یہ آکسفورڈ اور کیمبرج والے

’’سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں، یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں ۔‘‘ احمد فراز کی شہرہ آفاق غزل کی میں ٹانگ توڑنے لگا ہوں۔ عرض کیا ہے ’’سنا ہے ملک میں بحران ہے قیادت کا، اگر یہ بات ہے تاریخ پڑھ کے دیکھتے ہیں ۔‘‘ آداب۔
کچھ باتیں ہمارے دماغ میں اس قدر راسخ ہو چکی ہیں کہ ہم انہیں آفاقی سچائی تسلیم کر چکے ہیں، مثلاً ہمیں ایک لیڈر کی ضرورت ہے، ہمیں کبھی قابل اور پڑھی لکھی قیادت نہیں ملی جو ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال سکے، جاہل اور انگوٹھا چھاپ سیاست دانوں نے ملک کے نظام کا بیڑہ غرق کردیا ہے، تعلیم تمام مسائل کا حل ہے……! یہ ایسی باتیں ہیں کہ اِن سے اختلاف تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔ چلئے اختلاف کرکے دیکھتے ہیں۔

قوم کو پہلا مسیحا اکتوبر 1958میں ایوب خان کی شکل میں ملا، اللہ اللہ کیا غضب کی شخصیت تھی، ایک تو جرنیل اوپر سے وجیہہ، ایسا بانکپن کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے جیسا ہمارے لیڈر میں تھا، جیکولین کینیڈی یونہی تو فدا نہیں ہوئی تھی۔ غلیظ سیاست دانوں نے جو آئین بنایا تھا اسے منسوخ کرکے جب عالی مرتبت نے عنان اقتدار سنبھالا تو یوں لگا جیسے ہمارے درمیان اقبال کا مرد مومن اتر آیا ہے۔ ویرانے میں چپکے سے بہار آگئی، بیمار ریاست کو جیسے قرار آگیا۔

پورے ملک سے نگینے اکٹھے کرکے اعلیٰ حضرت نے اپنی کابینہ تشکیل دی، اس کابینہ میں کل 16وزرا تھے جن میں سے چار لوگ اپنے اپنے شعبوں کے ماہر تھے، چھ سول بیوروکریٹ، چار فوجی بیوروکریٹ، ایک سرمایہ دار اور صرف ایک جاگیر دار تھا۔ کم و بیش تمام وزرا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے، قانون اور بزنس کی ڈگریاں ان کے ہاتھ میں تھیں، شیکسپئیر کے مکالمے اور کیٹس کے شعر انہیں حفظ تھے، معاشیات کا علم انہوں نے گھول کر پی رکھا تھا۔ 1962سے 1969تک کی کابینہ 28وزرا پر مشتمل تھی، ان میں سے پندرہ ماہرین تھے، آٹھ سول بیوروکریٹ، دو فوجی بیوروکریٹ، دو جاگیردار اور ایک صنعت کار۔ یہ اٹھائیس لوگ بھی ویسے ہی دودھ کے دھلے تھے، ہاورڈ، کیمبرج، آکسفورڈ جیسے اداروں کے سندیافتہ، ذہانت جن کی آنکھوں سے جھلکتی ہے اور قابلیت جن پر رشک کرتی ہے۔ 1969تک، یعنی گیارہ برس بلاشرکت غیرے ملک کی باگ ڈور ان قابل اور پڑھے لکھے ماہرین کے ہاتھ میں رہی۔ مگر پھر کیا ہوا؟ فقط دو سال بعد ملک ٹوٹ گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اقبال کا شاہین اور نطشے کا فوق البشر ہمیں ایک مرتبہ پھر 1977میں نصیب ہوا، یہ مرد مجاہد البتہ کچھ شرمیلا سا تھا، امریکی صدور کی بیویوں سے راہ و رسم بڑھانا اسے پسند نہیں تھا، اپنے ملک میں ہمارے اس مرد مومن نے نظام مصطفیٰ کے نفاذ کا وعدہ کیا، سنا ہے ایک قسم خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر بھی کھائی تھی، پتہ نہیں اس بات میں کتنی سچائی ہے۔

پھر یوں ہوا کہ ایک سپرپاور نے افغانستان پر حملہ کر دیا، ہمارے مرد عاقل نے جاہل قوم کو سمجھایا کہ دیکھو اگر ہم نے اس جارحیت کا راستہ نہ روکا تو اگلی باری ہماری ہوگی سو ہمارا فرض ہے کہ ہم کمیونسٹ ملک کے خلاف جہاد کریں، ہم نے رکوع کی حالت میں سر جھکا دیا، امریکہ نے ہمیں ہلہ شیری دی اور یوں ایک کافر ملک کے ساتھ مل کر ہم نے دوسرے کافر ملک کے خلاف جہاد کیا اور خود کو فاتح قرار دیا۔ البتہ ہاتھ جھاڑ کر جب ہم گھر واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ جس آگ کو بجھانے گئے تھے وہ آگ ہمارے گھر تک پہنچ چکی ہے۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ہمارے مسیحا کی زنبیل میں بھی ویسے ہی پڑھے لکھے اور قابل مشیر تھے جیسے اُس کے پیشرو کے پاس تھے، فرق صرف اتنا تھا کہ اپنے محبوب کی پیروی میں وہ سوٹ ٹائی کی بجائے شلوار قمیص اور واسکٹ پہنتے تھے۔ یہ وقت بھی گزر گیا۔

چوتھی مرتبہ پھر اس قوم کا نصیب جاگا اور پرویز مشرف کی شکل میں ایک ماڈریٹ مسیحا نازل ہوا۔ یوں لگا جیسے قوم کو اتاترک مل گیا ہو، کتوں کو گود میں لے کر جب عالی مرتبت نے تصویر کھنچوائی تو لبرل کلاس تو گویا جھوم ہی اٹھی، ان کی خواہش تھی کہ انہیں بھی ایسے ہی گود لے لیا جائے۔ ہونٹوں میں سگار داب کر جب آپ قوم کی تقدیر کے فیصلے صادر فرمایا کرتے تھے تو کابینہ میں بیٹھے ہاورڈ، آکسفورڈ اور کیمبرج سے تعلیم یافتہ وزرا آپ کی بلائیں لیتے نہیں تھکتے تھے ’’شالا نظر نہ لگے‘‘۔

دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے یہ وزرا تھے جن میں سے کچھ کے پاس تو ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی تھی، ان لوگوں کو جب کسی تقریب میں مدعو کیا جاتا تو ان کا سی وی پڑھنے میں میزبان کو دس منٹ لگ جاتے، ایسے قابل دماغوں نے نہ صرف ہمارے فوق البشر کے ہاتھ پر بیعت کی بلکہ اُن تمام فیصلوں پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جن کی بدولت بعد میں ہزاروں پاکستانیوں بشمول بہادر فوجیوں اور پولیس کے جوانوں کی شہادتیں ہوئیں۔ ویسے تو ہمارے ماڈریٹ مسیحا کے ملک پر احسانات کی ایک طویل فہرست ہے مگر ان کا ایک کارنامہ ایسا ہے جو تاریخ میں تارکول سے لکھا جائے گا کہ آپ نے اعلیٰ عدلیہ کے ساٹھ معزز ججوں بشمول قاضی اعظم (چیف جسٹس)کو برطرف کرکے قید کیا۔ اس اقدام کے وقت جو شخص عالی مرتبت کا وزیر خاص تھا اُس کا سی وی پڑھنے کے لئے مجھ ایسے جاہل کو قریباً آدھ گھنٹہ چاہئے۔

پیارے بچو! پس ثابت ہوا کہ ہمارے ملک میں پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کی کمی نہیں اور ایسا بھی نہیں کہ یہ لوگ حکومت اور اقتدار کا حصہ نہ رہے ہوں، طاقت ور ترین منصب پر یہ لوگ فائز رہے،ننگا اختیار ان کے پاس تھا، یہ جو چاہے کر سکتے تھے، اعلیٰ تعلیمی اداروں کی سندیں اِن کے پاس تھیں، ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ کے اداروں میں کام کرنے کا تجربہ ان کے پاس تھا، برکلے، سٹینفورڈ اور لنکنز ِان کی ڈگریوں سے ان کا سی وی بھرا ہوا تھا، قابلیت، مہارت اور ذہانت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، فقط ایک چیز کی کمی تھی (ہے) …..کردار۔ چوٹی کے اداروں سے فارغ اتحصیل یہ لوگ زندگی بھر اے گریڈ تو ضرور لیتے رہے مگر جہاں کردار دکھانے کی نوبت آئی وہاں رکوع میں جا کر کورنش بجا لائے۔

میزبان جب ایسے لوگوں کو کسی تقریب میں بلاتے ہیں تو تعارف کے طور پر ان کا سی وی پڑھا جاتا ہے، جس میں کی دنیا بھر کی کامیابیوں کا ذکر سننے کو ملتا ہے، اس پورے سی وی سے البتہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ ملک میں جب آمریت تھی تب موصوف نے کیا کردار ادا کیا تھا، سی وی یہ تو بتاتا ہے کہ جناب نے کولمبیا یونیورسٹی سے تاریخ پڑھی ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ اس تاریخ سے کچھ سبق بھی سیکھا کہ نہیں، سی وی یہ تو بتاتا ہے کہ موصوف ماہر تعلیم ہیں مگر یہ نہیں بتاتا کہ اس تعلیم کے نتیجے میں اگر آپ نے ایک آمر کے ہاتھ پر بیعت کی تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ! دراصل ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ ہر پڑھا لکھا شخص باکردار بھی ہوتا ہے لہٰذا ہم لوگوں کی اہلیت صرف ڈگریوں میں تولتے ہیں، جبکہ کردار کے نمبر کوئی یونیورسٹی لگاتی ہے اور نہ کسی سی وی میں ملتے ہیں۔

ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ اگر ایماندار بھی ہوں تو کوئی نظریہ اپنانے سے ڈرتے ہیں، ان کا پسندیدہ جملہ ہوتا ہے کہ میرا کسی سیاسی جماعت یا سیاسی نظریئے سے کوئی تعلق نہیں، گویا ایسا کرنا گناہ ہو۔ ہمارے ایک مشہور ادیب کی فرانسیسی ادیب سارتر سے ملاقات ہوئی، چھوٹتے ہی سارتر نے پوچھا کہ ویت نام کے مسئلے پر تمہاری رائے کیا ہے، اس پر ہمارا دانشور بولا کہ میں اس پر رائے نہیں دے سکتا، میں تو ادیب ہوں، سارتر کرسی سے اٹھا اوراس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولا ’’میں ایسے کسی ادیب سے ملنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا جس کا کوئی نظریہ ہی نہ ہو۔‘‘ گو کہ اس واقعے کی صحت پر مجھے شبہ ہے مگر پڑھے لکھوں کو یہ مثال دینے میں کوئی حرج نہیں، شاید کوئی پڑھا لکھا سارتر کے نام سے ہی متاثر ہو جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے