کشمیری نوجوان عسکریت پسند کیوں بن رہے ہیں؟

اتوار کے روز بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 17 کشمیریوں کو بھارتی فوج نے ان کاؤنٹر میں قتل کر دیا جن میں چار مقامی لوگ تھے جو وہاں پر عسکریت پسند کشمیریوں کو محفوظ راستہ دینے آئے تھے تاکہ وہ جان بچا کر نکل سکیں۔ اس واقعے میں چار بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے اور تین سو کے لگ بھگ کشمیری زخمی ہوئے جن میں پیلٹ گنوں کے زخم بھی تھے اور بھارتی فوج کے کیمیکل اسلحہ بھی استعمال کیا جس سے املاک کو بھی نقصان پہنچا اور ایک گھر جل کر خاکستر ہو گیا۔

اب اس ساری صورتحال کا ایک رخ پر جائزہ نہیں لیا جا سکتا، جموں کشمیر میں موجودہ شورش کے پیچھے ماضی کے ایسے بہت سارے محرکات ہیں جن کا تجزیہ غیر جانبدرانہ طریقے سے ازحد ضروری ہے وگرنہ کشمیریوں کی یہ نسل کشی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مزید کئی صدیوں تک جاری رہے گی نہ تو کشمیر آزاد ہو گا اور نہ ہی کشمیری۔

اقوام متحدہ کی پہلی قرارداد کے بعد جب دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے سے منکر ہو گئے تو اقوام متحدہ کمیشن فار پاک و ہند نے اپنی تجاویز پیش کیں جس کی وجہ سے سیز فائر لائن کا قیام عمل میں آیا اور دونوں ممالک کی فوجیں سیز فائر لائن پر رک گئیں۔

سیز فائر لائن پر دونوں فوجوں کو روکنے کا مقصد رائے شماری کے لیے حالات کو موافقت مین لانا اور مکمل امن تھا تاکہ کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکیں لیکن دونوں ممالک کے زیر انتظام کشمیر دراصل دونوں نومولود ممالک کی کالونی بن گیا اور دونوں ممالک میں اقتدار کا بے رحمانہ کھیل شروع ہوا جس کا کشمیر یوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اقتدار کی اس جنگ میں پاکستان نے معائدہ کراچی اور کشمیر پر ایکٹ 74 نافذ کر دیے جبکہ ہندوستان نے اندرا عبداللہ ایکارڈ کروا لیا۔ دونوں انتظامی علاقوں میں مقامی مزاحمت کاروں کے بجائے من پسند افراد کو اقتدار سونپا جانے لگا۔ بظاہر 1948 اور 1965 میں آپریشن جبرالٹر کے بعد دونوں ممالک کو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ جنگ سے نہیں حل ہو گا ۔ بدقسمی سے اسی دوران جنگ 71 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور ریاست جموں کشمیر کو شملہ معائدے کے تحت ذولفقار علی بھٹو اور اندارا گاندھی نے شملہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔

اس معائدے کی رو سے ریاست جموں کشمیر کا مسئلہ "بائی لٹرل” یعنی دوطرفہ ہو گیا ، جیسے دو ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ ہوتا ہے ۔ اقوام متحدہ میں پیش کی گئی دوسری قرارداد میں ہندوستان اور پاکستان پہلے ہی اس بات پر متفق ہو چکے تھے کہ ریاست جموں کشمیر کو خود مختار نہیں ہونے دینا بلکہ دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ انضمام کو دوسرا قبول کر لے گا یعنی رائے شماری بھی مشروط ہونی تھی مگرشملہ معائدے میں مسئلہ ریاست جموں کشمیر سے ریاست کے شہریوں کو یکسر خارج کر دیا گیا اور یہ ایک جغرافیائی مسئلہ بنا دیا گیا۔

یوں تو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر(جو آزاد کشمیرکے نام سے معروف ہے) میں ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں اور عوام اپنے ووٹوں سے ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب کرتے ہیں مگر ان ممبران کے پاس قانون سازی کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ ایکٹ 74 کی روشنی میں بننے والی کشمیر کونسل چھپن میں سے باون اہم اختیارات پر قبضہ کیے ہوئی ہے جبکہ وزیر اور مشیر بھی کشمیر کونسل کے ہی اللے تللے بنتے ہیں اور فنڈز کے لیے کشمیر کونسل کے محتاج ہوتے ہیں۔

آزاد کشمیر میں اسی جماعت کی حکومت بن سکتی ہے جس کی حکومت پاکستان میں ہوتی ہیں اور آزاد کشمیر کا وزیر اعظم بھی حکومت پاکستان یا وزیر اعظم پاکستان ہی منتخب کرتا ہے جبکہ کشمیر کونسل بالواسطہ طور پر وزیر اعظم پاکستان کے نیچے کام کرتی ہے وزیر اعظم پاکستان اس کا سربراہ ہوتا ہے۔

آئین پاکستان کی دفعہ 257 ریاست جموں کشمیر کو مخصوص حیثیت تو عطا کر رہی ہے لیکن عملا آزاد کشمیر کی حیثیت ایک کالونی سے زیادہ کی نہیں ہے جبکہ چوالیس سو مربع میل پر پھیلے اس علاقے کا اپنا وزیراعظم ، اپنی اسمبلی ، اپنی سپریم کورٹ اور اپنا الیکشن کمیشن بھی ہے۔

دوسری جانب ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370 اور 371 ریاست جموں کشمیر کو مخصوص حیثیت دیتے ہیں لیکن وہاں بھی عملا نئی دہلی ہی کی حکمرانی ہوتی ہے، کشمیر کے الیکشن باقی بھارت سے الگ ہوتے ہیں لیکن کشمیر جزوی یا کلی تور پر اپنے فیصلے نہیں کر سکتے اس کے لیے بھارت کی طرف سے ایک گورنر اور ایک وزیر اعلی مقرر ہوتا ہےجسے بظاہر کشمیری ہی ووٹ دیتے ہیں لیکن ان پر اثر رسوخ ہندوستانی حکومت کا ہوتا ہے۔

ایسی صورت میں کہ جب اقتدار کی رسہ کشی کسی نہج پر نہیں پہنچ پاتی ان دونوں نمائندہ حکومتوں کا مسئلہ کشمیر پر کسی بھی قسم کی توجہ دینا ناممکن ہے خواہ پھر وہ بات ایل او سی پر دو طرفہ فائرنگ کی ہو یا بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کی ہلاکت کی۔

اتنی طویل تمہید کا مقصد یہ سوال تھا کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل عسکریت پسندی کی طرف کیوں راغب ہو رہی ہے ، اور کشمیریوں کے پاس عسکریت پسندی کے سوا اور کون کون سے راستے ہیں جن پر چل کر وہ موجودہ تحریک کو کسی منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں تو جواب نفی میں ملتا ہے۔ گرچہ عسکریت پسندی کی ایک بڑی وجہ بھارتی ظلم و جبر ہے تاہم دوسری اہم وجہ مذہبی جذبات بھی ہیں اور پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی تحریک آزادی میں عسکریت پسندی کو جائز قرار دینا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انجینئیرز ، ایتھلیٹ ، ایم بی اے کشمیری لڑکے عسکریت پسندوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کے پاس دوسرا راستہ کون سا ہے؟

گزشتہ ستر سالوں میں پاکستان اور ہندوستان نے کشمیریوں کو اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ، ہندوستان سے بھی بڑا سوال پاکستان سے بنتا ہے جو بظاہر بڑا بھائی، دوست اور کچھ کشمیریوں کی نظریاتی ، مذہبی منزل اور قبلہ ثانی ہے۔ پاکستان ان ستر سالوں میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورمز پر پیش کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے ۔ پاکسنان کے نااہل حکمرانوں کے لیے کشمیر صرف ریٹنگ بڑھانے کا ایک راستہ رہا ہے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے کہ وہ آزاد کشمیر یا پھر پاکستان کی طرف دیکھیں سوائے جموں اور لداخ کے جو کہ بظاہر تحریک میں کسی طرح کا کردار ادا نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی وہاں مستقبل میں کسی بڑی شورش کے کوئی آثار ہیں ۔

اقوام متحدہ کمیشن برائے ہندو پاک کی سفارشات کے تحت پاکستان اپنے زیر انتظام کشمیر میں ڈیفنس اور سیکورٹی ، کرنسی اور بین الاقوامی تعلقات پر مدد دینے کے لیے مجاز ہے لیکن حالت یہ ہے کہ حکومت آزاد کشمیر کو آئینی اور قانونی طور پر اپاہج بنا دیا گیا ہے اور وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔

پاکستان کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں جن سے کشمیر کے متعلق سوال کیا گیا تو وہ طنز کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر حکومت پاکستان کے بیانیے کو کوئی بھی اہمیت حاصل نہیں ہے۔

آزاد کشمیر حکومت اک اپاہج ہونا، حکومت پاکستان کی ناکامی اور بین الاقوامی سطح پر براہ راست کشمیریوں کی دسترس نہ ہونا بھارتی مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑتے کہ وہ یا تو ہندوستانی بن کر زندگی گزاریں یا پھر عسکریت پسند بن کر بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مر جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے