آئی ایم ناٹ ملالہ

یہ سوال میں نے اپنے دوستوں کی ایک مجلس میں رکھا جب انہیں میرے ملالہ پر لکھے گئے ایک مضمون پر شدید اختلاف تھا جو ملالہ پر حملے کے اگلے روز جنگ اور اردو پوائنٹ پر شائع ہوا۔ اس مضمون میں کوئی خاص بات تو نہیں تھی بس ملالہ سے اظہار یکجہتی کیا گیا تھا تاہم انہیں میری "مغرب نوازی” سے شدید اختلاف تھا ۔

ان کا شور تھما تو ایک سوال پوچھا کہ آپ بتائیں کہ آپ کو ملالہ سے مسئلہ کیا ہے ؟

فرمانے لگے ، اس نے کونسا کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ تم نے اسے ہیرو قرار دیا ۔ میں نے کہا کہ جب ملا فضل اللہ نے سوات میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی تھی ،اس وقت ملالہ نے نہ صرف ملا فضل اللہ کو للکارا بلکہ اس نے اپنی سہیلیوں کے ہمراہ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کا عزم کیا ۔

فرمانے لگے ، یہ کیا بات ہوئی ، میں آپ کو ایسی بیسیوں کہانیاں سنا سکتا ہوں جہاں والدین اپنی لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلانا چاہتے تھے لیکن لڑکیوں نے ان سے لڑ جھگڑ کر تعلیم حاصل کی ۔ میں نے کہا درست ہے ، میں خود بھی ایسے بے شمار واقعات کے بارے میں آگاہ ہوں اور ان کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں تاہم ملالہ میں اور ان میں ایک فرق ہے ، ملالہ نے اس وقت تعلیم جاری رکھنے کا اعلان کیا جب سوات میں لوگ ملا فضل اللہ کے اس نکتہ نظر سے بڑی حد تک متفق ہو چکے تھے کہ حدیث میں آیا ہے کہ لڑکیوں کو حساب کتاب کا علم نہ سکھاؤ .

[pullquote]کالم سننے کے لیے اس لنک پرت کلک کیجئے یا یو ٹیوب پر IBC TV PAKISTAN پر سماعت فرمائیں .[/pullquote]

دوسری بات یہ ہے کہ ملالہ نے اس وقت آواز بلند کی جب لوگ خوف کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کو اسکولوں میں نہیں بھجواتے تھے کہ طالبان اسکولوں کو بم دھماکوں سے اڑا رہے تھے ۔ طالبان نے ایک ڈیڈ لائن دی تھی کہ اس کے بعد کوئی اپنی لڑکیوں کو اسکول نہیں بھجوائے گا لیکن ملالہ اپنی سہلیوں کے ساتھ اسکول یونیفارم کے بجائے گھریلو لباس میں اسکول جاتی تھی ۔ ملالہ اپنی تعلیم کے لیے نہیں ، تعلیم کے خلاف اس سوچ اور نظریے کے خلاف لڑ رہی تھی جو جبہ و دستار میں ملبوس لوگ معاشرے میں پھیلا رہے تھے ۔ ملالہ خوف اور جبر کے خلاف اپنی ننھی سی جان لیکر کھڑی ہو گئی تھی ۔ مجھے آج بھی اس کی آواز سنائی دیتی ہے جب وہ کہہ رہی تھی کہ میں پڑھوں گی اور پڑھوں گی ۔

فرمانے لگے ، ملالہ نہ ہوئی بے نظیر بھٹو ہو گئی (اگرچہ بے نظیر بھی ان سے یوں ہی منوائی گئی تھی ، ورنہ ان کے نزدیک وہ بھی غدار اور اسلام کی مخالف تھی)

یہ گفتگو اتنی آسانی سے نہیں ہوئی جتنی آسانی سے آپ نے پڑھ لی ۔ "علم ” کا شور اتنا زیادہ تھا کہ گفتگو کرنا مشکل تھا اور میرے لیے مشکل ترین کام یہ ہے کہ شور میں گفتگو کیسے کی جائے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے کہ بات کہی نہیں جاتی اور بات سنی بھی نہیں جاتی ۔

پھر آخری حملے کے طور پر فرمانے لگے کہ ملالہ کی ڈائری کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟ میں کہا کہ بالکل ملالہ کے خیالات ہیں ، فرمانے لگے آفرین ہے تمھاری سوچ اور معلومات پر ، کیا اتنی چھوٹی سی بچی ایسی باتیں لکھ سکتی ہے ؟ میں نے کہا بالکل اور مثال کے طور پر انہیں ان کی بیٹی اور اپنی بھتیجی کی مثالیں دیں کہ کیسے وہ گھر لوٹ کر اپنی اسکول کی کارکردگی کو بیان کرتی ہیں ۔

ان سے گزارش کی کہ اپنے والدین سے جا کر معلوم کیجئے کہ آپ اور آپ کی اہلیہ بچپن میں ایسے ہی تھے جیسے آپ کی بیٹی ہے ؟ بچے تیز ہو گئے ہیں اور جو چیزیں آپ کی سوچ اور وہم و گمان میں بھی نہیں تھی آج آپ کے بچے ان کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ حیران بچے نہیں ہو رہے ، حیران آپ کے والدین ہو رہے ہیں کہ جن چیزوں کی وہ الف ب بھی نہیں جانتے ، ان کے بچے وہ چیزیں استعمال بھی کر رہے ہیں اور دادا نانا کو سکھا بھی رہے ہیں ۔ بات یہ ہے ہم عورت کے ساتھ متعصبانہ رویے کی وجہ سے اپنے دائیں بائیں غور نہیں کرتے ۔

واعظین مقدس جنگ کے میدان سے ہمیں دو ننھے بھائیوں کا مکالمہ سنا کر ہمارے جذبہ جہاد کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی آپ اپنے موبائل سے مجھے ایک ننھے بچے کی طالبان کی شان میں پڑھی گئی نظم سنا کر داد طلب کرنا چاہتے تھے ۔ ایک اور مسلک کے مولوی صاحب اپنے مسلک کے ایک ننھے بچے کی پوری مجلس سنا کر اپنے مسلک کی حقانیت کا ڈنکا بجوانا چاہتے تھے ۔ آپ اپنی جماعت کے ایک مقتول سربراہ کے ننھے بیٹے کی مجھے تقریر سنا کر متاثر کرنا چاہتے تھے ۔

اگر یہ سب کہانیاں اسی دور کی ہیں اور یہ سب ملالہ سے بہت چھوٹے ہو کر بھی "منطقی انداز” میں گفتگو کر رہے ہیں تو ملالہ کیوں نہیں لکھ سکتی ۔ میں نے انہیں اسلام آباد کی ننھی شاعرہ طوبی سحاب اور فیصل آباد کی ارفع کریم کے بارے میں بتایا کہ یہ بھی کم عمر لڑکیاں ہیں لیکن اپنے بڑے کام کے ذریعے انہوں نے لوگوں کو حیران کر دیا ۔

انہیں پھر بھی اطمینان نہ ہوا تو فرمانے لگے آپ مغرب زدہ لوگوں کو صرف ملالہ ہی کیوں دکھائی دیتی ہے ، یہ سب کچھ کرتی باقی لڑکیاں کیوں نہیں دکھائی دیتیں تو میں نے بھی جوابی سوال داغ دیا کہ آپ کو بھی صرف ملالہ ہی کیوں دکھائی دیتی ہے ۔ صرف ملالہ کی ہی مخالفت کیوں کی جاتی ہے ۔ طالبان صرف ملالہ پر ہی حملہ کیوں کرتے ہیں ۔ آخر ملالہ کہیں تو کھٹکتی ہے ۔

خیر وہ لکھنے والے ہیں ، لکھتے رہے ، ہماری رائے کے خلاف بھی لکھا لیکن ہماری بات چیت بھی چلتی رہی ۔ آج وہ ملالہ کی حمایت کررہے ہیں تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ انسان بدلتا رہتا ہے لیکن یہ بدلاؤ ضرورت ، احتجاج یا مفادات کے بجائے اندر کی آواز ہو تو زیادہ بہتر ہوتا ہے ورنہ دل اور دماغ کا تصادم انسان کو نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے ۔

آج ملالہ پانچ سال بعد وطن لوٹی تو پھرسے شور شروع ہو گیا . ان لوگوں کو مسئلہ ملالہ سے نہیں ، اس علامت سے ہے جو ملالہ نے اس معاشرے میں قائم کر دی ہے ۔ ملالہ طالبان کے حملے سے نہیں مری تو اب کبھی نہیں مری گے۔ ملالہ ایک لڑکی نہیں ، قبائلی ذہنیت ، شدت پسندانہ سوچ اور مردانہ تعصب کے خلاف ایک علامت ہے اور اس علامت کے سامنے آتے ہی چہروں سے نقاب الٹ جاتے ہیں ۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر طالبانائزیشن نے اتنی جڑیں گاڑ لی ہیں کہ ہمیں سب قبول ہیں لیکن انتہا پسندانہ سوچ کے خلاف کھڑے ہونے والی کوئی سوچ ہمیں اچھی نہیں لگتی ۔

ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ ہم گروہوں میں سوچتے ہیں ۔ ہم پڑھنے والوں کی خواہش کے احترام میں لکھتے ہیں ۔ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ زندگی کا سفر اکیلے کیسے کٹے گا ۔ ہمیں خوف آتا ہے کہ ہم اپنے پورے علاقے سے جدا ہو جائیں گے ۔ ہم فکر مند رہتے ہیں کہ ہمارا حلقہ ، ہمارے احباب ، ہمارا مسلک و مکتب فکر سب ہم سے روٹھ جائیں گے ۔ ہم ساری عمر ٹامک ٹوئیاں مارنے میں گذار دیں گے لیکن کبھی زمینی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے بات چیت کے لیے پر امن ماحول کے قیام کے لیے کوشش نہیں کریں گے ۔

ہم زعم دانشوری میں جیتے ہیں ، تالیوں کی گونج میں سفر کر تے ہیں ، شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خود میں ایک بڑی شخصیت بر آمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہم اپنے گھر میں کئی کتابیں خرید الماری کو سجاتے ہیں لیکن انہیں پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ پڑھ لیں تو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ تنقیدی شعور نہ ہونے کی وجہ سے ہم کچھ پڑھ لیں تو اسی کے گرویدہ اور اسیر ہو جاتے ہیں ۔

ہمیں کچھ نہ ملے تو ہم آئی فون سے فوٹو ایڈیٹنگ والی ایپس ڈاؤن لوڈ کر کے اپنی ناک کھینچ کر کے اپنی ذات میں سے باچا خان بابا نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی اپنی تصویر پر سرخ ٹوپی فٹ کر کے چی گویرا بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کبھی ہم رنگ برنگی عمامے پہن کر اپنے لیڈروں کی نقالی کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ہم اس گروپ کی تلاش میں رہتے ہیں جو ہمیں بڑی سوسائٹی میں "ان ” کر دے اور اس مقصد کے لیے ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو کوئی دوسرا کرے تو ہمارے خطبے اور وعظ سن کر ہوا میں اڑتے پرندے کی حرکت قلب بند ہو جائے ۔

کل ملالہ پر اعتراض کرنے والے آج اپنے کل پر پشیمان دکھائی دیتے ہیں لیکن اصل بات سوچنا ہے ۔ علم کسی تعصب کے بغیر سوچنے کا سفر ہے ۔ کتاب سے معلومات ملتی ہیں جبکہ علم رویے کی تشکیل کا نام ہے ۔ علم کے سفر میں تھک کر بیٹھنا اور ناکہ لگا دینا نہیں ہوتا بلکہ جب تھک جائیں دوسرے کو ہاتھ دیکر اسے دوڑانے کا نام ہوتا ہے ۔

ہم بونوں کے معاشرے میں جیتے ہیں اور بونوں میں کوئی بڑا ہو جائے تو سب اس کا مذاق اڑاتے ہیں ،نئی سوچ پر سب حملہ آور ہو جاتے ہیں . یہ دوسرے کو چھوٹا کر کے خود بڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے معاشروں میں بڑے لوگ پیدا نہیں ہوتے، شاہ دولے کے چوہے یہاں راج کرتے ہیں. ان کی عقلی سطح اتنی ہی بلند ہو سکتی تھی کہ کیا چن چڑھایا ، دن منایا تو اس کا نام رکھا ” آئی ایم ناٹ ملالہ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے