کھیل ہی کھیل میں

ارادہ تو 23 مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والی پریڈ کے حوالے سے کچھ لکھنے کا تھا لیکن دو باتوں کی وجہ سے اسے اگلے کالم پر ملتوی کرنا پڑا۔ اب اتفاق کی بات ہے کہ ان دونوں باتوں کا تعلق کرکٹ سے ہے۔

یعنی پی ایس ایل کا آج یعنی اتوار کو کھیلا جانے والا فائل میچ اور قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان عزیزی اظہر علی سے ملاقات جو ہمارے ساتھ اس پریڈ کے خصوصی طور پر مدعو کردہ مہمانوں میں سے تھا اور جس کے والد محمد رفیق اسلامیہ کالج سول لائنز کی اس ٹیم میں میرے ساتھی تھے جس نے بارہ سال کے بعد اپنے روایتی حریف گورنمنٹ کالج لاہور کو فائنل میں شکست دی تھی اور جس کی وجہ سے ہم ایس ای کالج بہاولپور سے زونل فائنل کھیلنے کے لیے راولپنڈی آئے تھے اور مزید اتفاق یہ کہ پنڈی کلب کا وہ گراؤنڈ بھی جہاں یہ فائل کھیلا گیا تھا ہمارے ہوٹل سے پیدل فاصلے پر تھا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مل جل کر کرکٹ والے پلڑے کا وزن زیادہ ہو گیا ہے، سو آج اس پر ہی بات کرتے ہیں۔ تاریخ کی درسی کتابوں میں کسی خاص واقعہ، لڑائی یا سلطنت کے زوال کی وجوہات بتانے کے ساتھ ساتھ عام طور پر اس کی ایک فوری وجہ بھی بتائی جاتی تھی تو اس کالم کی فوری وجہ قذافی اسٹیڈیم لاہور کے اردگرد خاصی دور تک سڑکوں اور ٹریفک کی وہ بندش بھی تھی جس نے تقریباً پورا ہفتہ سیکیورٹی کے نام پر شہر کو مفلوج کیے رکھا اور جس کی وجہ سے شہریوں کو بے حد پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

آگے بڑھنے سے قبل اس ’’فوری وجہ‘‘ کے حوالے سے اردو کے بے مثل مزاح نگاہ مرحوم شفیق الرحمن کی ایک شاندار نثری پیروڈی ’’تزک نادری‘‘ کا ایک جملہ بہت یاد آ رہا ہے۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ نادر شاہ کا وزیر اس کو یہ بتاتا ہے کہ یہ جو آپ ہندوستان پر حلمہ کرنے جا رہے ہیں تو اس کی کچھ وجوہات بھی ہونی چاہئیں تاکہ آئندہ تاریخ دانوں اور طالب علموں کے کام آئیں۔ نادر شاہ نے جواباً اسی وزیر کی ڈیوٹی لگا دی کہ جاؤ اور وجوہات تلاش کرکے مجھے بتاؤ۔

جو وجوہات تیار کی گئیں وہ کچھ اس طرح سے تھیں کہ ہندوستان کے کلاسیکل گویے اپنی گائیکی میں ’’نادر دھیم تانا دھیرے نا‘‘ کا بہت استعمال کرتے ہیں جو بادشاہ کی توہین کے مترادف ہے اور یہ کہ بادشاہ سلامت کی ایک رشتے کی پھوپھی جو گوجرانوالے کے قریب کہیں رہتی ہیں ان سے ملے بہت عرصہ ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن سب سے دلچسپ اور مزیدار اس حملے کی ’’فوری وجہ‘‘ تھی جو کچھ یوں تھی کہ

’’یوں بھی ہندوستان پر کافی عرصہ سے کوئی حملہ نہیں ہوا‘‘

کرکٹ کا کھیل نو آبادیاتی دور کی پیداوار بھی ہے اور یادگار بھی کہ اس کا فروغ انگلینڈ کے بعد زیادہ تر ان علاقوں میں ہوا جو کسی نہ کسی طرح انگریز کی حکومت میں شامل رہے ہیں۔ آپ بھی گوگل پہ سرچ کرکے دیکھیں آپ کو ان تمام آزاد شدہ کالونیوں پر مشتمل ممالک میں کرکٹ کے ایک جیسی وضع قطع کے گراؤنڈ ملیں گے کہ انگریزی دور کے تھانوں اور اسکولوں کی طرح ان گراؤنڈز کے پیویلین کی عمارتیں بھی ایک ہی ڈیزائن سے بنائی گئی ہیں اور دیکھا جائے تو انگلستان کی کاؤنٹی کرکٹ کا فارمیٹ ہی ساری کرکٹ کھیلنے والی دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں اب تک چلتا چلا آ رہا ہے۔

البتہ دوسری جنگ عظیم اور امریکا کے سپرپاور بننے کے بعد اس کی سرمایہ دارانہ سوچ کا اثر اور چیزوں کے ساتھ ساتھ کھیلوں پر بھی پڑا ہے۔ یہ ساری بڑی بڑی لیگیں، ٹورنمنٹس، میجر ٹائٹلز، ٹینس کے گرینڈ سلام اور فٹ بال کے میدان ان پتلیوں کی طرح ہیں جو دولت اور سپانسر شپ کے اشاروں پر نہ صرف ناچتی ہیں بلکہ ان کھیلوں کے شائقین بھی اسی تماشے کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔

کہنے کو ہماری پی ایس ایل کی عمر ابھی صرف تین برس ہے اور اس میں شامل چھ ٹیمیں سال بھر میں ایک بار بیس اوورز کے دس بارہ میچوں پر مشتمل ایک ایسے مقابلے میں حصہ لیتی ہیں جس کا کل دورانیہ تقریباً تین ہفتے ہوتا ہے جب کہ انڈیا کی آئی پی ایل سمیت باقی لیگز بھی کم و بیش اسی فارمولے پر عمل کرتی ہیں۔ فرق اگر کوئی ہے تو وہ گلیمر، شائقین کی دلچسپی اور پیسے کی فراوانی کا ہے کہ ان تینوں کے مجموعی عمل سے ہی کسی لیگ کا ’’مقام‘‘ متعین ہوتا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ اس کی وجہ سے مقامی اور ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل اور بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے، اٹھنے، بیٹھنے، سفر کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور یوں کھیل کی ترویج اور نئے کھلاڑیوں کی معاشی دیکھ بھال اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

تو میری ذاتی رائے میں یہ سب اس صورتحال کے ضمنی، اضافی اور اتفاقی فوائد ہیں کہ اصل میں سارا کھیل سرمایہ داری کا ہے جس سے بنیادی طور پر متعلقہ ممالک کے کرکٹ بورڈ، سپانسرز اور پیشہ ور انٹرنیشنل کھلاڑی ہی مستفید ہوتے ہیں اور جو چند گنتی کے نئے اور باصلاحیت کھلاڑی ابھر کر سامنے آتے ہیں ان کی کامیابی کا دارومدار ان کی غیر معمولی فطری صلاحیت کے ساتھ ساتھ قسمت کی مہربانی پر ہوتا ہے جب کہ اصل ہدف ان کی پہچان، تربیت، رہنمائی، کردار سازی اور اچھا اور پائیدار معاشی مستقبل ہونا چاہیے تا کہ ان کا ٹیلنٹ کسی سانچے اور تربیت میں ڈھل کر سامنے آ سکے اور ان کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ڈھانچے کو موجودہ ’’لاٹری سسٹم‘‘ کے بجائے مضبوط، تعمیری، منصفانہ اور انسان دوستی کی مستقل بنیادوں پر استوار کیا جائے تا کہ کسی ملک میں موجودہ کھلاڑیوں کو بنیاد سے لے کر اوپر کی ہر سطح پر رہنمائی اور مدد فراہم ہو سکے۔

مثال کے طور پر گزشتہ پی ایس ایل میں ابھر کر سامنے آنے والے کھلاڑیوں فخر زمان، حسن علی، رومان رئیس، شاداب خان اور فہیم اشرف کو ہی دیکھ لیجیے۔ بلاشبہ یہ پانچوں بہت باصلاحیت نوجوان ہیں اور انھوں نے آگے آنا ہی تھا۔ پی ایس ایل میں نکلنے والی ’’لاٹری‘‘ نے ان کے نامساعد حالات اور معاشی مسائل کو تو وقتی طور پر ختم کر دیا ہے مگر ان کے ساتھ کے اور ان سے ملتی جلتی صلاحیت کے حامل بہت سے کھلاڑی جو صرف ’’لاٹری‘‘ نہ نکل سکنے کی وجہ سے دوبارہ اسی بے نامی، غیر صحت مندانہ ماحول اور فرسٹریشن کے گرداب میں واپس جا پڑے ہیں ان کا اور ان سے پیچھے آنے والے سیکڑوں نوجوانوں کی خبر کون لے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریجنز، ڈیپارٹمنٹس یا کسی بھی حوالے سے باصلاحیت کھلاڑیوں کا ایک ایسا پول تیار کیا جائے جس میں منتخب ہونے والے کھلاڑی اپنی لاٹری نہ نکلنے کی صورت میں بھی معیاری اور بہتر زندگی گزار سکیں۔ اور انھیں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے مسلسل تربیت اور اس کے اظہار کے مواقع ملتے رہیں۔

اگر ہم ایسا کرسکے تو یقین کیجیے اقربا پروری، سیاست، صوبائیت، لالچ اور کرپشن کے کئی دروازے آپ سے آپ بند ہوجائیں گے اور یہ کام نرسری یعنی اسکول اور محلے کے کھیل کے میدان سے شروع کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم ان کو ایسے بچوں سے آباد کر پائیں جن کو آگے بڑھنے کے مساوی مواقع اور آسانیاں فراہم ہوں تو پھر جو بھی اوپر آئے گا اس کی لاٹری نہیں کمیٹی نکلا کرے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے