شوپنہار اور نظریاتی بیانیہ

انیسویں صدی کے جرمن فلسفی شوپنہار کی ایک عجیب عادت تھی۔ وہ عام طور پر انگریزی طعام خانوں میں کھانا کھاتا تھا۔ اس دوران وہ جیب سے سونے کا ایک سکہ نکال کر میز پر رکھ لیتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد یہ سکہ اٹھا کر واپس اپنی جیب میں رکھ لیتا۔ ایک روز کسی دوست نے پوچھ لیا کہ ہر روز یہ سکہ میز پر رکھنے اور پھر اسے واپس اٹھانے کی وجہ کیا ہے؟ شوپنہار نے اپنے مخصوص جلے کٹے لہجے میں جواب دیا کہ میں نے خود سے عہد کر رکھا ہے کہ جس روز کھانے کی میز پر کسی انگریز کو گھوڑوں، کتوں اور عورتوں کے سوا کسی اور موضوع پر بات کرتے سنوں گا، یہ سکہ کسی بھکاری کو خیرات کر دوں گا۔ میری یہ شرط کبھی پوری نہیں ہوئی۔ انگریزوں کو ان تین موضوعات کے سوا کسی اور معاملے میں دلچسپی ہی نہیں۔ خیر شوپنہار کی سنک تو ضرب المثل ہے۔ لیکن اس درویش کا تجربہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ حسرت ہی رہی کہ کبھی کوئی سیاستدان مقامی پٹواری، ذات پات اور فارم ہاؤس کی بجائے قانون سازی کے مسائل پر بات کرے۔

کوئی ادیب دوسرے لکھنے والوں کی ذاتی کمزوریاں بیان کرنے کی بجائے اردو نثر کے در و بست پر لب کشائی کرے۔ کوئی تاجر دوسری شادی کی اہمیت یا نفل عبادات کی بجائے ٹیکس کے رموز بیان کرے۔ کوئی عسکری دوست کرسک کے میدانوں میں ٹینکوں کی لڑائی کے نکات کھولے، شمالی افریقہ میں صحرائی جنگ کی باریکیاں بیان کرے۔ ویتنام کی لڑائی میں سپلائی لائن کی اہمیت پر روشنی ڈالے مگر، واللہ، یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہوئی۔ میری عمر کے فوجی افسر جو اب ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ رہے ہیں، انہیں اہل سیاست کی نااہلی اور ہاؤسنگ اسکیموں کے بیان سے فرصت ملے تو ہم ایسے خاک نشینوں کو ملٹری سائنس پر بصیرت بخشیں۔ سونے کا سکہ تو خیر ہم نے دیکھا ہی نہیں، کبھی کھوٹی اٹھنی دان کرنے کی نوبت بھی نہیں آئی۔

اس برس 23 مارچ پر لاہور کی ایک متمول بستی میں ایک سابق اعلیٰ سرکاری افسر کے ارشادات سے استفادے کا موقع ملا۔ خان صاحب بہت نستعلیق ہیں، دنیا دیکھ رکھی ہے۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ "مجھے جمہوریت کے لفظ سے گھن آتی ہے کیونکہ 1970ء میں پہلے ہی انتخابات کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا”۔ درویش نے مارے خجالت کے سر جھکا لیا۔ بے اختیار استاذی نذیر ناجی کا پڑھایا ہوا سبق یاد آیا۔ ’پاکستان جمہوریت کی وجہ سے نہیں ٹوٹا، جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹا۔‘ حیرت ہے کہ اسلام آباد سے لے کر اقوام متحدہ تک پاکستان کی نمائندگی کرنے والے محترم مقرر کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ 1970ء کے انتخابات کے بعد انتقال اقتدار میں بنیادی رکاوٹ جنرل یحییٰ خان کی یہ خواہش تھی کہ انہیں بدستور صدارت کے منصب پر فائز رکھا جائے۔

آئین کے مطابق عام انتخابات میں چند ماہ باقی ہیں۔ مستحکم جمہوریت کا نشان یہی ہے کہ انتخابات اور انتقال اقتدار کے دستورالعمل میں کسی کو شک نہیں ہوتا۔ ادھر ہمارا چلن کچھ ایسا ہے کہ کوئی ایک انتخاب ایسا نہیں جو معمول کے حالات میں منعقد ہوا ہو اور اقتدار کی امانت رائے دہندگان کی منشا کے مطابق منتقل کر دی گئی ہو۔ آج کل بھی ایک ہنگامہ برپا ہے۔ عدلیہ غیر معمولی طور پر فعال ہو چکی ہے۔ یہ بہت اچھا شگون ہے لیکن اس دوران محترم منصف حضرات کی ترجیحات بالخصوص لب و لہجے میں صیغہ واحد متکلم کے بے دریغ استعمال پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ آرمی چیف نے چنیدہ صحافیوں کے ساتھ ایک طویل ملاقات کی ہے جس میں مبینہ طور پر ایک ڈاکٹرائن بیان کیا گیا ہے۔ اس پر شور و غل ہوا تو حکم دیا گیا کہ اس ڈاکٹرائن کو خالص عسکری تناظر میں دیکھا جائے۔ بہت بہتر جناب۔ مگر اس گفتگو میں جو موضوعات چھیڑے گئے، کیا انہیں موثر بہ ماضی طور پر حذف کر دیا جائے۔ سینٹ کے انتخابات کے دوران جو دھول اڑائی گئی ہے، اسے ہرگز شفاف نہیں کہا جا سکتا۔ ادھر ایک مجادلہ نظریاتی بیانیے اور اداروں میں افہام و تفہیم کے حوالے سے جاری ہے۔ حرفوں سے بنے ہوئے قلمی پتلے شاطر کے اشارے پر نظریے، اصول اور بیانیے کے مہرے آگے پیچھے کر رہے ہیں۔ اس کا کچھ پس منظر بیان ہو جائے۔

تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان کو متحدہ ہندوستان کے مالی وسائل سے کل سترہ فیصد حصہ ملا تھا لیکن پاکستان کے حصے میں برٹش انڈیا کی فوج کا 33 فیصد حصہ آیا۔ انگریز سے آزادی کی جدوجہد میں ہندوستانی فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ 40 کروڑ کی آبادی پر صرف 30000انگریز نفری کا اقتدار ہندوستانی فوج کی وفاداری پر قائم تھا۔ پاکستان جن علاقوں میں قائم ہوا وہ سیاسی اور سماجی طور پر پسماندہ تھے۔ نئے ملک میں ناگزیر طور پر ریاستی اداروں بالخصوص فوج کو بالادست حیثیت حاصل تھی۔ پاکستان کے پہلے تیس برس میں 1963ء اور 1976ء کے دو برس چھوڑ کر وفاقی بجٹ میں دفاع کا حصہ کبھی ساٹھ فیصد سے کم نہیں رہا۔ اس دوران براہ راست فوجی اقتدار کے ادوار میں سیاسی ارتقا کو شدید نقصان پہنچا۔

1980 کے لگ بھگ بیرونی قرضوں کی واپسی شروع ہوئی تو پہلی مرتبہ وسائل کی تقسیم میں بنیادی تبدیلی آئی۔ 1973ء میں پارلیمانی دستور منظور کرتے ہوئے وفاقی اکائیوں سے صوبائی خود مختاری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ وعدہ 37 برس بعد جزوی طور پر 2010ء کی اٹھارہویںترمیم میں مکمل ہو سکا۔ اس کے بعد وسائل کی تقسیم کا تناسب 57:43 سے بدل کر 43:57 کیا گیا۔ 1985ء اور 2003 میں فوجی آمریتوں کے دوران آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم میں آئین کو پارلیمانی کی بجائے صدارتی خدوخال بخشے گئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں منتخب اور غیر منتخب قوتوں کے درمیان کشمکش کی اصل نوعیت کیا ہے۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم وفاق پاکستان کی سلامتی کی ضمانت ہے۔ یہ صوبوں یا سیاست دانوں کی نااہلی یا بدعنوانی کا سوال نہیں جسے کسی ڈاکٹرائن کی مدد سے حل کیا جا سکے۔ ڈاکٹرائن تو عسکری شعبے کا اختیار ہے۔ وفادار شہری ان معاملات پر بات نہیں کیا کرتے ورنہ سوال کیا جاتا کہ 11 ستمبر 1965 کی صبح کونسا ڈاکٹرائن ناکام ہونے پر فیلڈ مارشل ایوب خان پریس کانفرنس نہیں کر سکے تھے۔ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کرنے کا ڈاکٹرائن کیوں ناکام ہوا۔ بے نظیر بھٹو جنرل حمید گل کو فاتح جلال آباد کیوں کہتی تھیں۔ کارگل آپریشن کی منصوبہ بندی میں سپلائی لائن کو نظر انداز کیوں کیا گیا۔

عسکری ڈاکٹرائن مرتب کرنا ہمارے عسکری رہنماؤں کا کام ہے اور انہیں یہ فرض بہ احسن ادا کرنا چاہیے۔ قوم کا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نصب العین طے کرنا سیاسی قیادت کا استحقاق ہے۔ یہ نااہلی، بدعنوانی اور انصاف کے سوالات نہیں ہیں، یہ پاکستانی عوام کے حق حکمرانی کا سوال ہے۔ اگر قوم کا ہر فرد اپنی آنکھوں کے سامنے عالمی تنہائی، معاشی بحران اور سیاسی غیریقینی دیکھ رہا ہے تو اداروں کے ترجمان اپنے مختصر تردیدی بیانات سے صورت حال پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ ہمیں ایک وسیع تر قومی مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ قوم کو ممکنہ بحران سے نکالا جا سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے