نیب میں ایک قبر بنا دیں

آخری منظر‘ وہ 22 فروری کا دن نہ دیکھ سکے‘ 21 فروری 2018ء کو لمبی ہچکی لی‘ سانس اکھڑا اور دل نے کام کرنا بند کر دیا‘ وہ ہے سے تھے ہو گئے‘ ملک اپنا تھا‘ شہر اور نہ ہی لوگ‘ خاندان نے متحدہ عرب امارات میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا‘جنازے میں چھ لوگ شریک ہوئے‘ دعا ہوئی اور انھیں قبر میں اتار دیا گیا‘ مسافر کو اپنے ملک میں قبر تک نصیب نہ ہوئی‘ انتقال کی خبر تک شایع نہ ہوئی اور یوں یہ باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

پہلا منظر‘وہ ایک چھوٹا سا مستطیل کمرہ تھا ‘ کمرے میں چھ بائی دو فٹ کی دھاتی چارپائی تھی‘وہ جب کروٹ بدلتے تھے تو اسپرنگوں کی چیخیں چارپائی کے بجائے ان کے اندر سے آتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں‘کموڈ بھی کمرے کے اندر ہی تھا‘ وہ جب کمو ڈ پر بیٹھتے تھے تو وہ دروازے کے شیشے سے ہر گزرنے والے کو پورے کے پورے نظر آتے تھے۔

اس نازک صورتحال میں ان کی پوری کوشش ہوتی تھی وہ باہر دروازے کی طرف نہ دیکھیں ‘ ساتھ ہی پانی کی ٹونٹی لگی تھی‘ انھیں جب پیاس لگتی تو وہ ٹونٹی کا لیور دباتے تھے‘ پانی کی دھار چھت کی طرف اٹھتی اور وہ دھار پر اپنا منہ رکھ دیتے تھے‘ کمرہ بہت چھوٹا تھا‘ وہ چارپائی پر لیٹے لیٹے ٹانگیں سیدھی کرتے تھے تو ان کے پاؤں دیوار سے جاٹکراتے تھے‘وہ انگڑائی لینے کے لیے بازو پھیلاتے توسرہانے والی دیوار ان کے ہاتھ روک لیتی تھی۔

وہ لیٹ لیٹ کر تھک جاتے تو اٹھ کر ٹہلنے لگتے تھے لیکن ٹہلتے بھی کہاں چار قدم بعد تو دیوار آ جاتی تھی‘ ایسے حالات میں ان کی واحد تفریح کمرے کا دروازہ تھا جس کے درمیان میں آرپار دیکھنے والا شیشہ جڑا تھا‘ شیشہ بنیادی طور پر نگرانوں کے لیے تھا‘ یہ کمرے دراصل خاص مجرموں کے لیے بنے تھے‘ ایسے مجرم جنھیں جنون ہو ‘جو کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہوں‘ جنھیں کوئی متعدی مرض لاحق ہو یا پھر وہ قیدی جن کا ذہنی توازن درست نہ ہو اور ڈاکٹروں نے انھیں خطرناک قرار دے دیا ہو انھیں ان کمروں میں رکھا جاتا تھا تاکہ جیل کا عملہ ہر پانچ دس منٹ بعد شیشے سے اندر جھانک کر قیدی کی حرکات کا جائزہ لے سکے۔

وہ بھی ایسے ہی کمرے میں تھے‘ کیوں تھے؟ اس کی ایک وجہ تھی‘ ان کے خاندان نے عدالت میں درخواست دے رکھی تھی ’’ان کے قیدی کی ذہنی اور جذباتی حالت درست نہیں‘انھیں خطرہ ہے کہیں یہ خود کو نقصان نہ پہنچا لے‘‘خاندان کا خیال تھا اس درخواست کی وجہ سے انھیں اسپتال منتقل کر دیا جائے گا لیکن یہ جیل اور عدالت پاکستانی نہیں تھی چنانچہ جیل حکام نے انھیں اسپتال شفٹ کرنے کے بجائے خصوصی کمرے میں منتقل کر دیا اور یوں ان کی اذیت میں اضافہ ہو گیا اور وہ دروازے کے سامنے بیٹھ کر گھنٹوں گزرنے والوں کو دیکھتے رہتے تھے‘ وہ جب تھک جاتے تو دوبارہ لیٹ جاتے تھے۔

وہ کون تھے‘ وہ پاکستان کے سابق نیول چیف ایڈمرل منصور الحق تھے اور کمرہ امریکا کی سب سے بڑی ریاست ٹیکساس کے دارالحکومت آسٹن کی ایک معمولی سی جیل میں تھا‘ منصور الحق کو آسٹن حکام نے2001ء میں پاکستان کی درخواست پر گرفتار کیا تھا‘ ان پر الزام تھا انھوں نے نیول چیف کی حیثیت سے اربوں وپے کے گھپلے کیے‘ حکومت نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کیں تو وہ فرار ہو کرامریکا چلے گئے‘ وہ امریکا میں کرپشن کے پیسے سے عیش کر رہے تھے۔

نیب نے امریکا سے درخواست کی اور وہ گرفتار ہو گئے‘ گرفتاری کے بعد آسٹن کے قوانین کے مطابق ضروری کارروائی ہوئی اور پھر جج کے حکم سے انھیں جیل بھیج دیا گیا‘ یہ شروع میں میکسیکو کے چوروں‘ منشیات فروشوں اور سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کے درمیان رہے پھر ان کے خاندان کی درخواست پر انھیں ’’ خصوصی کمرے‘‘ میں منتقل کردیا گیا ۔

وہ جیل میں قیدیوں کے لیے مخصوص سبزی مائل نیلا لباس پہنتے تھے اور ان کے پاؤں میں مالٹے رنگ کے سلیپر ہوتے تھے‘ ناشتے‘ لنچ اور ڈنر کے وقت انھیں خصوصی نگرانی میں جیل کے ڈائننگ روم میں لایا جاتا تھاجہاں وہ اپنی پلیٹ ہاتھ میں اٹھا کر قطار میں کھڑے ہوتے تھے‘ اپنی باری پر کھانا لیتے تھے‘ کھانے کے بعد اپنی پلیٹ خود دھوتے تھے اور چپ چاپ واپس آ جاتے تھے‘ پیشی کے وقت انھیں عدالت لے جایا جاتا تھا توان کے ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پاؤں میں بیڑیاں ہوتی تھیں۔

ملاقات کے وقت بیگم صاحبہ جیل آتی تھیں اور وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھ جاتے تھے‘ درمیان میں شیشے کی مضبوط دیوار ہوتی تھی‘ وہ دونوں ٹیلی فون کے ذریعے گفتگو کرتے تھے‘ان کی گفتگو ساتھ ساتھ ریکارڈ ہوتی جاتی تھی‘ یہ وہ حالات‘ یہ وہ صورتحال تھی جس سے مجبور ہو کر سابق نیول چیف نے شکست تسلیم کر لی‘ انھوں نے کرپشن کی ساری کمائی نیب کے حوالے کرنے کی حامی بھر لی اور خود کو پاکستان کی تحویل میں دینے کی درخواست دے دی‘منصور الحق کی درخواست منظور ہو گئی‘ نیب کے حکام17اپریل 2001ء کو آسٹن پہنچے‘ جیل حکام نے ان کا مجرم ان کے حوالے کر دیا۔

دوسرا منظر‘ منصور الحق جونہی پاکستانی حکام کے کنٹرول میں آئے ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا‘ جیل کا لباس اتر گیا‘ انھیں خوبصورت اور قیمتی سوٹ پہنا دیا گیا‘ انھیں آرام دہ گاڑی میں ائیر پورٹ اور وہاں سے جہاز کے فرسٹ کلاس ٹکٹ پر پاکستان لایا گیا‘ وہ راولپنڈی پہنچے تو انھیں کسی سیف ہاؤس‘ انٹیروگیشن سینٹر‘ حوالات یا جیل میں رکھنے کے بجائے سہالہ ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرا دیا گیا‘ انھیں وہاں آراستہ و پیراستہ آرام دہ بیڈ روم دے دیا گیا‘ ایئر کنڈیشنربھی آن ہو گیا‘ فریج بھی آ گیا‘ ٹی وی بھی لگ گیا اور انھیں اخبارات بھی پہنچنا شروع ہو گئے‘ وہ نوے روز اس ریسٹ ہاؤس میں رہے اور اس شان سے رہے کہ خانساماں ان سے پوچھ کر ان کے لیے لنچ اور ڈنر تیارکرتاتھا۔
انھیں ان کی مرضی کے ڈاکٹر اور دوائیں دی جاتی تھیں‘ وہ جب چاہتے تھے انھیں واک کرنے کا موقع دیا جاتا تھا‘ انھیں ہر شخص‘ ہر آفیسر سر کہہ کر مخاطب ہوتا تھا ‘افسر تفتیش اور تحقیقات کے لیے بھی اجازت لے کر ان کے سامنے بیٹھنے کے جسارت کرتے تھے ورنہ وہ کھڑے ہو کر سوال پوچھتے تھے‘ رات کو اگر انھیں پانی کی ضرورت پڑتی تھی یا انھوں نے اے سی کا درجہ حرارت تبدیل کرناہوتا تھا تو انھیں بستر سے اٹھنا نہیں پڑتا تھا‘ وہ بس بیل دیتے تھے اور نوکر آ کر ان کا تکیہ اور چادر تک درست کر جاتا تھا۔

20اگست 2001ء کو منصور الحق کا جسمانی ریمانڈ پورا ہوا‘ انھیںاحتساب کورٹ میں پیش کیا گیا‘ جج نے انھیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم جاری کر دیا‘ آپ سابق نیول چیف کی خوش قسمتی دیکھئے جج کے حکم کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ احتساب بیورو کے چیئرمین نے اسی سہالہ ریسٹ ہاؤس کو ’’ سب جیل‘‘ قرار دے دیایوں ہمارے سابق نیول چیف عدالت سے نکلے اور جیل کے نام پر سیدھے ریسٹ ہاؤس پہنچ گئے‘ وہ جب تک ’’جیل‘‘ میں رہے ‘وہ ڈائننگ ٹیبل پر لنچ کر تے رہے‘ واک کرتے رہے‘ سوٹ پہنتے رہے اور وہ بیگم صاحبہ سے ’’بالمشافہ‘‘ ملاقات کرتے رہے۔

یہ ’’جیل‘‘ بھی اس وقت تک قائم رہی جب تک انھوں نے ’’پلی بارگین‘‘ نہیں کر لیا۔ ’’صاحب‘‘ نے کرپشن کی دولت کا دس فیصد نیب میں جمع کرایا اور وہ دنیا کے ’’فری سٹیزن‘‘ ہو گئے‘ وہ پوری دنیا میں پھرنے لگے یہاں تک کہ 21 فروری 2018ء کا دن آ گیا‘ وہ متحدہ عرب امارات میں اپنے گھر میں تھے‘ آخری ہچکی آئی اور وہ چپ چاپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔

وہ فوت ہوئے تو لوگ یہ تک بھول چکے تھے منصور الحق پاکستان کے وہ پہلے نیول چیف تھے جنھیں 1997ء میں کرپشن کے الزامات میں نوکری سے فارغ کیا گیا تھا‘ وہ اربوں روپے کے مالک تھے لیکن وہ ان اربوں روپے سے ملک میں قبر کے لیے چھ فٹ زمین نہیں خرید سکے‘ وہ ایک افسوس ناک زندگی کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئے۔

میری چیئرمین نیب سے درخواست ہے آپ نیب کے ہیڈ کوارٹر میں ایڈمرل منصور الحق کی ایک علامتی قبر بنا دیں‘نیب جو بھی بڑا مجرم گرفتار کرے ‘ وہ اسے اس قبر پر لائے اور پھر عرض کرے ’’سر! حرام کی جس کمائی نے منصور الحق کا ساتھ نہیں دیا تھا آپ اسے کب تک چھپا لیں گے‘ توبہ کریں اور راہ راست پر آ جائیں‘‘ شاید یہ قبر ہی بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لے آئے‘ شاید منصورالحق کا انجام ہی گمراہوں کو اصل راہ دکھا دے‘ شاید منصور الحق نئے منصورالحقوں کی پیدائش روک دے‘آپ اس قبر کو کہانی کا آخری منظر بنا دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے