پاگل خانہ ٹو

میرے ایک ہاتھ میں کافی کا مگ تھا اور دوسرے میں سینڈوچ‘ میں نے پہلے اسے کافی کا مگ پکڑایا‘ اپنا دایاں ہاتھ خالی کیا اورپھر اپنا ہاتھ اس کے سلام کے لیے آگے بڑھے ہاتھ میں دے دیا‘ وہ ڈیڑھ منٹ تک میرا ہاتھ جھلاتا رہا.

میں نے سلام سے فارغ ہونے کے بعد اپنا کافی کا مگ واپس لیا اور جھک کر اجازت چاہی لیکن وہ مصر ہو گیا‘اس کا کہنا تھا وہ اس وقت تک میرے راستے سے نہیں ہٹے گا جب تک میں اسے دس منٹ نہیں دے دوں گا‘ میں نے دو تین بار معذرت کی لیکن وہ نہ مانا‘ میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھا اوراس کی رضامندی سے ہم اس کے ساتھ کافی شاپ میں بیٹھ گئے‘ وہ دس منٹ کی ملاقات آدھ گھنٹے تک پھیل گئی‘ وہ مسلسل بولتا رہا اور میں مسلسل سنتا رہا.

میں نے آخر میں اپنی مجبوری بتائی‘ اجازت لی اور چل پڑا لیکن وہ گاڑی تک میرے ساتھ چلتا رہا اور میں جب تک وہاں سے نکل نہیں گیا وہ کھڑا ہو کر بولتا رہا‘ ہم عمارت کی حدود سے باہر آ گئے تو میرے دوست نے پوچھا ’’یہ کیا چیز تھا‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہ میرا فین تھا‘‘ وہ بولا ’’یہ کیسا فین تھا‘ یہ مسلسل بولتا رہا‘‘ میں نے عرض کیا ’’یہ شخص بولیریا کے مرض کا شکار تھا‘ اس مرض کے شکار لوگ مسلسل بولتے ہیں‘‘ دوست نے پوچھا ’’کیا یہ تمہارا اس قسم کا پہلا فین تھا‘‘ میں نے سر ہلا کر جواب دیا ’’نہیں‘ میرے ننانوے فیصد فینز اور ملاقاتی ایسے ہی ہوتے ہیں.

یہ مجھے سننے کے لیے نہیں آتے‘ یہ مجھے سنانے کے لیے میرے پاس آتے ہیں‘ میں جب بھی ان کے قابو آ جاتا ہوں میں چپ چاپ بیٹھ کر ان کی سنتا رہتا ہوں‘ یہ جب تھک جاتے ہیں تو میں اجازت لے کر آگے روانہ ہو جاتا ہوں‘‘ وہ بولے ’’کیا یہ صرف فینز کا ایشو ہے‘‘ میں نے عرض کیا ’’نہیں یہ ہمارے پورے معاشرے کی عادت ہے‘ ہم سب بولیریا میں مبتلا ہیں‘ ہم میں سے کوئی دوسرے کی سننے کے لیے تیار نہیں‘ ہم سب بتانا چاہتے ہیں‘ ہم سب بس بولنا چاہتے ہیں اور ہم سارا سارا دن بولتے بھی رہتے ہیں‘‘۔

میرے دوست نے پوچھا ’’لیکن ایسا کیوں ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’زیادہ بولنا پاگل پن کی نشانی ہے‘ پاگل کی زبان میں بریک نہیں ہوتی‘ یہ ایک بار منہ کھولتا ہے تو یہ پھر چپ نہیں ہو سکتا‘ یہ نیند میں بھی بولتا رہتا ہے اور ہم سب کیونکہ نیم پاگل ہیں چنانچہ ہم جہاں بھی کوئی شخص دیکھتے ہیں ہم بولنا شروع کر دیتے ہیں‘ آپ کسی دن اپنی جیب میں آڈیو ریکارڈر رکھ کر گھر سے باہر آ جائیں۔

آپ رات کے وقت ان تمام لوگوں کی ریکارڈنگ سنیں جن سے آپ کی دن میں ملاقات ہوئی تھی‘ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے‘ آپ کو پورا دن صرف اور صرف بولنے والے ملیں گے‘ آپ کے تمام ملاقاتی میڈیکل سائنس سے لے کر خلائی مخلوقات تک کے ایکسپرٹس ہوں گے‘ یہ ملک کے سب سے بڑے جاسوس بھی ہوں گے‘ سیاسی جوتشی بھی اور آپ کو نعوذ باللہ نعوذ باللہ ان کے لہجے میں خدا بھی بولتا نظر آئے گا۔

آپ کی سارا دن علماء کرام سے ملاقات بھی ہو گی اور آپ کو ایسے درجنوں لوگ بھی ملیں گے جن کا دعویٰ ہو گا یہ ملک اگر دو ہفتوں کے لیے انھیں مل جائے تو یہ اسے سنگا پور بنا دیں گے اور آپ نے اگر ان سے یہ پوچھنے کی جرات کر لی ’’جناب کیا آپ نے سنگا پور دیکھا ہے‘‘ تو ان کا جواب ہو گا میں جب وزیراعظم بنوں گا تو سنگا پور کے لوگ حاصل پور آ کر نیا سنگا پور دیکھیں گے‘میرا دعویٰ ہے آپ نے جس دن یہ تجربہ کر لیا آپ کو اس دن عوام کی اصل حالت کا اندازہ ہو جائے گا‘ آپ کو اس دن پتہ چل جائے گا ہم من حیث القوم پاگل پن کا شکار ہو چکے ہیں‘‘۔

میں نے اپنے پہلے کالم ’’پاگل خانہ‘‘ میں آپ کو پاگلوں کی سات نشانیاں بتائی تھیں‘ آپ اگر غور کریں گے تو آپ کو یہ ساری نشانیاں اپنے اردگرد بھی نظر آ جائیں گی‘ مثلاً بے تحاشہ بولنا اور لایعنی گفتگو کرنا پاگلوں کی پہلی نشانی ہوتی ہے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں‘ آپ کو وہاں لایعنی گفتگو کے درجنوں ماہرین مل جائیں گے‘ پاگل خود کو ایکسپرٹ بھی سمجھتا ہے‘ آپ کو اس ملک میں ہر شخص ایکسپرٹ ملے گا‘ چائے والے کو چائے بنانی نہیں آئے گی‘ اینٹیں لگانے والا ساری اینٹیں ٹیڑھی لگائے گا۔

حجام آپ کے سر میں تین ڈیزائن بنا دے گا‘ پلمبر آپ کی ساری ٹونٹیوں کا بیڑا غرق کر دے گا‘ پائلٹ شراب پی کر کاک پٹ میں بیٹھ جائے گا‘ ائیر ہوسٹس آپ پر چائے گرا دے گی اور مولوی صاحب رکوع کی جگہ سجدہ کرا دیں گے لیکن یہ تمام لوگ عراق سے لے کر میکسیکو تک دنیا کے تمام ایشوز کے ایکسپرٹ ہوں گے‘ یہ آپ کو بتائیں گے اسامہ بن لادن ابھی زندہ ہے اور وہ کل اپنی بغلیں صاف کرانے کے لیے ان کے پاس آیا تھا۔

امریکا نے عافیہ صدیقی کا دماغ نکال لیا ہے‘ یہ لوگ اب اس جیسی دو ہزار ذہین عافیہ صدیقی بنا رہے ہیں اور ہمارے فاٹا کے نیچے سونے کے غار ہیں‘ امریکا اور روس اس لیے وہاں امن نہیں ہونے دے رہے‘ امریکی سمجھتے ہیں یوں پاکستان امیر ہو جائے گا‘مجھے ایک بار ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر سے ملنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

ڈاکٹر صاحب نے یہ فرما کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو چاہیے یہ جعلی ڈالر چھاپ کر اپنے ریزروز سو بلین ڈالر کر لے‘ یہ اپنے سارے قرضے بھی ادا کر دے‘ مجھے ایک ڈاکٹر صاحب نے بتایا‘ ذوالفقار علی بھٹو آج بھی زندہ ہیں‘ جنرل ضیاء الحق نے انھیں سیف ہاؤس میں چھپا دیا تھا‘ گڑھی خدا بخش میں بھٹو کی قبر جعلی ہے‘ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو وہ بولے ’’آپ بھٹو کی قبر سکین کرا لیں‘ آپ کو اس میں بھٹو کی جگہ خدابخش ڈاکو کی لاش ملے گی‘‘۔

میں آج تک درجن سے زائد امام مہدیوں (نعوذ باللہ) سے بھی مل چکا ہوں‘ لاہور کے ایک امام مہدی نے جنرل راحیل شریف کو خط بھی لکھ دیا تھا‘ یہ خط ملک کے ایک ممتاز کالم نگار نے تحریر کیا تھا‘ حضرت صاحب کیونکہ لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں چنانچہ یہ سعادت محترم کالم نگار کے حصے آ ئی‘ ایک امام مہدی (نعوذ باللہ) میرے دفتر بھی تشریف لائے‘ حضرت صاحب امت کی خدمت کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتے تھے۔

مجھے دس سال قبل لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا‘ وہ تمام فیصلے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مشوروں سے کرتے تھے‘ ہمارے ایک وزیر خزانہ کے سر پر بھی حضرت داتا گنج بخشؒ اور حضرت امام بریؒ کا دست شفقت تھا‘ امام بریؒ کے متولیوں اور داتا صاحب کے خادموں نے اس دست شفقت کا دل کھول کر فائدہ اٹھایا‘ یہ وزیر صاحب تو حضرت داتا گنج بخشؒ کا ’’ایس ایم ایس‘‘ فارورڈ کر کے اپنے تمام الو سیدھے کر لیتے تھے۔

ملک کے ایک تگڑے ادارے کے چیئرمین امام بریؒ کے ایس ایم ایس کے ذریعے لگے تھے‘ ہمارے ایک ایٹمی سائنس دان نے یہ فرما کر پوری دنیا کو پریشان کر دیا تھا ہم تھرکول سے پانچ سو سال کے لیے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں‘ حکومت نے انھیں موقع فراہم کر دیا‘ یہ تھر گئے اور انھوں نے زمین کے اندر کوئلے کو آگ لگا دی‘ بجلی نہیں بنی لیکن ہم آج تک وہ آگ بجھا رہے ہیں۔

آپ کو ملک میں برفی کے ذریعے شوگر‘ مرچوں کی دھونی کے ساتھ ٹی بی‘ شہد کی مکھیوں کے ذریعے کینسر‘ لسی سے ہیپاٹائٹس بی اور نمک کے ذریعے ایڈز کا علاج کرنے والے ہزاروں حاذق طبیب بھی مل جائیں گے‘ جن نکالنے اور محبوب کو آپ کے قدموں میں لا بٹھانے والے ماہرین تو اب ہر گلی میں موجود ہیں۔

آپ کو اس ملک میں عرش معلی کی سیر کرانے والے ماہرین بھی ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے اور آپ کمال دیکھئے ایک شخص سکھر سے اسلام آباد آیا‘ پانی سے سوزوکی ایف ایکس چلائی اور خورشید شاہ سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر تک ملک کے تمام اعلیٰ دماغوں سے ذہانت کا تمغہ لے کر واپس چلا گیا‘وہ آج بھی دعویٰ کرتا ہے میں پٹرول بیچنے والی کمپنیوں کی مخالفت کا شکار ہوں ورنہ میں پوری دنیا کی تاریخ بدل دوں چنانچہ آپ کو اس ملک میں دعوے کرنے اور ان دعوؤں پر یقین کرنے والے دونوں قسم کے کروڑوں پاگل مل جائیں گے۔

آپ اگر پاگلوں کا مشاہدہ کریں تو آپ کو پاگلوں میں دو اور نشانیاں بھی ملیں گی‘ دنیا کا ہر پاگل خود کو ایماندار اور دوسروں کو بے ایمان سمجھتا ہے چنانچہ آپ کو ملک میں ہر دوسرا شخص اپنی ایمانداری اور دوسروں کی بے ایمانی کی قسم کھاتا ملے گا‘ آپ کو یہ عادت فروٹ کی ریڑھی سے ایوان اقتدار تک ہر جگہ ملے گی‘ ہمارے ملک میں ہر شخص ایماندار اور دوسرے بے ایمان ہیں‘ نیب جس شخص کو بھی بلاتا ہے وہ پہلے ایمانداری کی پریس کانفرنس کرتا ہے اور نیب سے واپسی پر دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتا ہے۔

دوسرا‘ دنیا کا ہر پاگل خود کو عقل مند اور دوسروں کو پاگل سمجھتا ہے‘ آپ کسی دن اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘ آپ کو ہر دوسرا شخص پہلے شخص کو پاگل کہتا ہوا ملے گا یہاں تک کہ آپ کو پاکستان تحریک انصاف ملک کی باقی سیاسی جماعتوں اور ملک کی باقی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کو پاگل قرار دیتی ملیں گی‘ آپ ہمارا کمال ملاحظہ کیجیے‘ ہم نے اس پاگل پن کے باوجود آدھی دنیا کو پاگل بنا رکھا ہے۔

روس سے لے کر امریکا تک دنیا ہماری وجہ سے پاگل ہو چکی ہے‘ دنیا میں جہاں بھی کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ہمارا پاگل نکل آتا ہے اور ہم اس پاگل پن پرایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں اور یہ پاگل کی آخری نشانی ہوتی ہے‘ پاگل صرف پاگل پن پر خوش ہوتے ہیں‘ آپ آج ایٹم بم چلانے کا اعلان کر دیں ملک کے 21 کروڑ لوگ باہر نکل کر تالیاں بجائینگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے