آئین

بارش سے بچنے کے لئے چھتری تلے کھڑا ہونا پڑتا ہے، اور چھتری کو زور سے تھامنا پڑتا ہے، کہ کہیں تیز ہوائیں اسے توڑ نہ دیں۔ بارش میں بھیگتے شخص کی نظریں بارش پر تو پڑتی ہیں لیکن وہ ساتھ ہی کوشش بھی کرتا ہے کہ چھتری کے ایک ایک پرزے پر نظر رکھے ، کہیں تیز ہوا اپنا کام نہ دکھا جائے، ساتھ ہی اگر کہیں شگاف ہو تو پانی نکل ہی آتا ہے، بچنے والے کو اتنی قربانی بھی دینا پڑتی ہے، لیکن یہاں کہنا یہ مقصود ہے کہ بارش سے بچنے کے لئے چھتری کے نیچے کھڑا شخص، خود چھتری میں شگاف نہیں ڈالتا، ٹوٹے ہوئے پرزوں کو بھی جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے، تیز ہواؤں سے بھی بچانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ اس کا سہارا ہے، چھوٹے سے چھوٹے پیچ پرزے سے لے کر چار اطراف پھیلی چھتری پر ایک ہی آن میں نظر کرلینا ، تیز بارش میں کھڑے ہوکر دیکھئیے گا۔

لیکن یہ کیا تہمید ہوئی کہ بارش، چھتری۔ خیر رہنے دیجئیے۔ بات کرنی ہیں قانون کی۔ قانون جسم ہے ، جس کی روح آئین ہے، اور قانون وہ لاٹھی ہے جو ہانک کر سیاہ اور سفید بھیڑوں کو الگ الگ کردیتا ہے۔ ہر ریاست کا اپنا قانون ہے ، اپنا نظام۔ لیکن یہ قانون ہے کیا؟ میرے خیال میں قانون کی سب سے چھوٹی اکائی سڑک پر لگا سگنل ہے، یا موٹر سائیکل پر ہیلمٹ پہننا ، یا گاڑی میں بیٹھ کر سیٹ بیلٹ پہننا، یہ تو صرف میرا خیال ہے، لیکن میں سوچ رہا ہوں ، یہ قانون ہے کیا؟ قانون وہ ہتھی ہے جس کے ذریعے سے ہم نے چھتری پکڑ رکھی ہے، اور چھتری وہ آئین ہے جسے ہم نے تان رکھا ہے، جو ہمیں بارش سے بچا رہا ہے۔ بارش وہ لاقانونیت ہے جس میں تقسیم، اعتدال، احترام، اظہار رائے کی آزادی، حقوق کی ضمانت، لولی لنگڑی قسم کی جمہوریت بھی نہیں، صرف آمریت ہے یا اس سے بھی بدتر حالت، جیسے پتھر کے دور کی کوئی چیز۔ لیکن یہ آئین ، یعنی وہ چھتری ہی ہے جس نے ہمیں بارش سے بچا رکھا ہے، اب اگر اس میں شگاف خود ڈالیں تو بارش آئے گی، اور ہوا تو چلتی ہی رہتی ہے، اور ہوا بھی نظر تھوڑی آتی ہے، ہوا بھی بس ہوتی ہے، اپنا اثر رکھتی ہے، نظر نہیں آتی مگر ہوتی ہے، چھتری کی تانیں توڑ دیتی ہے، اگر صیح سے قانون تھاما نہ جائے، قانون کا رستہ توڑ دیا جائے تو چھتری قائم نہیں رہتی اور بارش آنے لگتی ہے، لیکن میرا خیال ہے تیز بارش میں کوئی خود چھتری کے کسی بھی پرزے کو چھیڑنے کی جرات نہیں کرتا، کیونکہ اس کی تو زندگی موت کا مسئلہ ہو جیسے۔

چھوٹے سے چھوٹے پرزے پر نظر دوڑانے اور کسی بھی جگہ سے ایک قطرہ پانی داخل ہو تو وہ نظریں ، کہ جس میں پاش پاش ہوتی امید، اور حوصلہ۔ لیکن ہم کیوں قانون توڑتے ہیں، چھتری میں شگاف کرتے ہیں، پرزے ہلاتے ہیں ، بارش تیز ہے ہوائیں چل رہی ہیں ،لیکن ہمیں اس چھتری سے ہی مسئلہ ہے، بارش سے تو جیسے دوستی ہے، بارش میں بھیگنا اکثر لوگوں کو پسند ہوتا ہے، لیکن بارش میں بھیگ کر نقصانات بہرحال زیادہ ہیں، اور پانی کی بوندوں والی بارش تو قدرے رومانوی منظر ہوگا، لیکن یہ غیر جمہوری افریتوں کی بارش کون روکے ، اس میں آیا بخار کیونکر جائے ، کیا ہو، کیا بنے، شاید پاکستانیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا، میں نے پڑھا تھا، ایک صدر نے یوں ہی پریس کانفرنس میں بیٹھے، چند لمحے پہلے پرنٹ ہوئے آئین میں ترممیم کردی تھی، ایک نے آئین کی جگہ اپنا ہی کوئی حکم نامہ نافذ کردیا تھا۔ لیکن مجھے نہیں سمجھ آتی کہ کیوں آخر کیوں ، میں اس چھتری سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہوں، کبھی ہوا آئے تو گرفت ڈھیلی کر کے ، چھتری کو سرکانے لگتا ہوں ، بارش میں بھیگنے کا اس قدر شوق کیوں ؟ چار مرتبہ چھتری ہٹ چکی، چار مرتبہ سالہا سال بارش میں بھیگنے کے بعد بھی آج ، پھر نادیدہ قوتوں کے اشارے، استعارے، جانے کیوں ، حل چھتری کے نیچے نہیں ڈھونڈھا جاتا، مسئلے کا حل چھتری کے نیچے ہے نا کہ بارش میں بھیگتے ۔

شخصیات کی قانون کو سمجھنے اور استعمال کرنے میں ناکامی کو بھی نظام سے منسوب کرنا، یہ انصاف ہے تو سرکار، خدا حافظ ۔۔۔ قانون انگریز نے بنائے، آپ نے صرف دو کام کئے، کاپی اور پیسٹ، بدلا تو سرورق ، بس انہیں قوانین کو چلاتے رہے، چلاتے جارہے ہیں ۔ اور آگے بھی بدلنے کا کوئی ارادہ نہیں، ترامیم کی جارہی ہیں، ہورہی ہیں، لیکن قانون پر عمل کہاں ہے؟ قانون کا احترام یہ ہے کہ شخصیات کے لئے قانون میں ترامیم ۔۔۔ آئین میں ترمیم۔ ہم بدلتے نہیں خود کو قانون بدل دیتے ہیں۔

احترام کرتے ہو تو سگنل کیوں توڑتے ہو، ٹریفک کا اشارہ ہمارے آئین کے زیر سایہ چلنے والے قانون کی سب سے چھوٹی مثال ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹریفک سگنل نہیں ٹوٹتا جہاں سارجنٹ ہاتھ میں چالان والی کتاب لے کر کھڑا ہو، ہیلمٹ تب پہنیں گے جب چالان کا ڈر ہوگا، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ چالان کی کتاب کا احترام آئین کی کتاب سے زیادہ ہے۔ لیکن وہ چالان کی کتاب بھی تب ہے جب آئین ہے، قانون ہے، قانون کو سمجھنے کے لئے اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو ہمارے لئے معنی نہیں رکھتیں ، وہی اصل مطلب ہیں۔ آئین ہم پر تنی ہوئی چھتری نہیں ٹریفک کا سگنل ہے، اور اس سے بلند ہوتے جائیں ، تو گھر ، دفتر ، سب میں کوئی نہ کوئی سگنل ہے، کوئی نہ کوئی قاعدہ قانون ہے، اس کی پاسداری کریں، آئین کی عزت یوں ہی ہوگی، ورنہ سڑکوں پر نعرہ لگاتے گھومتے رہیے ووٹ کو عزت دو ، عزت ووٹ کو ملے گی، نہ آئین کو، اور ہم یوں ہی ووٹ کے لئے عزت مانگتے رہیں گے ، عزت تو ملے گی نہیں، چالان بھی کٹیں گے، اور بوٹ بھی نئے سے نئے ہوں گے، آہٹ بھی نئی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے