مشاہیر ادب کے حقیقی نام(قسط پنجم)

مشاہیر اُردُو کے حقیقی ناموں کے سلسلے میں میری حوصلہ افزائی اس قدر ہوئی کہ میں امید نہیں کر رہا تھا۔اس سلسلے کی پذیرائی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے شائع ہونے والے ایک معروف روزنامے’’جہانِ پاکستان‘‘ کے ادبی صفحے کے مدیر فاروق بلوچ نے نہایت مہارت سے چرا کر بہت ہی معمولی تبدیلی کے بعد اسے اپنے نام سے شائع کر دیا۔ اخبار منتظمین سے اور فاروق بلوچ سے رابطہ بھی کیااور بہ طور ثبوت وہ مضامین ارسال بھی کیے جو ’’اوصاف‘‘،’’جناح‘‘ سمیت کئی اخبارات میں شائع ہو چکے تھے۔ مگر بڑی ڈھٹائی سے جواب ملا کہ میں نے خود یہ تحقیق کی حالاں کہ جملے تک میرے استعمال کیے گئے اور جہاں کہیں مجھ سے غلطی ہوئی اس کو بھی ویسا ہی رہنے دیا گیا۔ فاروق بلوچ کی اس بے ایمانی پر غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا۔بہر حال میرے احباب اور قارئین مجھے اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہے کہ اس سلسلے میں کوئی رخنہ نہ آئے۔ میں بھی اپنی بساط کے مطابق کو شش کر رہا ہوں کہ وقتاً فوقتاً اپنے مشاہیر کے حقیقی ناموں کو تشنگانِ ادب کے لیے پیش کرتا رہوں۔ مشاہیر اردو کے مزید کچھ حقیقی نام اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر پیش خدمت ہیں۔

امید ؔ فاضلی:
اردو شاعری میں ممتاز حیثیت کے حامل شاعر جن کو امیدؔ فاضلی کہا جاتا ہے اصل میں’ ’ارشاد احمد‘‘ تھے۔ ارشاد احمد کو بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن امیدؔ فاضلی کے نام نے ان کو شہرتِ دوام بخشی۔ ۱۷،نومبر ۱۹۲۳ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں امید ڈبائیوی کے نام سے شاعری کی۔ امیدؔ فاضلی ۲۸ء ستمبر ۲۰۰۵ء کی شب کراچی میں انتقال کر گئے اور سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ دریا آخر دریا، میرے آقا ﷺ، پاکستان زندہ باد سمیت کئی مجموعے آپ کی یاد گار ہیں۔
معرفت اسمِ محمدؐ کی نہ ہو جب تک امیدؔ
آدمی قران کی تفسیر کر سکتا نہیں

ادیبؔ رائے پوری:
۱۹۲۸ء میں بھارت کے شہر رائے پورمیں جنم لینے والے اس شاعر کااصلی نام ’’سید حسین علی‘‘ تھا۔ اردو نعت نگاری کے لیے ادیبؔ رائے پور ی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ تقسیم سے ایک دن قبل ۱۳،اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے شہر کراچی کی طرف ہجرت کی اور اسی شہر میں ۱۶، اکتوبر ۲۰۰۴ء کو واصل بہ حق ہوئے۔ سید حسن علی ادیبؔ رائے پوری کی نعت کا یہ مطلع زبان زد خاص و عام ہے۔
خدا کا ذکر کرے ذکرِ مصطفی نہ کرے ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
شعورِ نعت بھی ہو اور زبان بھی ہو ادیبؔ وہ آدمی نہیں جو ان کا حق ادا نہ کرے

محسنؔ کاکوروی:
’’سیدمحمد محسن علوی ‘‘کو ادبی دنیا محسنؔ کاکوروی کے نام سے جانتی ہے۔ ۱۸۲۷ء میں بھارت کے شہر کاکوری میں مولوی حسن بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ۲۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اردو نعت کے حوالے سے منفرد شناخت کے حامل اس شاعر کے قصائد اور مثنویات بھی خاصے کی چیز ہیں۔
ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ، نہ غزل

منورؔ بدایونی:
نعت کے اس معروف و مشہور شعر سے کون واقف نہ ہو گا؟
جسے چاہا در پہ بلالیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
اس مقبول شعر کے خالق ۲، دسمبر ۱۹۰۸ء کو بدایوں، بھارت میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام’’ ثقلین احمد صدیقی‘‘ تھالیکن ادبی دنیا میں ’منورؔ بدایونی‘ کے نام سے پہچان قائم کی۔ منورؔ بدایونی کی نعت’ ’اللہ نے یہ شان بڑھائی تیرے در کی‘‘ بھی خاصی مقبول ہوئی۔ اردو دنیا کا شاعر ۶،اپریل ۱۹۸۴ء کو جمعے کی شام اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا اور کراچی شہر میں تدفین ہوئی۔

صبیح ؔ رحمانی:
اردو نعت گوئی میں عصرِ حاضر کے معروف شاعر صبیح ؔ رحمانی کا اصل نام’ ’سید صبیح الدین‘ ‘ہے۔ ۲۷ جون ۱۹۶۵ء کو اتوار کے روز کراچی میں سید اسحاق الدین کے گھر جنم ہوا۔ صبیحؔ رحمانی کا کلام ’’حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے‘‘ اور ’’کعبے کی رونق کعبے کا منظر اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ بہت مقبول ہوا۔ کئی کتب تالیف و تصنیف کیں۔
لب پر نعت پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
میرے نبی ؐسے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

رضی اختر شوقؔ :
۲۳ ،اپریل ۱۹۳۳ کو ضلع سہارن پور میں آنکھ کھولی۔ حیدرآباد دکن اور جامعہ عثمانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان کا رخ کیا۔ کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔ رضی اختر شوق ؔ کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے اس شاعر کا نام’ ’خواجا رضی الحسن انصاری‘‘ تھا۔ رضی اختر شوقؔ ۲۲، جنوری ۱۹۹۹ ء کو کراچی میں پیوندِ خاک ہوئے۔ آپ کی پہچان کے لیے یہی ایک شعر کافی ہے۔
ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل کسی اور نام سے آجائیں کے ہم لوگ

کلیم عثماؔنی:
شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی آواز میں ایک ملی نغمہ ہر خاص و عام نے ضرور سنا ہو گا۔’ ’یہ وطن تمھارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے‘‘ اس کے علاوہ ایک اور ملی نغمہ’’ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ ‘یہ دونوں نغمے اور بے شمار لازوال گیت اور غزلوں کے خالق کلیم عثماؔ نی ہیں۔ کلیم عثماؔ نی دیوبند، سہارن پورمیں ۲۸ فروری ۱۹۲۸ء کو تولد ہوئے۔ آپ کا حقیقی نام’ ’احتشام الہی‘‘ تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کے خاندان سے نسبت نے عثمانی بنا دیا۔ اردو دنیا کا یہ اثاثہ ۲۸، اگست ۲۰۰۰ء کو منوں مٹی تلے جا سویا۔ کلیم عثماؔ نی کی یہ غزل ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی مترنم آوازمیں گا کر امر کردی۔
رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے، پاگل کی طرح

ثاقب لکھنوی:
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

اس ضرب المثل شعر کے خالق کو زمانہ ثاقبؔ لکھنوی کے نام سے جانتا ہے۔ ثاقب لکھنوی کا اصل نام کیا تھا؟ کم ہی لوگ جانتے ہوں گے۔۲ ،جنوری ۱۸۶۹ء کو آگرہ میں جنم لینے والے ثاقبؔ کا حقیقی نام’ ’مرزا ذاکر حسین قز لباش‘ ‘تھا۔ اپنی شاعری ’دیوانِ ثاقب‘ کی صورت میں چھوڑ کر ۲۴، نومبر ۱۹۴۹ء کو سفر آخرت پر چلے۔ آپ کے کئی اشعار ضرب المثل ہوئے۔

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا ، وہی پتے ہوا دینے لگے

وارث سرہندی:
علمی اردو لغت اور قاموسِ مترادفات سمیت کئی دیگر کتابوں کے مصنف و مؤلف وارث سرہندی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وارث سرہندی ۲۳، ستمبر ۱۹۳۴ کو سرہند ،بھارت میں پیدا ہوئے۔ اردو زبان کا یہ محسن ۱۴، اپریل ۱۹۹۱ کو سیال کوٹ میں لقمۂ اجل بنا۔

صفیؔ اورنگ آبادی:
اردو کے معروف شاعر صفیؔ اورنگ آبادی کا اصل نام’ ’بہاؤ الدین صدیقی‘‘ تھا۔۱۲، فروری ۱۸۹۳ء کو جون بازار، اورنگ آباد میں حکیم محمد منیر کے ہاں جنم ہوا۔ ’فردوسِ صفی‘ ،’اور گل زارِ صفی‘ کے علاوہ آپ کا ایک مجموعہ ’ پرگندہ‘ کے نام سے آپ کے شاگرد خواجہ شوق نے شائع کیا۔ صفیؔ اورنگ آبادی نے۲۱، مارچ ۱۹۵۴ کو حیدر آباد دکن میں داعئ اجل کو لبیک کہا۔
میرؔ و غالب ؔ کو رونے والو
یاد آئے گا ایک دن صفیؔ بھی

نادرؔ کاکوروی
نادرؔ کاکوروی بھی اردو شاعری میں ایک ممتاز پہچان رکھتے ہیں۔ ضلع لکھنؤ کے علاقہ کاکور میں ۱۸۶۷ء میں شیخ حامد علی عباسی کے آنگن میں اگنے والے اس پھول کا نام’’شیخ نادِر علی خاں عباسی‘‘ رکھا گیا لیکن ادبی دنیا میں نادِر ؔ کاکوروی کے نام سے شہرت سمیٹی۔نادِرؔ کاکوروی ۲۰،اکتوبر ۱۹۱۲ء تک زندہ رہے اور ۴۵ برس کی عمر میں راہئ ملکِ عدم ہوئے۔کاکور ہی میں آپ کی تدفین ہوئی۔ نادِرؔ کاکوروی کا مجموعۂ کلام ’’جذباتِ نادِر‘‘ کے نام سے ممتاز حسن خان نے مرتب کیا۔ اے اجل !اے موت !اور اے نِشترِ سوہانِ روح!
یاد کرتے ہی تجھے بے چین ہو جاتا ہوں میں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے