گاڑی دودھ سے نہیں چلتی

دودھ نور ہے، کھیر ہے، خدائی نعمت ہے، مگر کوئی اس نور سے گاڑی چلانے کی کوشش کرے تو ناکام ہوگا۔ دودھ کی عظمت ا پنی جگہ مگر گاڑی چلانے کے لئے بہرحال ڈیزل اور پٹرول ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دنیا قوانین قدرت کے تحت چلتی ہے کسی کی خواہش ، زور زبردستی یا تحریر و خطاب سے حقائق نہیں بدلتے، جس طرح گاڑی دودھ سے نہیں چلتی بالکل اسی طرح کچھ بھی کرلیں عوام آمریت سے خوش نہیں رہ سکتے۔ اسی طریقے کے مطابق جمہوریت فوج نہیں چلا سکتی اسے اہل سیاست کے ذریعے ہی چلانا پڑے گا۔ اسی اصول کو مدنظر رکھیں تو تاریخ میں عدالتی فیصلوں کو عوام نے آنکھیں بند کرکے تسلیم نہیں کیا بلکہ سیاست کے فیصلے، ان عدالتی فیصلوں سے اکثر مختلف ہوتے ہیں۔

پاکستان کی 70سالہ تاریخ کو دیکھیں تو کئی بار جمہوریت کی قبر کھود کر آمریت کی نگرانی میں کانٹوں والے بیری کے پودے کاشت کئے گئے مگر جب وہ درخت پھیلتے اور پھولتے ہیں تو ان پر لگنے والے بیر میٹھے ہوتے ہیں۔ ’’ذوالفقار علی بھٹو‘‘ کا سیاسی کیرئیر اسکندر مرزا اور ایوب خان کے دور میں شروع ہوا مگر بعد میں وہ مکمل جمہوری، مزاحمتی اور باغیانہ رنگ اختیار کرگیا۔

نواز شریف کو بھی کانٹے والے درخت کی شکل میں جنرل ضیاء الحق نے کاشت کیا مگر اب ان کا رنگ جمہوری ہے ،ایسی اور بھی مثالیں ہیں۔ ان مثالوں سے سبق سیکھنا چاہئے کہ جمہوریت کے پودے پر آمریت کے کانٹے نہیں میٹھا جمہوری پھل ہی لگے گا۔ پھر بار بار آمریت کے ٹیکے لگا کر نظام کی ’’جون‘‘ بدلنے کی ضرورت کیا ہے؟

ملک کسی ڈاکٹرائن یا بیانیے سے نہیں چلتے، ملک صرف اور صرف آئین سے چلتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اصلی باپ ہی اصلی باپ ہوتا ہے، منہ بولے چاچے، مامے اور بابے اصلی نہیں بن پاتے۔پاکستان کا اصل باپ اور بابا، آئین ہے، سب اس کا احترام کریں، اس کی عزت کریں اور اس پر عمل کریں۔ سیاستدان آئین سے موشگافیاں نکال کر اسے مذاق نہ بنائیں، جج آئین کی روح کے خلاف فیصلے کرکے اسے آئین کے مطابق قرار نہ دیں اور جرنیل اپنے آئینی حلف کی مکمل پابندی کریں۔ آئین اور قانون بنانے کا اختیار صرف پارلیمان کو ہے عدلیہ آئین کی اساس اور روح کے مطابق فیصلے دینے کی پابند ہے۔ فوج سول حکومت کے ماتحت کام کرنے کی پابند ہے اور اس کی خلاف ورزی کی آئین میں سزا بھی موجود ہے۔

کہا جارہا ہے کہ آئین اور جمہوریت پر فوج اور عدلیہ کا مکمل اتفاق رائے ہے، اختلاف سیاسی قیادت اور ان پر الزامات کے حوالے سے ہے، مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے، نہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جائے اور نہ انہیں کوئی غیر آئینی معاہدہ کرکے جلاوطن کیا جائے۔ آئین اور انصاف پر سب کا ایمان ہونے کے باوجود جب مخالف کے لئے سخت قوانین اور زیادتیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو پھر آئین اور قانون پر چلنے کے بلند بانگ دعوے خالی خالی لگتے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہہ لے بہترین کرداررکھنے والے چیف جسٹس ثاقب نثار اور نواز شریف کے منتخب کردہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا تاریخ نواز شریف سے سلوک کے حوالے ہی سے فیصلہ کرے گی۔ جنرل باوجوہ خود تاریخ کے طالبعلم ہیں اس لئے انہیں تاریخ کے فیصلوں سے خبردار رہنا چاہئے اور ایسے کام کرنے چاہئیں کہ تاریخ میںانہیں اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔

فیشن کی بات اور ہےانگریزی شاعر لارڈ بائرن قدرتی طور پر لنگڑا کر چلتا تھا۔ اسے شہرت ملی تو اچھے بھلوں نے لنگڑا کر چلنا شروع کردیا، رومانی انگریزی شاعر کیٹس حساسیت کے حوالے سے مقبول تھا۔ اس کے زمانے میں نوجوان ٹی بی کی بیماری سے رومانس رکھتے تھے اور ٹی بی کا شکار ہونے والا محبوب و مظلوم تصور کیا جاتا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں عظیم مصور وہ ہوتا تھا جو مختلف رنگوں سے کھیلتا ہوا آخری عمر میں اندھا ہوجائے، یعنی کالا رنگ اس کی آنکھوں کو ڈھانپ کر اسے لازوال بنادے۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا دور آیا تو ہر کوئی دفتری اوقات میں نمازی بن کر سامنے آیا، جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے تو آزاد خیالی کی آڑ میں میڈم نورجہاں کے گانوں پر اچھا ڈانس کرنے والے منظور نظر بن بیٹھے،بالکل اسی طرح موجودہ دور میں اداروں کی حمایت کا دعویٰ فیشن بن گیا ہے۔ہر کوئی اداروں پر صدقے واری جاکر دراصل اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کررہا ہوتا ہے۔ اس حمایت کے ذریعے وہ اداروں کو اکسا کر نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کرنا چاہتا ہے۔

یاد رکھنا چاہئے کہ فیشن اور حقائق میں بہت فرق ہے آج اگر نواز شریف کی مخالفت اور اداروں کی تعریف و توصیف فیشن ہے تو کل کو یہ فیشن بدل جائے گا اور پھر سے چوڑی دار پاجاموں کے دوبارہ’’ان‘‘ ہونے کی طرح ادارے قابل تنقید اور سیاستدان قابل توصیف ٹھہرسکتے ہیں۔اس لئے فیشن کرتے ہوئے یاد رکھنا چاہئے کہ اپنا حلیہ ایسا نہ بنائیں کہ فیشن بدلے تو آپ مضحکہ خیز لگیں۔

آئین کو مائی باپ مان لیں تو پھر اس سے سرموانحراف کا تصور بھی ختم کرنا ہوگا۔ انتخابات میں ایک دن کی تاخیر بھی آئین کی خلاف ورزی ہوگی، نگران حکومت کی مدت میں اضافہ دھاندلی کی بنیاد رکھے گا اور یہ بھی آئین کے سراسر خلاف ہوگا۔ صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ آئین واضح طور پرنگران حکومت کے محدود وقت اور انتخاب کے بروقت انعقاد کا حکم دیتا ہے۔ باقی اس کی جو بھی تشریح کی جائے تاخیر کے لئے جو بھی بہانہ بنایا جائے وہ آئین کی روح کے خلاف ہوگا۔ مجھے ذاتی طور پر بہت سے عدالتی فیصلوں پر تحفظات ہیں مگر مجھے ابھی تک یقین ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان، آئین سے ہٹ کر نگران حکومت کو لمبا کرنے یا انتخابات کو ملتوی کرنے کے لئے کسی بھی بہانے کو تسلیم نہیں کریں گے۔مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان آئین کے کسٹوڈین ہیں، ان کے اختیارات اور حفاظت کی چھتری بھی آئین ہی ہے۔ اس لئے جب آئین سے ہٹ کر کچھ کرنے کی بات آئی تو سپریم کورٹ اسے تسلیم نہیں کرے گی۔ بس یہی وہ لمحہ ہوگا جب یہ ثابت ہوگا کہ اس ملک میں کسی ڈاکٹرائن یا کسی بیانیے نہیں صرف اور صرف آئین کی حکمرانی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ ساری قوم صرف اور صرف آئین کو اپنا رہنما مان لے ۔ عمران خان قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے لمبی نگران حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ عمران خان اس وقت جمہوریت کے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اس حوالے سے واضح مؤقف اپناتے ہوئے جمہوریت اور اداروں کے دفاع کے لئے باہر نکلیں اور ببانگ دہل آئین پاکستان کو اپنا رہنما مانتے ہوئے انتخابات میں تاخیر کی سازشوں کو ناکام بنادیں۔ عمران خان کا دفاعی رویہ اور انتظار کرو کی پالیسی کامیاب نہیں جارہی اسے جمہوریت کے حق میں جارحانہ مؤقف اختیار کرنا ہوگا، یہی پاکستان کی سلامتی اور استحکام کا واحد راستہ ہے۔ نواز شریف کو سزا دلوا کر عمران کو کیا سیاسی انعام ملے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے