’’جوتے مارو جوتے مارو‘‘

بادشاہ کا موڈ بڑا خوشگوار تھا ‘وہ حیران تھا کہ اس کی رعا یا خاموش ہے،اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں،نہ کہیں احتجاج ہوتا،نہ کالج کے لڑکے نکلتے اور نہ ہی یونیورسٹی کے جانباز شور کرتے ‘تاجر خاموش تھے ،اپوزیشن نے بھی چپ سادھ رکھی تھی ،ماحول بڑا پرسکون تھا،بادشاہ کے کسی دوست نے اسے فیس بک کا اکاؤنٹ بنا کر دے دیا،بادشاہ کو فیس بک کی لت پڑ گئی،ابھی فیس بک اس کے لیے نئی نئی دلہن تھی،بادشاہ نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ساتھ ہی ایک ٹویٹر اکاؤنٹ بھی بنا لیا،بادشاہ نے پہلا ٹویٹ اور فیس بک سٹیٹس حکم نامے کی صورت میں کیا’’آج سے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو دربان کھڑے ہونگے جو ہر گزرنے والے کو ایک ایک جوتا رسید کریں گے‘‘۔
پس پردہ بادشاہ ررعایا کی شکایات سننا چاہتا تھا کہ سب کچھ ٹھیک کیسے چل رہا ہے؟ایک رعایا ہے جو اندھی ‘گونگی اور بہری ہے‘چنانچہ سرکلر جاری ہوا،بادشاہ کا ٹویٹ ٹی وی چینلز نے سکرین شارٹس کی صورت میں چلایا‘اخبارات نے عکس دکھایا،فیس بک اور ٹویٹر کے صارفین نے قربانی کے گوشت کی طرح کی اس فیس بک سٹیٹس اور ٹویٹس کی صورت میں تقسیم کیا ‘دیکھتے ہی دیکھتے فیس بک اور ٹویٹر پرٹاپ ٹرینڈ بن گیا کہ آج سے ’’جوتے مارو جوتے مارو‘‘ کا ڈنکا بجنے لگا۔ب

ادشاہ بڑا خوش ہوا کہ ملک بھر میں جوتے مارنے کی خبر پھیل گئی شاید کوئی بولے گا؟ اس کے کام کرنے کے جذبے میں اضافہ ہوگا‘ملک بھر کے ٹی وی چینلز نے ریٹنگز کی دوڑ میں ’’جوتے مارنے‘‘ کی خبر کو بریکنگ نیوز بنا دیا، ٹاک شوز ’’جوتے مارو جوتے مارو‘‘ پر ہونے لگے،شام چھ سے دس کے سلاٹس میں ’’جوتے مارنے ‘‘کا نسخہ کیمیا میڈیا بانٹا جانے لگا،ملک کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر جوتے مارنے اور کھانے والوں پر ایز لائیو،دلکش پی ٹی سیز آڈیو اور ویڈیو بپرز کی بھی بھرمار ہونے لگی‘بادشاہ نے ایک اور ٹویٹ کیا کہ’’ آنے والے اتوار کو کھلی کچہری لگائی جائے گی‘‘،بالآخر اتوار آگیا،ملک بھر کے وفود باشادہ کی کچہری میں پہنچنے لگے،بادشاہ اپنے وقت کے مطابق کچہری پہنچا پہلا وفد حاضر ہوا اور ان کے ترجمان نے اپنے مسائل کو اختصار بخشتے ہوئے ایک ہی مطالبہ کیا۔

عالی جاہ! ہمارے داخلی اور خارجی راستے پر جو جوتے مارنے والے آپ نے دربان رکھے ہیں،ان کی تعداد نہایت قلیل ہے،ہمیں لائنوں میں کھڑے ہوکے روزانہ جوتے کھانے پڑتے ہیں،جس سے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے،ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے‘‘۔

یہی مطالبہ لیے ایک بعد کے دوسرا وفد حاضر ہوتا اور جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کرتا چلا جاتا،ان کو جوتے کھانے کی عادت سی پڑگئی،بادشاہ سر کوٹتا ہوا کچہری سے مسائل روزانہ سننے کا حکم نامہ جاری کرکے رخصت ہوگیا۔

یہی سلسلہ جاری رہا ہے ایک دن ایک ایسا وفد آیا اس کے ترجمان نے وہی مطالبہ دوہرانے کی کوشش کی ‘عالی جاہ! آگے ساری وہی پرانی کہانی‘اتنے میں ایک باضمیر شخص اٹھا اس نے اپنا جوتا اتارا اور بادشاہ کی طرف دے مارا، لوڈ شیڈنگ مہنگی بجلی،سڑکیں کھنڈارت سمیت درجنوں مطالبات کے حق میں بولتا ہی گیا بولتا ہی گیا،دربار میں سناٹا چھاگیا،بادشاہ کی گستاخی کرنے والے کا انجام کیا ہوگیا؟

جوتابادشاہ کے کان کے قریب جالگا،بادشاہ نے بالکل برا نہ منایا،تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جوتا مارنے والے شخص کو اپنے پاس بلا کر شاباش دی اور ہجوم سے مخاطب ہوا ’’کہ ایک باضمیر شخص باہر نکلاجس نے مسائل کی طرف توجہ دلائی،ورنہ عوام چپ سادھے جوتے کھانے کی عادی ہوچکی تھی،اس شخص نے جوتا مجھے نہیں پورے ملک کو دے مارا جو میری حکومت کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے والے تھے، میں اس شخص کا شکرگزار ہوں جس نے ملک کے مسائل کی جانب توجہ دلائی‘‘۔

بادشاہ کا جواب سن کر وہ شخص بھی شرمسار ہوگیا،اس نے گستاخی کی معافی مانگی اور کہا ’’میں نے جوتا آپ کی تذلیل کے لیے نہیں مارا،ظلم ،بربریت اور ناانصافی جو آپ کی حکومت نے رعایا سے روا رکھی ہے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا‘‘۔

بعینہ27فروری 2018ء سے ایک باضمیر شخص جسے کوئی خبطی کہتا ہے،کوئی ویلا کہتا ہے،اسے کوئی کام نہیں،کوئی اسے ڈرامے باز کہتا ہے،سیزن لگانے والا کہتا ہے،عام آدمی کے حقوق کے لیے علم اٹھائے بھمبر سے مظفر آباد کی جانب تین گدھے اور اونٹ لیے ایک مارچ کررہا ہے،یہ کہتا ہے انسانوں کی تلاش میں نکلا ہوں،سوشل میڈیا پر اس بادشاہ کی طرح اس کا بھی ٹرینڈ بنا ہوا تھا،اس کے مارچ کی سوشل میڈیا میں دھوم مچی دیکھ کر ملاقات کا اشتیاق ہوا،سرِراہ اس سے ملاقات ہوئی،ایک اونٹ پر 34مطالبات کا ایک بڑا بینر لٹکائے یہ شخص ایک کھلا جوتا لیے خطہ بھر کے عوام کو کوس رہا ہے،انسانوں کے لیے گدھے اور اونٹ مارچ کررہے ہیں،میرے استفسار پر اس نے بتایا ایک سال پہلے بھی وہ ایسا مارچ کرچکا ہے،حکومت وقت نے چار چھے ماہ کا وقت مانگا تھاایک سال دے دیا،لیکن ارباب اختیار جاگ نہ سکے ،وہ اس مارچ کی سالگرہ منانے اور حکمران طبقے کو یاد دلانے کے لیے نکلا ہے،اس کے مارچ کا ایجنڈا کیاہے ؟ اس کے پس پردہ کون ہے؟فنڈنگ کون کرتا ہے؟ درجنوں سوالات پوچھنے پر اس نے ساری گردان سنانے کے بجائے اونٹ پر لٹکے بینر کی طرف اشارہ کردیا۔

پینا فلیکس پر لوڈ شیڈنگ،کنٹرول لائن کے عوام سے مذاق،مہنگی بجلی،سڑکیں کھنڈرات،پینے کا صاف پانی ،میرٹ کی پامالی،متاثرین ،آزادی اظہار رائے سے مذاق ،لوڈشیڈنگ،سی پیک منصوبے کی غیر منصفانہ تقسیم،مہنگی بجلی،کھنڈرات سڑکیں،گندہ پانی،بغیر چھت چاردیواری واش روم سکول،مہنگی تعلیم،ظالمانہ ہسپتال فیس،ظالمانہ روز ایکسی ڈنٹ پالیسی،جنگلات منگلا کی تباہی،غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون،بے گھروں سے مذاق،بلدیاتی الیکشن میں بار بار تاخیر،طلبہ یونین کی بحالی میں تاخیر،جمہوریت کے نام پر عوام سے مذاق،احتساب کے نام پر مذاق،ہندوستانی فوج روشنی میں ہماری فوج اندھیرے میں،پولیس ملازم چوبیس گھنٹے ڈیوٹی،بغیر کام عوام پر بوجھ محکمہ جات،طلبہ وطالبات کے لیے کم بسیں،نامکمل سٹیڈیم ،دریائے پونچھ کو نیشنل پارک بنا کر مذاق،غیر معیاری رنگ برنگا نصاب،غریب عوام سے زکوۃ کے نام پر مذاق،آفات سماوی کے متاثرین سے مذاق،رائج الوقت قانون سے مذاق،کشمیر کونسل کے ذریعے کشمیریوں سے مذاق،تاریخ کشمیر سے مذاق،ریاستی ثقافت سمیت تین درجن کے قریب مطالبات آویزاں تھے،اس نے کہا کہ وہ قرض لے کر احتجاج کرتا ہے،ایجنڈا ریاست کے لاچار اور بے بس چہرے ہیں جنکی خوشی دیکھنے کا متمنی ہے۔

میں نے پھر استفسار کیا کیا حکومت وقت نے کوئی مذاکرات کی کوشش کی تو اس شخص نے بتایا کہ حکومت آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے پہلے دس مطالبات پر اتفاق کیا،گیارہویں مطالبے آزادی رائے سے مذاق پر آکے بے بس ہوگئے اور گویا ہوئے میں اس پر بے بس ہوں کل دوبارہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھیں گے،انتظامیہ نے دوسرے دن بھی وہیں جبی بھمبر کے مقام پر روکے رکھا اور بلی چوہے کا کھیل کھیلتے رہے،اگلے روز میں نے احتجاجی مارچ کا تسلسل کردیا۔

میں نے اگلے لائحہ عمل سے متعلق سوال کیا تو یہ باضمیر شخص بولا کہ وہ عوامی حقوق کے لیے انسانوں کی تلاش کا سفر جاری رکھے
گا،مظفر آباد اسمبلی کے سامنے ان جانوروں کے ہمراہ پہنچ کر ڈیرہ لگائے گا، وہاں غیر معینہ مدت کر بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے گا،جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے جدوجہد جاری رکھے گا۔

میں اس شخص کا عزم اور حوصلہ دیکھ کر حیران ہوں جو بھمبر،کوٹلی اور میرپور کا سفر طے کرچکا،لیکن بے ضمیر انسان زندہ لاشیں خاموش کیوں ہیں ؟ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ اس کے مارچ میں شریک ہوکر اس کے ساتھ چلتے،مظفر آباد تک جاتے،فیس بک پر کچھ رونا روتے ہیں،کچھ پڑھے لکھے بھکاری میرٹ کا رونا روتے ہیں،کچھ سیاسی بے ایمانیوں کا ڈھول پیٹتے ہیں،کچھ کہتے ہیں ریٹائرڈ چیدف جسٹس کے نیچے ایک پبلک سروس کمیشن بے ایمان نکلا،جس نے ملک میں اسسٹنٹ کمشنر اور سیکشن آفیسر کی تعیناتیاں پسند وناپسند کی بنیاد پر کیں،یہ اخبارات اور ٹی وی کے دفاتر کے چکر بھی لگا رہے ہیں ،یہ عدالتوں کے دھکے بھی کھارہے ہیں،انھوں نے صد رآزادکشمیر کے پاس ایک ریفرنس بھی دائر کررکھا ہے جس کا تاحال جواب صدر مملکت آزادکشمیر سردار مسعود خان دینے سے قاصر ہیں،وجہ کیا ہے،ایک الگ کالم میں ذکر خیر تفصیل سے کروں گا؟

جوتے کھانے کو سب تیار ہیں ، جوتے مارنے والی کابینہ کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ تو کر رہے ہیں لیکن مسائل پر بولنے،چلنے اور لکھنے کو تیار نہیں۔

یہ شخص انوکھے احتجاجوں میں معروف ہے،اس شخص کا نام محمود احمد مسافر جو کوٹلی آزادکشمیر کا شہری ہے،محمود مسافر دم تحریرچہڑھ راولاکوٹ میں ہے، پبلک سروس کمیشن کے ستائے نوجوانوں سے گزارش ہے تمھاری بھی کوئی سننے والا نہیں چلو نکلو باہر محمود کے قافلے میں ایک گدھے اس پر ’’ ظالمانہ پبلک سروس کمیشن نامنظور‘‘ لکھوا کر مارچ میں ہانکتے مظفر آباد چلو۔شاید کسی کو خیال آجائے ،

میری اس باضمیر شخص محمود سے گزارش ہے اونٹ کو واپس کردو‘کھوتے ذبح کر سرعام پاؤ پاؤ کھوتے کا گوشت بے ضمیر عوام میں تقسیم کرو، گدھوں کی کھال چینیوں کو بھجوا دو اور ایک ہی ماتم کرو کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دی جائے،کوئی تمھارے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ، کوئی لکھنے اور بولنے کو تیار نہیں، ریاست میں ایک تم ہی باضمیر رہ گئے ہو،باقی 49لاکھ نوہزار نو سوننانونے بے ضمیر انسانی روپ دھارے جن کا نام ہے عوام ،اس عوام کو جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ چاہیے مسائل کا حل نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے