
سلطان ٹیپو کی تلوار جو سکاٹ لینڈ کے ایک جرنیل کے پاس تھی بھارت کا ایک تاجر وجے مالیا ایک غیر معمولی رقم ادا کر کے دو سو سال بعد واپس بھارت لایا ۔ اس نے بھارت پہنچ کر اسے چوما اور فخر سے لہرایا۔غیر ملکی صحافی نے سوال کیا :اتنی بھاری رقم آپ نے ادا کر دی؟وجے مالیا نے جواب دیا: یہ شیر کی تلوار ہے،ہماری قومی غیرت کا نشان۔ سٹیٹس مین جیسے اخبار نے سرخی جمائی’’ شیر کی تلوار واپس آ گئی‘‘۔ دی ہندو نے لکھا: ہمارے ٹائیگر کی یہ نشانی ہمارے پاس ہی ہونی چاہیے تھی ۔ایس۔کے گڈوانی نے اس پر ایک ناول لکھا جس کا نام تھا’’ سورڈ آف ٹیپو سلطان‘‘۔اس ناول کی دو لاکھ کاپیاں صرف بھارت میں فروخت ہوئیں۔یاد رہے ہمارے ہاں اچھی کتاب کا ایڈیشن بھی ایک ہزار کی تعداد میں چھپتا ہے۔ٹیپو پر لکھے ناول کی دو لاکھ کاپیاں اگر فروخت ہوئیں تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ سماج میں بھی ٹیپو سلطان کو ایک غیر معمولی مقام حاصل ہے۔
موسم گرما میں ٹیپو سلطان بنگلور کے جس محل میں جا کر قیام کرتے تھے اسے بھارت نے قومی ورثہ قرار دیا ہوا ہے اور اس محل کے داخلی دروازے پر لکھا ہے”The Tiger comes to Town” ۔چنائی میوزیم میں ٹیپو سلطان کی ایک ایک چیز دنیا بھر سے اکٹھی کر کے رکھی گئی ہے، ٹیپو سے ان کی محبت کا عالم یہ ہے کہ جو چیزیں نہیں مل سکیں ،پیرس سے ان کی نقل تیار کروا کے رکھی گئی ہے۔ڈاکٹر کلام ،جو بھارت کے صدررہ چکے ہیں، بھارت کے قومی دن کے موقع پر یہ کہہ کر سلطان کو خراج تحسین پیش کر چکے ہیں کہ دنیا کا سب سے پہلا جنگی راکٹ ٹیپو نے بنایا تھا۔1990 میں اس ناول پر ڈراما بنا جو دور درشن پر چلا،اس کے بعد یہی ڈرامہ سٹار پلس پر چلا۔بنگالی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا اور یہ بنگال ٹی وی پر بھی چلا۔پھر اس کا تامل زبان میں ترجمہ ہوا اور اسے دور درشن کے تامل زبان میں چلنے والے ٹی وی ’پوڈ گھئی‘ پر بھی دکھایا گیا۔اس ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران حادثے کی وجہ سے 62لوگ مارے گئے مگر ریکارڈنگ جاری رکھی گئی۔
12نومبر2012کو بھارتی حکومت نے ایک اور اعلان کر دیا۔سرنگا پٹم میں سلطان ٹیپو یونیورسٹی بنائی جائے گی۔بھارتی وزیر اعظم نے اس کی منظوری دے دی اور متعلقہ محکموں کو ہدایت کر دی ہے کہ اس منصوبے کو جلد پایہِ تکمیل تک پہنچایا جائے اور 16نومبر2012کو ’دکن ہیرالڈ‘ میں کرناٹکا کے سابق وزیر اعلی کمار سوامی کا بیان شائع ہوا کہ میری پارٹی جیت گئی تو دیوان ہالی روڈ کا نام ٹیپو سلطان روڈ رکھ دیا جائے گا۔
ہمارے دودھ کے دانت کب گریں گے؟