پاکستان کا نظام، ماموریت یا جمہوریت

کوئی بهی ملک ٹهوس آئین اور مستحکم نظام کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا- قانون کے بغیر اجتماعی زندگی حرج ومرج اور افراط وتفریط کا شکار ہونا قطعی ہے- چنانچہ ہم دیکهتے ہیں کہ کرہ ارض پر موجود چھوٹے بڑے تمام ممالک میں کوئی نہ کوئی قانون اور نظام ہے جس کے زیر سایہ معاشر ے کے افراد زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،آپ یوں سمجهیں کہ نظام اور قانون ہی اجتماعی زندگی کی بنیاد اور اساس ہے جس کے بغیر اس کا تصور ممکن نہیں –

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرتی زندگی کے لئے ہر طرح کا نظام مفید ہے یا کوئی خاص نظام ؟ دوسری شق صحیح ہونے کی صورت میں وہ خاص نظام کون سا ہے ؟

اس حوالے سے انسانوں کے آراء اور نظریات مختلف ہیں، البتہ مطلق نظام کہ جس میں جنگل کا نظام بهی شامل ہے کے قائل لوگوں کی تعداد محدود ہے – انسانوں کی اکثریت اس بات کو مانتی ہے کہ انسانی معاشرے کی آسودگی خاص نظام سے جڑی ہوئی ہے ،لیکن اس نظام خاص کی تفسیر اور مراد کے بارے میں ان کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں – بعض کہتے ہیں وہ خاص نظام آمرانہ نظام ہے، کچهہ کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ خاص نظام بادشاہی نظام ہے ،ان کے مقابلے میں ایک گروہ کا تصور یہ ہے کہ خاص نظام سے مقصود جمہوری نظام ہے کوئی دوسرا نظام نہیں-

دنیا کے ممالک پر جب ہم طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر نظام آمریت ،بادشاہت اور جمہوریت کے مصداق نظر آتے ہیں – عرب ممالک جیسے سعودی عرب بحرین وغیرہ میں نظام بادشاہت حاکم ہے – مغربی ملکوں میں نظام آمریت مسلط ہے اور بہت کم ممالک میں جمہوری نظام دکهائی دیتے ہیں جن میں سرفہرست اسلامی جمہوریہ ایران ہے، اس ملک کے باسیوں کو عرصہ دراز نظام آمریت کے ماتحت غلامانہ زندگی گزارنے کے بعد نظام جمہوریت کی شیرینی اور حلاوت چکنے کا موقع میسر آیا – ایرانی قوم رضا شاہ جیسے متکبر مغرب کے غلام مطلق آمروں کے ہاتهوں طرح طرح کے مظالم برداشت کرنے پر مجبور تهی، ملت ایران کو نہ اظہار رای کی آزادی تهی اور نہ اظہار بیان کی – وہ نہ سیاسی امور میں مداخلت کرسکتی تهی اور نہ ہی خود مختار طریقے سے اپنے ملک کے نفع ونقصان کے بارے میں فیصلہ کرسکتی تهی، ایران کے حکمران بکے ہوئے تهے، وہ امریکہ کے ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے تهے، ایران کی ساری ثروت سے امریکہ بهرپور استفادہ کرتا تها اور اس ملک کے نظام کی زمام اسی کے ہاتهہ میں تهی-

لیکن اس قوم کو اللہ تعالی نے امام خمینی رح کی شکل میں ایسی صاحب بصیرت شخصیت عطا کی جس نے نہ فقط ایرانی قوم کو بیدار کیا بلکہ تخت سلطنت رضا شاہ کو زمین بوس کرکے ایران کی سرزمین پر اسلامی عادلانہ نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوئے -امام خمینی نے ایران میں آمرانہ نظام کی جگہ جمہوری نظام نافذ کرکے ایرانی قوم کو عزت امن اور سکون سے لبریز زندگی سے مالا مال کیا اور آپ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس قوم کی ایسی فکری تربیت کی جو اسلامی دنیا میں بے نظیر قرار پائی- بلا مبالغہ آج کرہ ارض پر ایران وہ واحد ملک ہے جو استقلال اور آذادی کی نعمت سے مالا مال ہے، اس کے علاوہ باقی سارے ممالک خواہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ واسرائیل کے دست نگر ہیں –

آج بعض اسلامی ممالک تو اپنے کرتوت کے سبب اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ،اس میدان میں سعودی عرب سب سے آگے ہے جس نے اسلام کے سنہرے اصول اور روشن تعلیمات سے منہ موڑ کر مسلمانوں سے دشمنی اور امریکہ واسرائیل سے دوستی کررکهی ہے اور یمن کے مظلوم مسلمانوں کو فقط اپنے صمیمی دوستوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے عرصہ دراز سے بموں کا نشانہ بنارکها ہے، جس کے نتیجے میں لاتعداد مسلمان شهید، بے شمار غریب مسلمان جس میں بوڑهے بچے اور عورتیں شامل ہیں کو زخمی اور مجروح کرکے ان پر عرصہ حیات تنگ کررکها ہے.

معروف تجزیہ کار عرفان علی لکھتے ہیں کہ دنیا کے غریب ترین عرب ملک یمن میں سعودی و اتحادی فوجی جارحیت کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے شعبے نے پچھلے سال جنوری میں رپورٹ دی تھی، جب اس جنگ کا دوسرا سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا، تب دس ہزار عام یمنی شہری شہید ہوچکے تھے جبکہ چالیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت جیمی مک گولڈ ریک کے مطابق ایک کروڑ نوے لاکھ یمنی شہریوں کو انسانی امداد کی شدید ضرورت تھی اور تیس لاکھ سے زائد یمنی شہری نقل مکانی پر مجبور ہوکر دیگر علاقوں کا رخ کرچکے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نقصان صرف اتنا ہی ہوا ہے جتنا اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ میں پچھلے سال یا اس کے بعد وقتاً فوقتاً ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ لیکن اگر اقوام متحدہ کے اعداد و شمار ہی درست مان لیں، تب بھی سعودی و اتحادی افواج کی اس جارحیت کے باوجود امریکہ و برطانیہ نے ان حملہ آور ممالک کو اسلحے کی فروخت منسوخ نہیں کی۔ پچھلے سال یعنی 2017ء میں ایک ارب دس کروڑ پونڈ مالیت کا اسلحہ برطانیہ نے سعودی عرب کو فروخت کیا جبکہ امریکہ نے خاص طور پر صرف یمن جنگ کے لئے سعودی عرب اور متحدہ امارات کو 65 کروڑ ڈالر کا مہلک اسلحہ فروخت کیا، جو امریکی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹ کمرشل سیلز پروگرام کے تحت براہ راست فروخت کیا گیا، دیگر اسلحہ اس کے علاوہ تھا۔

سال 2016ء میں متحدہ عرب امارات نے اس پروگرام کے تحت چھ کروڑ ڈالر مالیت کا چھوٹا اسلحہ امریکہ سے خریدا تھا جبکہ سعودی عرب نے ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر مالیت کی مشین گنیں خریدی تھیں۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد اور وزی دفاع محمد بن سلمان آل سعود کے دورہ برطانیہ و امریکہ میں اسلحے کی خرید و فروخت کے نئے عہد و پیمان بھی ہوئے ہیں۔ یعنی تاحال سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کو یمن پر مسلط کردہ اس جنگ کو جاری رکھنے کے لئے مطلوبہ حمایت و کمک امریکہ و برطانیہ فراہم کر رہے ہیں –

افسوس؛ مسلمانوں کی بے حسی اور سادہ لوحی پر ہوتا ہے کہ سعودی عرب بڑی ڈهٹائی سے یمن کے غریب مظلوم مسلمانوں پر اس قدر بربریت کا مظاہرہ کررہا ہے مگر مسلمان ٹسے مس نہیں ہورہے ہیں- یمن کے مظلوم مسلمان صبح شام مدد کے لئے پکار رہے ہیں لیکن دنیائے کے مسلمانوں کی اکثریت کے دلوں پر ان مظلوموں کی آواز کا کوئی اثر نہیں ہورہا ،ان کے دل پتهر بنے ہوئے ہیں- اس سے بهی زیادہ تعجب ان نام نہاد مسلمانوں پر ہوتا ہے جنہیں یمن کے مسلمانوں پر سعودی عرب کے ظلم وستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بالکل نظر نہیں آتا، اس کے مظالم پر تو انہیں لب ہلانے کی توفیق نہیں ہوتی مگر شام میں بشار الاسد کا اپنے ملک کا دفاع کرنا بڑا ظلم دکھائی دے رہا ہے اور اس دفاعی جنگ میں مارے جانے والوں کی حمایت کے آڑ میں مسئلہ شام کو فرقہ واریت کا رنگ چڑهانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں-

سوشل میڈیا پر ایک گروہ نے حلب, کشمیر اور برما کے مسلمان عورتوں اور بچوں کی تصویروں کے نیچے شام کے مظلوم مسلمانوں کے ساتهہ دل سوزی اور بشار الاسد کی مزمت پر مشتمل جملے لکهہ کر عوام کو بشار الاسد سے متنفر کروانے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے -اس گروہ کا ہدف فقط پریپوگنڈہ کرکے لوگوں کو حقائق سے بے خبر رکهنا ہے جس کی جتنی مزمت کی جائے کم ہے- صداقت اور امانت تو مسلمان کی پہچان ہے جس سے کسی بهی صورت میں فرار ممکن نہیں – دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد انسان کو بہت ساری چیزوں کا پابند ہونا پڑهتا ہے جن میں سرفہرست صداقت اور امانت ہے- سچ بولنا اور امانت داری کی پاسداری کرنا مسلمان کا فرض ہے-

لیکن آج کل کے اس ترقی یافتہ زمانے میں جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کی برق رفتار پیشرفت نے پرانے زمانے میں لوگ جو کام سال میں انجام دے سکتے تهے اسے ہفتوں اور گهنٹوں میں انجام دینا ممکن بنادیا ہے، اسی طرح کرہ ارض پر دین کے کچهہ ایسے ٹهیکدار بهی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے مسلمان ہونے اور مسلمانیت پر باقی رہنے کو بهی بہت ہی سہل اور آسان بنادیا ہے – جن کی منطق یہ ہے کہ جهوٹ بولو ،امانت میں خیانت کرو ،حق کو باطل اور باطل کو حق کہو، مسلمانوں کو کافر سمجهہ کر قتل کرو کوئی بات نہیں اس سے نہ فقط انسان پکا مسلمان بن جاتا ہے بلکہ جنت کی ٹکٹ ملنا یقینی ہے-

پاکستان کے کلی نظام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کا نظام ماموریت ہے نہ جمہوریت – چونکہ کسی نظام پر جمہوریت تو تب صادق آتی ہے کہ جس میں عوام کی آزادی رای سے حکمران منتخب ہوجائیں اور منتخب ہونے والے حکمران خود کو عوام کا خادم سمجهتے ہوئے قوم وملک کی فلاح اور ترقی کے لئے خدمات سرانجام دیں – ہمارے ہاں تو عوامی رای کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ہمارے حکمران بهی دوسرے منتخب کرتے ہیں اور وہ دوسروں کے اشارے سے ہی ملک کے لئے قانون اور نظام وضع کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ملک ترقی کے بجائے تنزلی اور پستی کی طرف رواں دواں ہے ،پاکستانی معاشرے میں انصاف کی بو تک نہیں، قانون پر عمل کرنا فقط غریب طبقوں کے لئے ضروری ہے، اقتدار اعلی پر براجمان رہنے کا حق صرف چند اشرافیہ خاندان کے لئے ہے ،موروثی سیاست اس ملک کا طرہ امتیاز ہے-

پاکستان کا نظام جمہوریت کے بجائے ماموریت ہونے پر اس سے بڑهہ کر اور کیا دلیل چاہیے کہ سینئٹ الیکشن شروع ہوتے ہی ہمارے نظام ماموریت کے آمر کا خاص نمائندہ پاکستان تشریف لاتے ہیں اور اپنے مامورین سے ملاقات کرتے ہیں، انہیں دل کهول کر ہدایات سے نوازتے ہیں – جن کی تشریف آوری کے اثرات میں سے ایک اثر یہ ہوا کہ بابائے طالبان فضل الرحمان علمائے متحدہ مجلس عمل کا صدر منتخب ہوئے، جس سے پاکستان کی سرزمین پر ایک بار پهر دہشتگردی کو تقویت ملنے کا قوی امکان پیدا ہوچکا ہے اور انہیں کے شہ پر ناچنے والے معروف کرکٹر عمران خان پاکستان کی افق سیاست پر نمایاں ہوکر پاکستان کی تقدیر بدلنے کا نعرہ لگا رہے ہیں- اسی طرح دوسری جانب سے قوم کا اثاثہ لوٹنے کے جرم میں معزول ہونے والے نواز شریف عدالت عظمے کی توہین کرنے کی نہ تهکنے والی جسارت کررہے ہیں – اگر پاکستان کا نظام جمہوری ہوتا تو اسے چوری کا جرم ثابت ہوتے ہی پهانسی پر لٹکا دیا جانا چاہئے تها مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا چونکہ ہمارا نظام ماموریت ہے، جس میں حکم کرنے والے دوسرے ہوتے ہیں، جس کے سبب نواز شریف اگر چہ ظاہری طور پر وزارت کے عہدے سے ہٹایا گیا لیکن ملک کا انصرام وانتظام اب بهی وہی چلارہے ہیں –

اس نکتے سے بھی کوئی شخص آنکھ نہیں چرا سکتا کہ پاکستان میں جمہوری نظام عملی طور پر نہ ہونے کی وجہ سے آج تک پاکستان کی ہرجہت سے اہم ترین خطہ گلگت بلتستان آئینی حقوق سے محروم ہے جہاں کے عوام کی وفاداریوں کے سبب پاکستان کی حاکمیت قائم ہے – جہاں کے لوگ غیر آئینی ہونے کے باوجود پاکستان کے دفاع میں فرنٹ لائن فائنٹر سمجھے جاتے ہیں – کے ٹو پاکستان ، سیا چن پاکستان ، قراقرم پاکستان کا حصہ سمجھے جاتے ہیں مگر حقوق کی بات آتی ہے تو دوسروں کے اشارے پر رقص کرنے والے حکمرانوں کی نگاہوں سے یہ خطہ اور اس کے باسی اوجھل رہتے ہیں – ان تمام قرائن اور شواہد سے یہ سمجهنے میں دیر نہیں لگتی کہ پاکستان کا نظام ماموریت ہے نہ جمہوریت –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے