تو پھر جھگڑا کیا ہے ؟

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
( جون ایلیا )

آپ نے اپنی زندگی میں کتنے افراد یا ادارے دیکھے ، سنے یا پڑھے ہوں گے جنھیں فوراً غلطی ، بھول ، کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے یا جرم کا احساس ہوتے ہی حرفِ معذرت یاد آجائے اور وہ اظہارِ ندامت کرتے ہوئے آیندہ کے لیے محتاط ہو جائیں اور غلطی نہ دھرائیں۔کریں تو نئی غلطی کریں ، بھولیں تو کچھ تازہ بھولیں اور پھر اس نئی غلطی اور بھول سے بھی سبق سیکھتے رہیں۔

کوئی انسان یا ادارہ غلطی یا بھول سے سو فیصد پاک نہیں ، نہ ہی یہ ممکن ہے۔لہذا ازالے کا اخلاقی و مادی نظام بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ویسے تو اس نظام کو غلطی و معذرت ، جزا و سزا کی جوڑی میں خودکار چلنا چاہیے ، دھکا اسٹارٹ بھی ٹھیک ہے مگر چلتے رہنا چاہیے۔یہی تو گڈ گورننس ہے، انفرادی بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔

جن معاشروں اور ان معاشروں پر مبنی ریاستوں نے یہ راز پا لیا وہ بنیادی گورننس کی جھنجھٹوں سے نکل کر اعلی سطح کی جھنجھٹوں کی جانب توجہ دینے اور انھیں اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے ، سلٹانے اور الجھانے میں مصروف ہیں۔ ہم جیسے لوگ ابھی بھی گورننس کی ابتدائیات میں الجھے پڑے ہیں۔ یہ بھی چاہتے ہیں کہ آگے بڑھیں پر اپنی موجودہ حالت سے باہر نکلنے کو جی بھی نہیں چاہتا۔اس طالبِ علم کی طرح جو ہاسٹل کا کمرہ نہیں چھوڑنا چاہتا اور ایک کے بعد ایک کورس میں داخلہ لیتا رہتا ہے۔

جیسا کہ عرض کیا گیا انفرادی و اجتماعی گڈ گورننس کا سفر ذاتی خود احتسابی کی لال بتی کو مسلسل روشن رکھنے اور غلطی پر ندامت اور اسے نہ دھرانے کے ارادے سے شروع ہوتا ہے۔اس کسوٹی پر اگر میں اردگرد نگاہ دوڑاؤں تو خود کو ایک لق و دق پر ہجوم تاویلاتی صحرا میں پاتا ہوں۔

میں نے آج تک کوئی کنبہ ایسا نہیں دیکھا جہاں بلا بحث و تمیحص، کوئی جواز دیے بغیر کسی کے منہ سے پہلا جملہ ہی یہ نکلا ہو کہ ہاں مجھ سے غلطی ہوئی ۔تاوقتیکہ ملزم کو بزرگی کے دباؤ یا مضبوط دلائل کی ناکہ بندی سے زیر نہ کیا جا سکے۔اس دباؤ کی تاب نہ لا کر بھی جو اپنی خطا تسلیم کرتا ہے وہ دل سے کتنا تسلیم کرتا ہے اور دوبارہ اسے نہ دھرانے کی کوشش کرنے کا حلف اپنے ہی دماغ سے کتنی بار لیتا ہے۔باڈی لینگویج سمیت دنیا کا کوئی آلہ نہیں بتا سکتا۔ (کچھ مثالیں آپ کے علم میں ہوں تو مجھے بھی سرفراز کیجیے گا)۔

آپ اور میں روزانہ سڑک کے حادثات دیکھتے ہیں۔موٹر سائیکل موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی ، گدھا گاڑی کار سے ٹکرا گئی ، کار کو ویگن چھو گئی اور ٹرک کو اچانک بریک لگی تو ویگن اس میں گھس گئی۔جو جو بھی اس حادثے میں ملوث ہوتا ہے اس کی تمام انگلیاں دوسرے کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔عینی گواہ تماشائی بن کے چپ سادھ لیتے ہیں اور دونوں متاثرین جج میں بدل جاتے ہیں۔

حتٰی کہ ون وے پر غلط سمت سے آنے والی گاڑی یا موٹر سائیکل کا سوار بھی درست سمت سے جانے والی گاڑی کے ڈرائیور کی آنکھوں میں بے باکانہ دیدے ڈال کر کہتا ہے ’’ابے اندھا ہوگیا ہے۔دیکھ کے نہیں چلتا ’’۔جب اس سے کہا جائے کہ بھائی آپ ون وے کے قانون کو توڑتے ہوئے آ رہے تھے تو مزید بلند لہجے میں کہتا ہے ’’ میں تو غلط کر رہا تھا تیری تو دو آنکھیں ہیں۔تجھے کیوں میں نظر نہیں آیا ‘‘۔ پانچ منٹ مزید بک بک جھک جھک ہوتی ہے اور زندگی پھر سے غیر معذرتی راہ پر لگ جاتی ہے۔

آپ کسی بھی پبلک یوٹیلٹی ادارے کے کاؤنٹر پر چلے جائیں ’’ بھائی یہ بل غلط بن گیا ہے ، آپ خود جمع کر لیں یہ دو ہزار دو سو اکیس روپے نہیں بنتے ایک ہزار دو سو دس روپے بنتے ہیں ’’۔جواب ملے گا۔ٹھیک ہے اگلے بل میں ایڈجسٹ ہوجائیں گے فی الحال تو آپ جمع کروا دیں۔ جو رقم بل میں زائد لگ گئی ہے وہ تو کمپنی کی پالیسی کے تحت واپس نہیں مل سکتی آپ اس زائد رقم کی مزید خریداری کر لیں۔بھائی یہ میرا قصور نہیں، اگر آپ سے غلطی ہوئی ہے تو درست کر کے نیا بل بنا دیںمیں فوراً ادائیگی کر دوں گا۔سر آپ سمجھ نہیں رہے یہ غلطی نہیں ہے۔

روزانہ ہمیں سیکڑوں بل بنانے پڑتے ہیں۔ایک آدھ میں رقم اوپر نیچے تو ہو ہی جاتی ہے ، اسٹاف کم ہے۔آپ ایسا کریں کل آ جائیں۔کل تو بھائی مجھے نوکری پر جانا ہے۔ چلیں جس دن چھٹی ہو اس دن آ جائیں اور آنے سے پہلے اس نمبر پر فون کر لیجیے گا تب تک باس بھی چھٹی سے واپس آ جائیں گے ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں بقایا رقم واپس کرنے کا کہہ دیں۔لیکن آپ یہ تو مانیں کہ آپ کے ادارے سے غلطی ہوئی ہے۔سر میں نے بتایا نا کہ ایک آدھ بل میں ایسا ہو جاتا ہے۔آپ کو پریشانی ضرور ہوئی ہو گی مگر ہم پر بھی تو پریشر دیکھیں۔کوئی معذرت ، کوئی ندامت ، تکلیف دینے کی معافی ، کوئی رسمی دلجوئی ؟کچھ نہیں۔

پانی والا گوشت بیچنے والا قصائی معذرت چھری کی نوک پر اور مجبور تاویلات کی گٹھڑی آپ کے سر پر رکھ دے گا۔ غربت کے ہاتھوں ستایا سو پچاس روپے پکڑنے والا پولیس والا بھی پیسے جیب میں اڑستے ہوئے یہ ضرور کہے گا آپ نے سر برا تو نہیں منایا مگر شرمندہ بالکل نہیں ہوگا۔

اربوں روپے کی خردبرد میں نے تھوڑی کی ہے۔ مجھے تو اس کیس میں پھنسوایاگیا ہے۔میرے کارخانوں پر چھاپے ملاوٹ پکڑنے کے لیے نہیں بلکہ سیاسی انتقام لینے کے لیے مارے جا رہے ہیں۔میں نے ٹیکس میں کوئی گھپلا نہیں کیا ، مجھ سے ایک ٹیکس افسر ذاتی دشمنی نکال رہا ہے۔ بھائی ٹیکس چوری کا الزام ہی غلط ہے تو معافی کس بات کی۔میری نیت بندہ مارنے کی نہیں تھی۔میں تو ہوائی فائرنگ کر رہا تھا۔اب کوئی گولی اسے آ کر لگ گئی تو میں معافی کیوں مانگوں ؟ ٹھیک ہے آپ سزا دے دیں مگر یہ کوئی انصاف نہیں۔ اتنی مثالیں ہیں کہ کاغذ ختم ہو جائے۔

اعلی ترین سطح پر بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب عدلیہ بھی قانون کے دائرے میں کام کر رہی ہے ، فوج بھی آئین و جمہوریت کی بالادستی کی وکیل ہے اور حکومت بھی اپنے طے شدہ اختیارات سے تجاوز نہیں کر رہی تو پھر بحران کس بات کا ہے۔کوئی تو غلطی پر ہوگا۔ہاں کوئی ایک ضرور غلطی پر ہے۔میں نہیں وہ۔اس سے کہیں وہ معافی مانگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے