پاگل معاشرہ!

گزشتہ روز’’میرا‘‘ کالم’’پاگلوں کے درمیان‘‘ شائع ہوا جس کے شروع میں میں نے یہ نوٹ دیا’’میرے ایک دوست نے وٹس ایپ پر یہ دلچسپ تحریر مجھے بھیجی، مصنف کے نام کا علم نہیں مگر میں پڑھ کر اتنا محظوظ ہوا کہ اپنے اس خط میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں‘‘ اور اس کے بعد میں نے وہ مکمل تحریر نذر قارئین کردی۔

آج صبح ابھی’’جنگ‘‘ مجھ تک نہیں پہنچا تھا کہ ایک قاری نے مجھے فون پر میسج بھیجا کہ جناب آپ نے جو بےنامی تحریر اپنے کالم میں شائع کی ہے وہ جاوید چودھری کا کالم ہے اور میں مارے شرم کے پانی پانی ہوگیا۔ اللہ جانے ہم لوگ اتنے کم ظرف کیوں ہیں کہ اپنی پسندیدہ تحریر تو ہم سوشل میڈیا پر درج کردیتے ہیں مگر اس خوبصورت تحریر کے خالق کا نام بتاتے ہوئے ہمیں ’’دندل‘‘ پڑجاتے ہیں، چنانچہ یہ میسیج موصول ہوتے ہی میں نے جاوید چودھری کو فون کیا اور اللہ کے اس عاجز اور مجسم انکسار بندے نے کہا’’کوئی بات نہیں، آپ کی وساطت سے میرا پیغام آپ کے قارئین تک بھی پہنچ گیا۔‘‘ جاوید کا یہ کالم جہاں بے پناہ دلچسپ تھا، وہاں اس میں ایک بہت کام کی بات یہ بھی تھی کہ کسی پاگل کے ساتھ بحث کرنے کاکوئی فائدہ نہیں، آپ اگر ایسا کریں گے تو محض اپنا وقت ضائع کریں گے۔ میں نے یہ بات پلے باندھ لی اور کل سے آج تک کسی سیاسی پاگل کے ساتھ بحث کرنا چھوڑ دی۔ جاوید کے حوالے سے ایک دو باتیں اور کرکے میں اپنی بات بعد میں کروں گا، اس سے پہلے ایک شاعر کا قرض بھی اتار دوں، میں نے چند روز پیشتر اپنے کالم کے آخر میں ایک انتہائی دلچسپ اور تخلیقی غزل نذر قارئین کی جو میں نے سوشل میڈیا پر پڑھی تھی۔ اس میں شاعر کا تخلص’’احمد‘‘ مقطع میں درج تھا، مگر شاعر کا نام لکھنے کی توفیق کسی کو نہیں ہوئی تھی۔ میں نے کھوج لگائی تو پتہ چلا کہ شاعر احمد رضا راجہ ہے اور اس کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔

باقی رہی بات برادرم جاوید چودھری کی تو اس کے کالم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ ایک دفعہ وہ پڑھنا شروع کریں اس کے بعد اختتام تک آپ سانس روکے پڑھتے چلے جائیں گے، وہ میرا نہیں لاکھوں قارئین کا فیورٹ کالم نگار ہے اور چونکہ میں موصوف کو بہت قریب سے جانتا ہوں چنانچہ میں جانتا ہوں کہ اتنی مقبولیت کے باوجود غرور اور تکبر اس کے قریب سے بھی نہیں گزرا۔ وہ ماشاء اللہ مالی طور پر بھی بہت آسودہ ہے، اس آسودگی نے بھی اس کا دماغ خراب نہیں کیا۔ وہ دوستوں کا دوست ہے اور ان کے لئے بہت آگے تک چلا جاتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس کے ساتھ ہونے والی ایک زیادتی کا علم ہے، اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو آسمان سر پر اٹھالیتا اور وہ یوں کہ دو دفعہ دو مختلف حکومتوں میں اس کی صحافتی خدمات ( میں تو ادبی خدمات ہی کہوں گا کہ اس کے بہت سے کالم ادب پارے ہیں) کے اعتراف میں اسے ستارہ امتیاز کے لئے نامزد کیا گیا جو اس کے لئے کوئی بڑی بات نہیں، مگر تمام کارروائی مکمل کرنے کے بعد عین موقع پر اس کا نام حذف کردیا گیا۔ یہ کام جن لوگوں نے بھی کیا اس سے جاوید چودھری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، البتہ اس ایوارڈ کو جو عزت ملنا تھی یہ ایوارڈ اس عزت سے محروم ہوگیا۔

چلیں یہ باتیں تو ہوگئیں ، حالانکہ میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا اس کا دس فیصد حصہ بھی بیان نہیں کرسکا، چلیں ایک جملے میں کہہ دیتا ہوں کہ آئی لو جاوید چودھری! باقی باتیں میں نے اپنے پاگلوں کے بارے میں کہنا تھیں، جن سے میری روزانہ ملاقات ہوتی ہے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی خود کو پاگل ماننے پر تیار نہیں۔ ان پاگلوں میں زیادہ تر کا تعلق شعر و ادب سے ہے ان میں سے ایک دوست تقریباً روزانہ ایک غزل کے ہمراہ میری طرف آتا ہے ۔ یہ غزل اس نے کبھی اقبال، کبھی غالب اور کبھی میرؔ کی زمین میں کہی ہوتی ہے۔ غزل سنانے کے بعد مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیسی ہے؟ میں آتش دوزخ کو بھول کر جھوٹ بولتا ہوں’’سبحان اللہ کیا عمدہ غزل ہے‘‘ اس کے بعد وہ شیر ہوجاتا ہے اور کہتا ہے ’’آپ نے اللہ کو جان دینی ہے، سچ سچ بتائیں، میں نے اقبال کو میر کو غالب کو (جن کی زمینوں میں اس نے غزلیں کہی ہوتی ہیں) پیچھے نہیں چھوڑ دیا؟‘‘ میں ایک دفعہ پھر یہ بھول جاتا ہوں کہ میں نے اللہ کو جان دینی ہے، چنانچہ میں دل میں لاحول ولا پڑھتے ہوئے کہتا ہوں’’یار تم یہ کہتے ہو، میں تو سوچ رہا ہوں کہ یہ شعراء جنت میں ایک دوسرے کو کیا منہ دکھاتے ہوں گے‘‘۔ یہ سن کر اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور میرے ہاتھ چومتے ہوئے کہتا ہے ’’میں تو اگر کسی کو شاعر مانتا ہوں تو وہ صرف تم ہو‘‘۔ شکر ہے اسے میرا وہ قہقہہ سنائی نہیں دیتا جو میں نے دل ہی دل میں لگایا ہوتا ہے، مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ اچانک اداس سا ہوگیا ہے۔ اس اداسی کے عالم میں وہ مجھ سے پوچھتا ہے’’مگر مجھے لوگ مشاعروں میں کیوں نہیںبلاتے؟‘‘۔ میں کہتا ہوں’’ تمہیں بلا کر انہوں نے اپنی شاعری کی دکانیں بند کرانی ہیں؟‘‘ آپ یقین کریں میں اس رات ضمیر کی چبھن کی وجہ سے صحیح طور پر سونہیں پاتا۔

اپنا مرتبہ خود متعین کرنے والے صرف شاعر ہی نہیں،اسی طرح کے پاگل ہمارے تمام شعبہ ہائے زندگی میں موجود ہیں۔ میرے ایک دوست نے آئن اسٹائن کی تھیوری غلط ثابت کرنے کے لئے تین سو صفحات پر مشتمل کتاب لکھی اور اس کی تمام دلیلوں کا ماخذ تحقیقات چشتیہ ہے جبکہ کسی ایک واقعہ کا تعلق بھی آئن اسٹائن کی تھیوری سے نہیں ہے، سو برادران اسلام ہم مستقبل کے بےشمار وزرائے اعظم، صدور، چیف جسٹس، آرمی چیف، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے رینک کے لوگوں کے درمیان رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ ان کے رستے میں رکاوٹ ہے، ورنہ انہیں کب کا وہ تمام مل چکا ہوتا ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ جاوید چودھری نے تو اپنے کالم میں خدائی کے دعویدار پاگلوں کا ذکر کیا ہے، وہ دو پاگلوں کے درمیان ہونے والی جنگ کو بھول گئے جس کے مطابق ایک پاگل نے درخت پر چڑھ کر اعلان کیا کہ لوگو مجھ پر ایمان لائو، اللہ نے مجھے نبی بنا کر تمہاری طرف بھیجا ہے۔ اس پر ایک دوسرے درخت پر لٹکے پاگل نے بآواز بلند اعلان کیا کہ خبردار اس کی بات پر یقین نہ کرنا، میں نے اسے نبی نہیں بنایا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے