ملیشیا کاجوڑا،پھٹّاسلیپراورہماری عیاشی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارا داخلہ کچّی پہلی میں ہوا تھا، سکول تو جانا ہی تھا مگر چونکہ بڑی عید سر پر تھی اسلیے نئے کپڑے/ یونیفارم​ ​بھی ملنا تھا.

ہمارے تو جیسے وارے ہی نیارے ہو گئے، ایک ٹکٹ میں ڈبل مزے، یعنی اسکول جانے اور عید پر نئے کپڑے ملنے کی خوشی ایک ساتھ ہمارے حصے میں آنے والی تھی.

تایا جی (اللہ پاک کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) نے یونیفارم سلوانے کی ذمہ داری اپنے سر لی تو دادی جی نے ہمارے بڑھتے قد اور گھریلو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ”دور اندیشی” کا مظاہرہ کرتے حکم جاری کیا کہ کپڑے صاحبزادے کے ناپ سے تھوڑے لمبے اور ملیشیے کے ہوں تاکہ عید کے بعد سکول میں بھی پہنے جا سکیں۔خیر کپڑے سلائی کے بعد آئے تو لمبے ہونے کے باعث ہم سے سنبھالنے زرا مشکل ثابت ہوئے-

انھیں حساب میں رکھنے کے لیے ہمیں قمیض کے بازو مروڑنے (موڑنے) پڑے اور شلوار کو کافی اوپر تک کُنّجنا (کھینچ) کر باندھنا پڑا.
سکول میں استانی جی (مس صاحبہ) کی نظر جب امی کے نمونہ نما لختِ جگر پہ پڑی تو زیرِلب مسکرا دیں (ویسے آج بھی جب وہ ملتی ہیں تو وہ وقت یاد کروا کر سرِعام ہنسنا شروع کر دیتی ہیں تو راقم بھی شرمانے کی بجائے ”ڈھیٹ پن” کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہلکا سا قہقہ لگا کر کھسک جاتا ہے).
بہرحال عید کے بعد ہمارا داخلہ کروا دیا گیا-

چونکہ اس وقت شلوار پہننے کا ”نیا قانون” صرف بزرگوں پر ہی لاگو ہوا تھا اسلئے ہمیں ”گھر کے کپڑوں” کے نام پر محمود چچا کی ایک عدد چھوٹی قمیض بھی ملی جو ہمیں اسکول سے واپس آتے ہی نئے کپڑے خراب نہ ہونے سے بچانے کے لیے پہننی تھی.

نئے کپڑوں سے مراد وہ کپڑے تھے جو اگلا جوڑا ملنے تک نئے ہی کہلاتے تھے اور اگلا جوڑا ملنے کےلئے نئے سال کا انتظارکرنا پڑتا تھا.کندھوں سے کپڑوں کا رنگ اُڑ جائے یا پھٹ جائیں تو (بنا میچنگ وغیرہ کا خیال کیے) کسی بھی قسم کی ٹاکی یا کسی بھی (دستیاب) رنگ کے دھاگے سے سلائی کر دینا عام سی بات تھی.

اگلا سوٹ ملنے تک پہلا سوٹ گھر والوں کی نظر میں نیا ہی کہلاتا تھا اور گھر والوں سے اس بابت اختلاف کرنا “کدو شریف” سے دل یا گردے کا آپریشن کرنے والے پیر صاحب کے سامنے ”ڈارون کا نظریہ ارتقاء” پیش کرکے خود کو کافر کہلوانے کے مترادف تھا۔چمڑے کے بوٹ کا تصور ہی محال تھا بلکہ حالات کچھ اس قسم کے تھے کہ پلاسٹک کے بوٹ بھی صرف “جاگیرداروں اور سرمایہ داروں” کو ہی نصیب ہوا کرتے تھے.

چنانچہ ہم جیسے بیشتر غریب بچے (بوٹ خریدنے کا بجٹ نہ ہونے کے باعث) پلاسٹک کے سلیپرز پہن کر علم کی شمع سے محبت کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔

سلیپرز پھٹ جاتے تو رضائی سلائی کرنے والے بڑی سوئی اور موٹے سفید دھاگے سے سلائی کی جاتی. (کپڑوں پر ٹاکی لگانی ہو یا جوتا سینا ہو، ہمارے بڑے خود ہی “درزی” یا “موچی” بن جایا کرتے.حتی کہ دسویں کلاس تک بال کاٹنے کا فریضہ بھی امی جی نے خود ہی پوری دیانتداری سے ادا کیا.

کالے کپڑوں پر کسی اور رنگ کی ٹاکی/ دھاگے کا استعمال اور سلیپرز پر سفید دھاگہ ریسم پر ٹاٹ کے پیوند کے موافق دور سے جھلکتی غربت کا عکاس بن جاتا-

ایک دن تو ہم نے عیاشی کی انتہا کر دی، ہوا یوں کہ اسکول سے آتے ہوئے ایک سلیپر کا اگلا حصہ پھٹ کے بالکل الگ ہو گیا تو ہم نے خود کو مغلیہ خاندان کا چشم و چراغ سمجھتے ہوئے شاہانہ انداز میں وه ٹکڑا راستے میں ہی پھینک دیا کہ امی جی نیا خرید کر دے دیں گی-دربارِ عالیہ میں پہنچتے ہی فرشی سلام پیش کرنے کے بعد مسکراتے ہوئے امی جی کو سلیپر کا سرتن سے جدا ہو جانے اور بے فکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھینک دینے کی ”خوشخبری” سنائی اور ساتھ ہی پرجوش انداز میں نئے سلیپرز خریدنے کا مطالبہ کیا تو جوابی سلوک کو دیکھتے ہوئے ایسا لگا گویا ہم سے وقت کے جابر حکمران کے سامنے “کلمہ حق بلند” کر دینے کی غلطی سر زد ہو گئی ہو-

چٹاخ کی آواز کے ساتھ ایک زناٹے دارتھپڑ گال پر پڑا اور سنسناتے کانوں کے ساتھ کڑک دار شاہی فرمان بچی کھچی سماعت کے ساتھ ٹکرایا کہ فورا سے پہلے ٹوٹے ہوئے سلیپر کا ٹکڑا واپس لا کر ملکہ عالیہ کے حضور پیش کیا جاوے-اس ناگہانی اور اچانک افتاد پر غریب ”شہزاده” مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق گال پر ہاتھ رکھے کسی ہارے ہُوئے جواری کی طرح منہ بسورتا الٹے قدموں واپس چل پڑا اور سلیپر کا ٹکڑا تلاش کر کے واپس لایا- سردارنی جی نے آگ میں چمٹا (تتّہ) گرم کرکے اُسے ایسا زبردست جوڑ لگایا کہ سلیپر نہ مزید دو ماہ تک ٹوٹا اور نہ ”شہزادے” کی جان ہی چھوڑی-

یہ تو تھی اپنی داستانِ غربت …

یہ سب لکھنے کا مقصد ارتقائی دور کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے یہ قصہ گوش گزار کرنا ہے کہ حسان کو جیسے کپڑے ملے ویسے ہی عثمان کے لئے بھی آئے، لیکن مسئلہ صرف اتنا ہوا کہ حسان کی شرٹ فل وائٹ جبکہ عثمان کی شرٹ ہاف وائیٹ ہے اور موصوف نے اس وقت تک کھانا نہیں کھایا جب تک ان کے دادا جان (جو ہمارے ابو جی بھی ہیں لیکن پوتوں کے بعد اب وه پہلے والی محبت کہاں) دوبارہ جا کر نئی شرٹ نہیں لائےدل میں سختی اور زبان پر نرمی سموئے امی سے گزارش کی کہ ایک ایسا ہی چانٹا اُسے بھی لگا دیں جیسا سلیپر کا ٹکڑا پھینکنے پر ہمیں لگایا تھا تو فرماتی ہیں کہ “بچّیا ساریاں نے اپنے اپنے نصیب دے” یعنی سب کے اپنے اپنے نصیب ہیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے وه منظر گھوم رہا ہے جب ہمارا استحصال ہوا کرتا تھا.کاش اس وقت اگر آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت ہمیں اپنا حق نہ ملنے پہ چھیننا آ جاتا تو ہمارا استحصال کبھی بھی نہ ہوتا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے