جب قذافی کشمیر کا مسئلہ حل کر رہے تھے لیکن

چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب’سچ تو یہ ہے !‘ میں لکھا ہے کہ

ایٹمی دھماکوں کے بعد میرے چار غیر ملکی دورے1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس بلایا اور تمام وزراء کو ہدایت کی کہ وہ مختلف ممالک میں جائیں اور ان کے سربراہان کو پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر بریف کریں۔ میں اس وقت وزیر داخلہ تھا۔ میں نے کہا کہ میں ایک نہیں، چار ملکوں کا دورہ کروں گا۔

مصر، لیبیا، شام اور عراق۔ مصر، لیبیا اور شام کا دورہ میں نے کیا لیکن عراق کا دورہ نہ کرسکا۔

کرنل معمر قذاتی سے ملاقات اور مکالمہ:

لیبیا کے کرنل قذافی سے ملنے کے لئے ہم تیونس سے بذریعہ روڈ طرابلس پہنچے، جہان ہمارے استقبال کے لئے لیبیا کے وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ کے علاوہ ایک افریقی ملک کے وزیر خارجہ بھی موجود تھے۔ اس کے بعد خصوصی طیارے میں مجھے، پاکستانی سفیر اور جوائنٹ سیکرٹری ساجد حسین چٹھہ کو ایک خفیہ مقام پر پہنچایا گیا۔ دوسرے روز علی الصبح ہم بذریعہ کار آگے روانہ ہوئے۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک صحرائی مقام پر ہمیں جیپوں میں منتقل کردیا گیا۔ پھر ریگستان کا سفر شروع ہوگیا۔ایک لمبے سفر کے بعد ہمیں دو خیمے نظر آئے۔ اس کے علاوہ دور دور تک ریگستان ہی ریگستان نظر آرہا تھا۔ ہم ان خیموں کے قریب پہنچے تو ہمیں ان میں سے ایک خیمے میں بٹھادیا گیا ۔ خیمے کے اندر بے حد گرمی تھی۔ مکھیاں بھنبھنارہی تھیں۔ کوئی ائیرکنڈیشنر نظر نہیں آرہا تھا۔میں سوچ رہا تھا کہ جس خیمے میں کرنل قذافی رہ رہے ہوں گے، وہاں ضرور ائیر کنڈیشنر کا بندوست ہوگا، لیکن جب ہمیں ان کے خیمے میں لے جایا گیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں بھی یہی صورتحال تھی۔ تاہم کرنل قذافی کے چہرے پر اس ماحول کی وجہ سے کوئی بیزاری نظر نہیں آتی تھی۔

انہوں نے کھڑے ہوکر ہمارا استقبال کیا مگر جب بات چیت شروع ہوئی تو ہم نے ان کے لہجے میں بڑی تلخی محسوس کی۔ کہنے لگے، میں آپ کی بات بعد میں سنوں گا، پہلے آپ میرے دو سوالوں کا جواب دیں۔ پہلا یہ کہ ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے آپ نے مجھے اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ دوسرا یہ کہ مسئلہ کشمیر پر مصالحت کرانے کے لئے میں نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم، دونوں کو خطوط لکھے اور یہ پیشکش بھی کی کہ اگر کشمیر کو مکمل طو رپر خود مختار ریاست بنادیا جائے تو نئی رات کو چلانے کے لئے ابتدائی طور پر جو مالی وسائل درکار ہوں گے، وہ لیبیا فراہم کرے گا۔ بھارتی وزیراعظم نے تو میرے اس خط کا جواب دیا لیکن آپ کے وزیراعظم یا دفتر خارجہ نے اس کی زحمت گوارا نہیں کی۔ میں نے کہا، آپ کا یہ شکوہ میں وزیراعظم نواز شریف تک پہنچا دوں گا اور پھر جو بھی ان کا جواب ہوگا، وہ آپ تک پہنچا دوں گا۔مسئلہ کشمیرکے سوال کا جواب دینا ابھی باقی تھا۔ پاکستانی سفیر نے مجھے ٹوکا دیا اور پنجابی میں کہا کہ ان کو مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں بتائیں۔میں نے کہا، یہ اس کا موقع نہیں۔ سفیر بضد ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ مجھے بات کرنے کی اجازت لے کر دیں، میں ان کو بتا دیتا ہوں۔

میں نے کرنل قذافی سے کہا، اس مسئلہ پر ہمارے سفیر آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ کرنل قذافی نے اثبات میں سر ہلایا تو پاکستانی سفیر نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر شروع کردیا۔ جیسے ہی اقوام متحدہ کا نام آیا تو کرنل قذافی نے سفیر کو روکا اور ساتھ والے خیمے میں موجود اپنے وزیر خارجہ کو طلب کیا اور اس سے عربی میں اس کے متعلق دریافت کیا۔ وزیر خارجہ نے عربی میں ہی ان کو بریف کردیا۔ اس کے بعد کرنل قذافی پاکستان کے سفیر کی طرف متوجہ ہوئے اور ہاتھ سے کچھ اس طرح بات کرنے سے روکا، جیسے شٹ اپ کال دے رہے ہوں۔ یہ دیکھ کر میں نے پاکستانی سفیر سے کہا، میں نے کہا تھا کہ یہ اس بات کے کرنے کا موقع نہیں ہے۔کرنل قذافی دوبارہ میری طرف متوجہ ہوئے تومیں نے صورتحال کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ

لاہور میں میرے گھر کے قریب ہی ایک بہت بڑا سٹیڈیم ہے۔ اس سٹیڈیم کا نام آپ کے نام پر ’قذافی سٹیڈیم‘ ہے۔ اگر آپ کبھی پاکستان تشریف لائیں اور اس سٹیڈیم میں خطاب کریں تو مجھے یقین ہے کہ لاکھوں پاکستانی یہاں آپ کو دیکھنے اور سننے کے لئے جمع ہوجائیں گے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتاہے کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں آپ کی مدد شامل ہے۔ پاکستان کے عوام آپ کو بہت چاہتے ہیں اور آپ کی بہت عزت کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے اس طرح کہنے پر کرنل قذافی، جو پہلے اچھے موڈ میں نہیں تھے، ان کے چہرے پر رونق آگئی اور وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ اب وہ مطمئن نظر آرہے تھے۔ملاقات ختم ہونے لگی تو کرنل قذافی نے اپنے وزیر داخلہ اور دوسرے حکام کو اندر بلایا اور ان کو ہدایات جاری کیں کہ لیبیا کے دورے کے دوران ہمیں ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملوایاجائے اور ان تمام تاریخی مقامات کی سیر کروائی جائے۔ انہوں نے خاص طور پر ہمیں وہ گھر دکھانے کی ہدایت کی، جہاں ان کو قتل کرنے کے لئےان پر فضائی حملہ کیا گیا تھا اور ان کی کم سن نواسی شہید ہوگئی تھی۔ کرنل قذافی معجزانہ طور پر بچ گئے تھے کیونکہ صرف دو منٹ پہلے وہ کوئی چیز لینے کے لئے دوسرے کمرے میں چلے گئے تھے‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے