دختران کشمیر کاجذبہ اورلبریشن فرنٹ کامارچ

23 مارچ یوم قرارداد پورے ملک کی طرح آزاد کشمیر گلگت بلتستان میں پورے جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا مسلمان کیلئے الگ ملک پاکستان کے مقصد و بنیادوں کی اہمیت افادیت کا آج بھی اندازہ لگانا ہو تو پھر بھارت سے لے کر برما تک مسلمانوں پر مظالم اور مذہب بدلنے کیلئے جبر کے روزمرہ کے واقعات کو ملاحظہ کرتے ہوئے احساس کیا جا سکتا ہے مگر اس دن سمیت پاکستان کے قومی ایام و مواقعوں پر مقبوضہ کشمیر کے عوام ہمیشہ انہونی کر تے ہیں ۔ اس بار دختران ملت کی سربراہ باجی آسیہ اندرابی کی قیادت میں خواتین نے بڑی تعداد میں تقریب کا انعقاد کر تے ہوئے پاکستان کا قومی ترانہ مل کر پیش کیا تو پاکستان کے نعروں مقاصد کے حوالے سے جرأت و دلیری کا ایک نیا باب رقم کیا ۔

اگر خواتین کے جذبہ دلیری کا یہ عالم ہے تو نوجوانوں کا کیا حال ہو گا ۔ کالج کے طلباء نے پہلی منزل پر پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے دیوانہ وار پاکستان اور آزادی کے نعروں سے فضاء کو گرما دیا ۔ساری ریاست کے اندر اس طرح کے نظاروں کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا قومی ایام پر پاکستان آزاد کشمیر گلگت بلتستان میں صرف پیغامات اور روایتی تقریبات کر کے تعطیلات کے بجائے حکمرانوں ، اداروں کو بھارت کے اندر مسلمانوں پر قیامت کے مناظر بھی دکھا دینے چاہیے تا کہ سنی سنائی سن کر دانشوری پھیلانے والے دیکھ سکیں وہاں اقلیتوں کا کیا حال ہے ۔ریاست جموں وکشمیر کے عوام کا حق ہے وہ اپنے استصواب رائے کے حصول تک نظریات سوچ ، فکر کو حقائق کی بنیاد پر اظہار کریں ،سب آپشنز اور تجاویز پر تبادلہ خیال کریں تو یہ بھی فرض ہے جذبات میں ہوش و حواس نہ گنوا دیں جو مقبوضہ کشمیر کے عوام کیلئے مسئلہ بن جائیں

لبریشن فرنٹ کے قائد امان اللہ خان مرحوم کی قیادت میں مظفرآباد سے چکوٹھی سیز فائر لائن کی جانب مارچ ہوتے تھے۔ لبریشن فرنٹ نے اس بار یہ روایت پونچھ سے آگے بڑھائی اور پولیس سے مدبھیڑ میں ایک کارکن نعیم بٹ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا یقیناًکنٹرول لائن کے اس طرف تحریک کی حمایت میں اقدمات مقبوضہ کشمیر کے عوام کیلئے آکسیجن کا کا باعث ہوتے ہیں مگر اس سارے عمل میں فائدے کے بجائے نقصان نہیں ہونا چاہیے تو ذمہ دار ارباب اختیار کا بھی فرض تھا مارچ سے پہلے منتظمین سے بات چیت کے ذریعے ایک حد تک جانے پے قائل کر لیتے نا کہ جلتی پہ تیل چھڑکنے والا انداز اختیار کیا جاتا یہ بھی کوئی خدمت نہیں ہے ۔

مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن انجینئر رشید نے اپنے حالیہ مضمون میں درد دل کے ساتھ فکر مندی کا اظہار کیا ہے مقبوضہ کشمیر میں حریت قیادت کو یکجا ہوتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کرنی چاہیے۔ سید علی گیلانی کی حیات میں انتشار ، فکر مندی کی گنجائش نہیں ہے مگر ہر طرح کے حالا ت کا تدارک ناگزیر ہے۔ مملکت پاکستان نے ہر فورم پر کشمیریوں کی تائید حمایت میں پوری قوت سے کردار ادا کیا یہاں تک اپنا وجود بھی داؤ پر لگا دیا تھا ۔ پاکستانی ماؤں نے اپنے لخت جگر تحریک پر نچھاور کر دیے ۔ کشمیریوں کے ساتھ پاکستان سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں سے لے کراس سلسلے میں معاہدے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی تحریک کو عالمی سطح پر تسلیم کراتے ہیں۔مگر پنجاب کے سکھوں کی خالصتاًن قیام کی تحریک یکسر مختلف ہے ان کو کسی ملک کی حمایت حاصل نہیں ہے ۔

سکھوں نے کینیڈا میں اثر رسوخ قائم کر تے ہوئے نہ صرف وہاں 20 اسمبلی نشستیں بلکہ کینیڈا حکومت میں پانچ وزارتیں حاصل کیں جن کا اثر یہ ہے کہ کینیڈاکے وزیراعظم کی دہلی آمد پر دہلی حکام رونا روتے رہے بیرون ملک کشمیری مہاجرین کو مملکت پاکستان کی تائید حمایت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے تسلیم شدہ حق کیلئے کردار موثر بنانا ہو گا۔ ساری دنیا کی طرح یہاں بھی پانی کا عالمی دن منایا گیا۔

پانی زندگی کا دوسرا نام ہے اور ثابت ہو چکا ہے پانی کو سمندر میں گرا کے ضیائع ہونے سے بچانے کیلئے ذخیرہ کرنے کے اقدامات ناگزیر ہیں ۔ آزاد کشمیر ، میرپور، بھمبرکو زرعی و پینے کے پانی کی ضرورت ہے تو مظفرآباد کے عوام کو ماحول اور پینے کے پانی سمیت سیوریج کے حوالے سے خطرات لاحق ہیں مگر خاموشی چل رہی ہے ۔ یہ اچھی بات ہے گزشتہ دو سالوں سے محترمہ نورین عارف کی معدنیات کی وزارت میں پتھروں کی نیلامی میں پول اور بارگینگ کے بجائے اوپن بولی ہوتی ہے اور بڑے شہروں کے پتھروں کے بڑے بیوپاریوں کے بجائے مقامی افراد نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ اگرچہ ننگی مالی پر کام بند ہے اور کارپوریشن ان پتھروں کی نیلامی سے اپنا بجٹ چلاتی ہے مگر صاف شفاف طریقہ کے تحت ننگی مالی سمیت ذخائر کے حوالے سے حکمت عملی اختیار کی جائے تو روزگار کے مواقع میسر آ سکتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے