تھوڑی ملائی ہو گی؟

ٹینٹ اتنا بڑا تھا کہ راہ چلتے لوگ دھوپ سے بچنے کے لئے‘ اس کے نیچے پناہ لے سکتے تھے۔ جیسے جیسے لوگوں کو پتا چلا کہ ایک شاندار ٹینٹ کا گہرا سایہ‘ خوبصورت جگہ پر دستیاب ہے‘ شربت کے گلاس فراوانی سے پیش کئے جا رہے ہیں۔ لیکن سرگودھا کے شہری پھر بھی احسان مند نہیں ہوئے۔ ٹینٹ کے نیچے رکھی کرسیوں کا ایک چوتھائی حصہ خالی تھا۔ نوے روز کے وزیراعظم‘ دھڑا دھڑ گزشتہ پانچ سال میں ہونے والی ترقی کے احسان جتا رہے تھے۔ وزیراعظم اتنے اطمینان سے کھڑے تھے جیسے سامنے بیٹھے ہوئے چھ درجن افراد براہ راست ان کے احسان مند ہوں۔ سرگودھا کے شہریوں کو پہلی مرتبہ پتا چلا کہ ان کے محبوب وزیراعظم کے اقتدار میں آنے سے پہلے‘ پاکستان میں نہ کہیں بجلی تھی، نہ کہیں پانی تھا، نہ سڑکیں تھیں، نہ انصاف تھا، کھانے کو روٹی نہیں ملتی تھی۔ روٹی ملتی تھی تو نمک میں بھگو بھگو کے کھائی جا رہی تھی۔ حکومتیں اپنی جیبیں بھر کے چلی جاتی تھیں۔

خدا کا شکر ہے کہ ہماری پارٹی جیبیں بھر کے کہیں نہیں گئی۔ چیئرمین سینیٹ بغیر ووٹوں کے بنے ہیں۔ اسلام آباد واپس جاتے ہی خادم سے کہہ کر چیئرمین کی کرسی وہاں سے اٹھوا دیں گے۔ جو لوگ پیسے دے کر سینیٹر بنے ہیں‘ ان لوگوں کو گھر بھیجنے کی ضرورت ہے۔ جن کے پاس گھر پہنچنے کے لئے سواری نہیں‘ مسلم لیگ (ن) ان کے لئے ٹرک‘ ڈالہ‘ ٹریکٹر‘ رکشہ اور سائیکل کا بندوبست کر دے گی‘ ورنہ بس کا کرایہ دیدیا جائے گا۔ ہمیں نیب کی عدالت سے انصاف کی کوئی توقع نہیں۔ آپ پاکستان میں کہیں بھی جائیں‘ ہر طرف نواز شریف نظر آئیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ (ن) لیگ خلوص سے کام کرتی ہے۔ اس کے کارکن جہاں پانی دیکھتے ہیں‘ اس میں نمک گھول دیتے ہیں۔ کراچی نے ستر سال کی زندگی میں سڑکوں پر کبھی اتنا کوڑا نہیں دیکھا‘ جتنا (ن) لیگ کے زمانے میں ہوا۔ آنے والے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد‘ ہم سب سے پہلے لاہور اور اسلام آباد کی سڑکیں کوڑے سے بھر دیں گے۔ ہماری پارٹی کی خارجہ پالیسی کے نتیجے میں پاکستانی عوام کو آسودگی اور خوشحالی کا جو وقت دیکھنے کے لئے ملا‘ پچھلے پانچ ہزار سال میں‘ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

پاکستان کے دو ہی چیف ایگزیکٹو‘ امریکہ کے ”خصوصی‘‘ دورے پر گئے۔ ہمارے وزیراعظم نے امریکہ اور سرگودھا میں (ن) لیگ کے ڈنکے بجائے۔ جب موجودہ وزیراعظم امریکہ گئے توکسی کو پتا نہیں تھا کہ وہ کس شہر کے کون سے ہوائی اڈے پر اتریں گے؟ امریکہ میں مقیم پاکستانی مرد و زن‘ ا پنے محبوب لیڈر کے استقبال کیلئے نیویارک پہنچے مگر ان کی سخت دل شکنی ہوئی۔ امریکہ کی مقامی آبادی‘ وزیراعظم کے استقبال کی خاطر‘ لمبا فاصلے طے کر کے نیویارک پہنچی مگر اسے شدید مایوسی ہوئی۔ حد یہ ہے کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی بھاگم بھاگ نیویارک آئے لیکن وہاں جا کر افسوس ہوا کہ انہوں نے اپنی دیہاڑی ہی خراب کر لی۔ ہمارے وزیراعظم کے استقبال کیلئے آنے والے زیادہ تر افریقی تھے‘ جو بال بچوں سمیت ایئر پورٹ پہنچے۔

دو گھنٹے کے طویل اور ”سیاہ فام‘‘ انتظار کے بعد‘ ہمارے وزیراعظم کے دیدار سے محروم افریقی‘ اپنے اپنے گائوں اور قصبوں کی طرف واپس چلے گئے۔ عام طور پر جب کوئی بیرونی حکمران‘ امریکہ کے دورے پر جاتا ہے تو میڈیا‘ حکومت اور آنے والے مہمان کے امریکہ میں آباد ہم وطن‘ بڑے جوش و خروش کے ساتھ استقبال کے لئے جاتے ہیں۔ نیویارک میں مقیم پاکستانی صحافی دیارِ غیر میں بہت اداس رہتے ہیں‘ جب تک اجنبی ہم وطن‘ قریب آکر گلے لگاتے ہوئے‘ اس کی جیب میں کوئی” لفافہ‘‘ نہ ڈالے توساری محنت اکارت جاتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں‘جو پاکستانی لیڈر کی پروٹوکول کی گاڑی میں تیزی سے بیٹھ کر نکل جاتے ہیں۔ ”لفافے‘‘ کے خلاف نعرے بلند کرتے ہیں۔ ان کے نعرے سن کر جو دوسرے پاکستانی وہاں آئے ہوتے ہیں‘ وہ بھی دیکھا دیکھی”گلی گلی میں شور ہے‘‘ کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم جو وطن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے سامنے بھیگی بلی کی طرح سہمے رہتے ہیں‘ جب امریکہ کے کسی بڑے عہدیدار سے ملاقات کرتے ہیں تو دیکھنے والے مایوسی کی حالت میں‘ جس کسی کو جو پاکستانی نعرہ یاد آیا‘ امریکیوں کی طرح لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کا ”دورۂ امریکہ‘‘ اس لحاظ سے بہت کامیاب رہا کہ میزبان حکومت نے نہ تو انہیں ہوائی اڈے پر پریشان کیا اور نہ ہی وائٹ ہائوس جاتی ہوئی کار کا‘ کسی نے تعاقب کیا۔ حد یہ ہے کہ جب معزز مہمان‘ اپنے میزبان کے محل میں پہنچے تو معمول کی گشت کرنے والے پہرے دار‘ بھی بھاگتے ہوئے‘ ادھر ادھر کے کمروں میں گھس گئے۔ عام طور پر جب کسی غیر ملکی مہمان کا سرکاری طور پر استقبال کیا جاتا ہے تو اس کے خیر مقدم کا خاص اہتمام نہیں کیا جاتا۔

میزبان حکومت کے قومی پرچم بڑے جوش و خروش سے لہرائے جاتے ہیں ۔ امریکی صدرکا ذاتی معاون‘ مہمان کو ساتھ لے کر‘چھوٹے سے مذاکراتی کمرے میں داخل ہوتا ہے تو فوراً ہی دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ دیوار کے ساتھ لگی ایک منجھلی سی میز کے ساتھ دو کرسیاں رکھ کر‘ عزت مآب مہمان سے تشریف ” فرمانے‘‘ کی درخواست کی گئی یا حکم دیا گیا۔ میزبان نے کرسی پر بیٹھ کر اپنی جیب سے ایک آٹو گراف بک نکالی۔ مہمان کے لئے چائے کا کپ بناتے ہوئے میزبان نے اشارے سے پوچھا ”کیسی چائے بنائوں؟‘‘ ہمارے وزیراعظم نے جواب دیا ” فور ٹی سپون شوگر اور تھوڑی سی ملائی‘‘۔

ہمارے وزیراعظم‘ پاکستان سے رخصت ہوتے وقت بڑی احتیاط سے کام لے رہے تھے۔ دراصل ان کی ہمشیرہ محترمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اس لئے انہیں وائٹ ہائوس کے پروٹوکول سٹاف میں سے‘ ایک شخص ریسیوکرنے آیا۔ گاڑی تک وہی لے گیا۔ لیکن جب میزبان کے محل تک پہنچے تو شوفر تیزی سے گاڑی کو اندر لے گیا۔ ہمارے وزیراعظم بہت پریشان ہوئے کہ یہاں تو میرا کوئی جاننے والا بھی نہیں۔ ”میں کدھر جائوں؟ کیسے جائوں؟‘‘ ان کی پریشانی زیادہ دیر نہ رہ سکی۔ گاڑی ایک کمرے کے پاس جا کر رکی۔ ڈرائیور نے بھاگتے ہوئے دروازہ کھولا۔ محل کے اندر سے ایک پروٹوکول آفیسر نے قریب آکر مصافحہ کیا اور انہیں مذاکراتی کمرے میں لے گیا۔ ملاقات میں جو گپ شپ ہونا تھی‘ ہوتی رہی۔

ہمارے وزیراعظم اپنے ساتھیوں اور لیڈروں سے یہ کہہ کر گئے تھے کہ ان کی ہمشیرہ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ وہ صرف مزاج پرسی کے لئے امریکہ جا رہے ہیں۔ کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ غالباً یہی جملہ سن کر وائٹ ہائوس کے پروٹوکول آفیسر نے‘ جیب سے نوٹ بک نکالی اور گفتگو کی ابتدا کرتے ہوئے نوٹس لکھنا شروع کر دئیے۔ ہمارے معزز وزیراعظم کو کوئی نوٹس لینے والا دستیاب نہیں تھا۔ وہ اکیلے تھے۔ وزیراعظم جب واپسی کے سفر کے لئے امریکہ کے راج محل سے برآمد ہوئے تو تیزی سے ایک کار ان کے سامنے آئی۔ ڈرائیور نے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ لیز پر رکھے ہوئے ہمارے وزیراعظم کا یہ دورہ انتہائی شاندار تھا۔ جو تاریخ کے صفحات میں کہیں دکھائی نہیں دے گا۔

اس دورے کی کوئی تصویر عالمی میڈیا پر نہ آئی۔ نہ ہی پاکستان میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے کوئی پریس ریلیز جاری ہوئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے