امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے

انسان اشرف المخلوقات ہے، خدا نے انسان کو سوچنے، سمجھنے، پرکھنے ، اختیار کرنے اور ترک کرنے جیسی منفرد صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ خدا انسان کو کٹھ پتلی نہیں بنانا چاہتا، اس نے انسان کو اپنی اطاعت کی دعوت بھی تعقل، تفکر ، تدبر اور اختیار کے ہمراہ دی ہے۔ اللہ کی طرف سے جتنے بھی مصلح آئے انہوں نے انسانوں کو ڈکٹیٹرز اور آمروں کے سامنے کٹھ پتلی بننے سے منع کیا، جب انسان انسانیت کی سطح سے گر کر کٹھ پتلی بن جاتا ہے تو وہ عقل ، فہم اور شعور کے ہوتے ہوئے بھی بے جان مجسموں کی طرح زندگی گزارتا ہے اور صرف بے جان مجسموں کی طرح ہی زندگی نہیں گزارتا بلکہ اس سے بھی بدتر حال میں گر جاتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے مذہبی و سیاسی آمروں کے اشاروں پر چلنے لگتا ہے۔ اور جب آمروں کے اشاروں پر حرکت کرنے لگتا ہے تو اس کی اپنی سوچ، فکر، شعور ، دانائی اور حتیٰ کہ حرکت تک گویا سلب ہو جاتی ہے۔

معروف قانون دان ایس ایم ظفر کے مطابق آمر اور ڈکٹیٹر دونوں میں فرق ہوتا ہے، آمر ایک حاکم ہوتا ہے جو حکم دیتا ہے جبکہ ڈکٹیٹر ایک مطلق العنان حاکم ہوتا ہے، اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ دستور اور قانون کا درجہ رکھتا ہے۔[1]ان کے مطابق ہر حکم دینے والا آمر تو ہوسکتا ہے لیکن ڈکٹیٹر نہیں چونکہ ڈکٹیٹر مطلق العنان ہوتا ہے اور اپنے آپ کو محض حاکم نہیں بلکہ خدا سمجھنے لگتا ہے۔گویا اردو زبان میں ڈکٹیٹر کا کوئی متبادل لفظ موجود ہی نہیں۔بس یوں سمجھئے کہ آمر ایک عام کلمہ ہے اور ڈکٹیٹر خاص ہے۔ہر ڈکٹیٹر آمر ہے لیکن ہر آمر ڈکٹیٹر نہیں۔

حالات کے مطابق لوگ آمر اور پھر ڈکٹیٹر بنتے ہیں، حالات جیسے جیسے خراب ہوتے جاتے ہیں پہلے آمریت اور پھر ڈکٹیٹر شپ کے لئے راستہ ہموار ہوتا جاتا ہے۔آمر اور ڈکٹیٹر اپنے ارد گرد کبھی بھی وفادار لوگوں کو برداشت نہیں کرتے چونکہ وفادار لوگ انہیں بار بار آئین ، قانون، اصول، احتساب، حساب اور ضابطے کی یاد دلاتے ہیں جبکہ یہ باتیں آمروں اور ڈکٹیٹروں کو ناگوار گزرتی ہیں لہذا وہ وقت کے ساتھ ساتھ آئین اور قانون کے رسیا وفاداروں کو دور کر کے فقط اپنے تابعداروں کو اپنے گرد جمع کرلیتے ہیں۔

تابعدار وہ ہوتا ہے جو فقط دست بوسی، یس سر اور خوشامد و چاپلوسی کرتا ہے۔ چنانچہ ہر آمر اور ڈکٹیٹر کو صرف تابعدار ہی بہاتے ہیں۔اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آمروں اور ڈکٹیٹروں کے تابعداروں میں کسی قسم کی سوجھ بوجھ ، شعور یا غور و فکر کا فقدان نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔جو جتنی خوبصورتی سے کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتا ہے وہ اتنا ہی ایک آمر یا ڈکٹیٹر کے قریب ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر خوشامد اور چاپلوسی کرنے والا ہمیشہ اپنے آپ کو بڑی کٹھ پتلی ظاہر کرنے کی کوشش میں مگن رہتا ہے۔

ڈکٹیٹرز اور آمروں کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ نااہل لوگوں کو اپنے گرد جمع کر کے ان پر نوازشات کی بارش کرتے ہیں، ظاہر ہے جب نااہل ہونے کے باوجود کسی کو نوازا جائے تو اس کی زبان سے خوشامد کے بغیر اور کچھ نکل ہی نہیں سکتا، ڈکٹیٹر شپ کا دوسرا اصول یہ ہے کہ آمر یا ڈکٹیٹر کے بارے میں اس کے تقدس کو ہوا دی جاتی ہے، لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا ہےکہ یہی عوام کا سب سے بڑا ہمدرد ، متقی اور مخلص ہے اور اس کے خلوص و تقدس کے بارے میں خوشامدی بیٹھ کر کہانیاں گھڑتے ہیں اور لوگوں کو سناتے رہتے ہیں۔آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کا تیسرا اصول کٹھ پتلی کی حرکت کو کنٹرول کرنا ہے، کٹھ پتلی صرف اتنی ہی حرکت کرتی ہے جتس قدر ڈکٹیٹر اشارہ کرے اور جہاں ڈکٹیٹر کا اشارہ رک جائے کٹھ پتلی بھی وہیں رک جاتی ہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے ہم سعودی عرب کے لئے کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں، سعودی عرب نے بعض نالائق مولویوں کو اپنے گرد جمع کر کے ریالوں کی بارش کی ، انہیں خوب نوازا ، ان نوازے جانے والے مولویوں نے سعودی عرب کے تقدس کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملادئیے ، اس کے بعد ان سعودی عرب کی کٹھ پتلیوں کو سعودی ڈکٹیٹرز نے افغانستان میں روس کے خلاف حرکت کرنے کا حکم دیا اور بعد ازاں پاکستان کے عوام کے خلاف متحرک ہونے کا اشارہ کیا تو افغانستان و پاکستان دونوں خون میں ڈوب گئے۔

اس کے بعد اب سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے 22 مارچ کو واشنگٹن پوسٹ کو تازہ ترین انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سرد جنگ کے دوران مغرب کو اسلامی دنیا میں وہابیت کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہم نے مغرب کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وہابی مدارس اور مساجد کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی۔”

اب سعودی عرب سے مغرب لبرل ہونے کا تقاضا کر رہا ہے تو ظاہر ہے سعودی ڈکٹیٹر بھی لبرل ہوجائیں گے، لیکن مسئلہ تو ان کٹھ پتلیوں کا ہے کہ جو سعودی ڈکٹیٹروں کی ایما پر وہابی ازم کی تبلیغ و ترویج کرتی رہی ہیں ،اب وہ کس منہ سے لبرل ازم کا پرچار کریں گی، خیر! کوئی بات نہیں کٹھ پتلیاں تو کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں وہ تو سعودی لبرل ازم کو بھی مقدس بناکر پیش کریں گی لیکن اصل مسئلہ ان بے چارے غریبوں کا ہے جنہوں نے سعودی کٹھ پتلیوں کے کہنے پر پہلے مونچھیں منڈوائی تھیں اب ان کی داڑھی کی بھی باری آ گئی ہے۔

بقول شاعر:

امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے

کبھی بہ حیلہ مذہب، کبھی بنامِ وطن

[1] ڈکٹیٹر کون از ایس ایم ظفر ص ۲۳

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے