تم آو گے نا ؟؟ ضرورآنا

کراچی والوں ،، میرے بچوں ۔۔ خوش رہو ، کھیلو کودو ، خوب مسکراو

سالوں بعد تم سے بات ہورہی ہےاور دل چاہ بھی رہا تھا کہ بات ہو، وہ تم سارے آجکل سوشل میڈیا پر اپنی زبان میں کیا کہتے پھر رہے ہو کہ دل گارڈن گارڈن اور لب شیریں سا ہورہا ہے، بس سمجھو یہی کیفیت ہے۔ اور ہو بھی کیوں نا، مجھ تریسٹھ سال کے بوڑھے کو دولہے کی طرح سجا ڈالا ہے، مطلب بڈھی گھوڑی لال لگام، میں تو بھول ہی گیا تھا کہ بنایا کس مقصد کے لئے گیا تھا، اپنا وجود کسی اولڈ ہاوس کے بوڑھے کا سا لگنے لگا تھا کہ جس کے بچے اس کی ساری جمع پونجی لوٹ کھسوٹ کر ابا جی کو ایک کونے میں ڈال کر سرے سے بھلا ہی بیٹھے ہوں۔ ۲۰۰۹ میں سری لنکن بچوں پر حملے کے بعد میں سوچتا تھا کہ اب یہاں تاقیامت جنازے ہی پڑھاءے جاتے رہیں گے یا پھر توڑ تاڑ کر زمین کسی ہاوسنگ اسکیم میں بدل دی جائے گی ، لیکن میں غلط تھا، تمہارے مسائل تھے اور بہت شدید تھے، اب جیسے جیسے حل ہورہے ہیں ازالہ بھی ہورہا ہے۔۔ جو مجھے جانتے ہیں ان کو تو بہت کچھ یاد ہوگا، جو نہیں جانتے ان بچوں سے اپنا تعارف خود ہی کرائے دیتا ہوں

تو بیٹا میں نیشنل اسٹیڈیم ہوں ، 1955 میں تعمیر کیا گیا، اور میرے سینے پر پہلا ٹیسٹ میچ 1955 میں پاکستان بمقابلہ ہندوستان ہوا ۔ میرے دل کی طرح میرا وجود بھی بہت کشادہ ہے ، 40,000 بھی آجاو تو بسم اللہ ۔۔ تمہیں یہ جان کر خوشی ہوگی کہ میری اور تمہاری ہم سب کی پاکستانی ٹیم نے اس ملک میں اپنے نصف سے زائد ٹیسٹ میچز میرے یہاں کھیلے اور خدا گواہ ہے کہ ہمارے بچوں کو ان میں سے صرف دو میں ناکامی ہوئی۔ وہ ابھی چند سال پہلے ۔۔ ورنہ باہر والے سمجھتے رہے تھے کہ جیسے میں بھی اپنے بچوں کی ٹیم میں بارہواں کھلاڑی ہوں

کیسی کیسی شاندار یادیں ہیں، تلخ و شیریں واقعات ۔۔ جیسے 1968 میں انگلینڈ کے خلاف اور 1969 میں نیوزی لینڈ کے خلاف میرے یہاں کھیلی گئیں ٹیسٹ سریزیں ہنگامہ آرائی کے باعث بُری طرح متاثر ہوئیں۔ 1981 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچ اور 1983 میں آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچ کے دوران بھی ہنگامہ آرائی ہوئی جس کے سبب میچ درمیان میں ہی روکنا پڑا۔ لیکن پھر 1980 کی دہائی کے اختتام سے حالات بہتر ہونا شروع ہوئے۔ 1987 میں عالمی کپ کے لیے مجھے مزید وسیع کیا گیا جس کے بعد ورلڈ کپ کے دوران 3 میچز کی میزبانی مجھے نصیب ہوئی۔ اور پھر چھوٹی موٹی سیریزوں کا سلسلہ چلتا گیا ، ورلڈ کپ 1996 کے لیے مزید گنجائش نکالنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں مزید آراستہ اور پیراستہ کیا گیا۔ ۔ سن چھیانوے میں بھی ورلڈ کپ کے دوران 3 میچز میں نے منقعد کرائے۔ 1955 اور 1950 کی دہائی کے اختتام تک میری پچ کی تیاری میں پٹ سن استعمال ہوتا تھا جو سیم باؤلنگ کے لیے کافی سازگار سمجھا جاتا تھا۔ لیکن پر اسے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد پچز ہموار اور بیٹنگ کے لیے سازگار ہوئیں۔ یہ سلسلہ 1970 کی دہائی کے وسط تک جاری رہا۔ بعد ازاں مجھے سنوارنے بنانے والے بچوں نے اسکوائر ٹرنرز تیار کرنا شروع کردیا، مگر 1982 سے پچز کھیل کے لیے مزید سازگار ہوگئیں۔ ٹیسٹ میچ کی شروعات میں یہ پچ فاسٹ باؤلرز کو سیم اور باؤنس باؤلنگ کا موقعہ فراہم کرتی، درمیان میں متوازن باؤلنگ کا موقع دیتی اور میچ کے بالکل آخر میں تھوڑا اسپن کو مواقع فراہم کرتیں، جبکہ ایک روزہ میچ کے دوران پچز بیٹنگ کے لیے سازگار رہیں۔

اچھا تمہیں یہ جان کہ بھی لطف آئے گا کہ میں ہمیشہ فاسٹ بولرز کو گیند گھمانے کا موقع فراہم کرتا رہا کیونکہ متوازن سمندری ہوا جو اکثر پورے میدان میں چلتی ہے انہیں ایسا کرنے میں بھرپور مدد دیتی رہی ہے۔

بچوں تم جانتے بھی ہو کہ لٹل ماسٹر کے نام سے پہچانے جانے والے سچن ٹنڈولکر نے1989ء میں میری ہی پچ پر کھڑے ہوکر اپنی زندگی کا پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ اس وقت برخوردار کی عمر سترہ سال کے لگ بھگ ہوگی۔

جو میرے مہمان بنتے آئے انہیں ۱۹۸۷ میں ویسٹ انڈین لیجنڈ ووین رچرڈز کی سری لنکا کہ خلاف ۱۸۱ رنز کی وہ اننگ بھلا کیسے یاد نا ہوگی جو انھوں نے ورلڈ کپ کے موقع پر کھیلی تھی، سنا ہے رچرڈز پھر کراچی تشریف لائے ہیں، بسم اللہ بسم اللہ ۔۔ دیدہ دل ، فرش راہ

میاں ۔۔ محمد یوسف ہی کو لو ۔۔ اس ہورنہار بچے نے ۲۰۰٦ کے دوران کلینڈر ائیر میں سب سے زیادہ رنز بنا کر رچرڈز کا ریکارڈ توڑا تو یہیں میری پچ پر ۔۔

پھر ۲۰۰۹ میں مجھ خوش نصیب کو یونس جیسا باکمال بیٹا ملا جس نے سری لنکا کے خلاف ۳۱۳ رنز تنہے تنہا بنا ڈالے ۔ میری ساٹھ سالہ عمر میں ایسا یہاں کوئی اور نہیں کر پایا تھا ۔

اور بھی ایسے کیسے کئی ایک مناظر ہیں جو آنکھوں میں بسے ہیں ۔۔ ہاں کرکٹ سے ہٹ کر بات کرو تو ۱۲ ستمبر 1976ء میں اس وقت کے سب سے بڑے پہلوان اکی عرف جھارا اور جاپانی ریسلر انوکی کے درمیان بڑا دنگل ہوا ۔۔ میزبان میں تھا ۔۔ ہزاروں کا مجمع ہوگا ۔۔ لوگ جانے کہاں کہاں سے یہ جوڑ دیکھنے آئے تھے ۔۔ افسوس کہ اس کشتی میں انوکی پہلوان نے اکی کو شکست دی ۔۔ اور وہ بھی ایسی کہ جھارے کا ہاتھ توڑ دیا ۔۔ کیا منظر تھا ۔۔ آج بھی سوچتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔

ٖٖخیر ۔۔ اب تو منظر تبدیل ہے ۔۔ باہر کیاری میں لگے پھولوں سے شروع کرو تو اندر پچ تک بچوں نے ایسا سجایا بنایا ہے کہ اپنا چہرہ ہی انجانا لگتا ہے ۔ ۲۵ یعنی اتوار کو پی ایس ایل کا فائنل ہے ۔۔ ٹکٹ مل گیا تو دوڑے چلے آو ۔۔ نہیں ملا تو کوئی بات نہیں ۔ یکم ، دو اور تین اپریل کی تاریخیں یاد رکھو ۔۔ ویسٹ انڈیز والے آرہے ہیں ، تینوں ٹی ٹوئنٹی ہیں ۔ میرے بال یعنی چھت آجکل غائب ہے لیکن رات میں اسکی خاص ضرورت بھی نہیں ۔۔ اب بہانے مت بنانا ۔۔ ٹریفک میں پھنستے ہو تو پھنس جاو ۔۔ لائینوں میں لگو ۔۔ چند دھکے اور ایک آدھا ڈنڈا بھی کھانا پڑے تو غم نا کرنا ۔ بس چلے آنا ۔۔ تمہیں سالوں باہر سڑک پر سے گزرتے دیکھا ۔۔ اب ذرا قریب آجاو ۔۔ سینے سے لگا لو اس بوڑھے کو ۔۔ خدا کی قسم ۔۔ دل گارڈن گارڈن ہوجائے گا۔

تمہارا اپنا

نیشنل اسٹیڈیم، کراچی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے