آزاد ریاست

اٹھئیے ! غریب شہر کا لاشہ اٹھائیے
اٹھتی نہیں یہ خاک خدارا اٹھائیے
دفنا کے ایک لاش بہت مطمئین ہیں آپ
اک اور آگئی ہے ! دوبارہ اٹھائیے
پڑھنے کو بس نماز جنازہ ہی رہ گئی
چلئیے ! لپیٹئیے ! یہ مصلا اٹھائیے

7 اپریل کے روز ٹی وی سکرین پر نظر پڑی تو ایک خبر مجھے واپس سال 2011 میں لے گئی خبر یوں تھی کہ امریکی مہلٹری اتاشی کی گاڑی کی ٹکر سے ایک نوجوان موت کی وادی میں چلا گیا ، عتیق نامی نوجوان نواحی علاقہ تلہاڑ کا رہائشی تھا اور حصول علم کے لئے اسلام آباد آیا تھا لیکن واپسی پر اسکی لاش اہلیخانہ کو یہ کہہ دی گئی کہ دنیاکے سب سے عظیم ملک کے ملٹری اتاشی نے آپکے بیٹے کو زندگی سے رہائی دے دی ہے
اسلام آباد سے واپس لاہور کی جانب آیا تو یہاں فہیم اور فیضان نامی شہریوں کے خون میں لت پت لاشے مزنگ کے کسی چوک میں آخری ہچکیاں لے رہے تھے ملک و قوم کے سوداگروں نے ملک کے ان بیٹوں کے قاتل کو پورے پروٹوکول اور بن پڑت اعزاز کے ساتھ فرار ہونے میں راہنمائی فرما دی

جی میری مراد ریمنڈ ڈیوس ہے جس نے جنوری 2011 میں صرف اس بنا پر دو نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا (بقول ریمنڈ ڈیوس) ان نوجوانوں نے مجھے دیکھ کر بندوق لہرائی تھی خیر سی اے نواز ایجنٹ کو پاکستانیوں کا خون معاف کرنے کا یہ جواز نکالا گیا کہ ریمنڈ فسارت خانے کا اہلکار ہے لہٰذا اسے جانے دیا جائے حمکرانوں سے امریکہ نے کہا کہ بھئی تم لوگ ہمارے تلوے چاٹتے ہو ایک ایجنٹ کو پکڑنے کی ہمت کیونکر ہوئی ہماری حکومت اور غیرت مند پولیس افسران کے ہاتھ پاؤں ہھول گئے

کل مارگلہ کی پہاڑیوں کے قریب ایک امریکی نے ریڈ سگنل پر رکنے کی زحمت نہ کی اور ایک ماں سے اسکا لخت جگر چھین لیا اس پر وفادار جانور کی صفت رکھنے والے پولیس افسر نے اس قاتل کو اس بنا پر چھوڑ دیا کہ جناب عزت مآب قاتل جوزف کے پاس سفارتخانے کا کارڈ تھا اسکے بعد وزارت داخلہ معاملے کو دبانے کے لئے تاویلیں گھڑنے لگی کہ سفارتخانے سے ہمارا رابطہ ہوا ہے لیکن ہماری انکے آگے اپنے ہی ملک میں ایک نہیں چل رہی کیونکہ ہم نے اپنی عزت اور غیرت کو امریکی ڈالروں کے عوض بیچ رکھا ہے

ریمنڈ ڈیوس کے معاملےپر مجھے یاد آیا ایک مقتول کی بیوہ نے حکومت اور امریکہ نواز افسروں کی پھرتیوں اور عدالت سے انصاف نہ ملنے پر حکومت کے منہ پر تھوکتے ہوئے یہ کہہ کر خود کشی کر لی کہ حکومت اور متعلقہ منتظمین کو مرنے کے بعد میری چوڑیاں بانٹ دی جائیں تاکہ انکی جھنکار سے حکومتی ایوانوں کو یہ پیغام پہنچتا رہے کہ یہ آزاد ریاست امریکیوں کے لئے بنائی گئی ہے کہ اس (شکار گاہ) میں وہ جب چاہے جیسے مرضی آئیں ہمارے شہریوں کو ماریں اور باعزت طریقے سے نکل کر پوری دنیامیں انسانیت اور امن کا واویلہ مچاتے رہیں

لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دنوں اس ملک کے دراز قامت والے وزیر اعظم صاحب کو نجی معاملات کے لئے امریکہ جانا پڑا وہاں سکیورٹی کے نام پر ایک دلچسپ صورتحال پیش آئی کہ موصوف کو کپڑوں سے بے نیاز کر کے انکی جامع تلاشی لی گئی کسی نے جناب کی امریکیوں کے ہاتھوں عزت افزائی کی ویڈیو لیک کر دی تو موصوف ایمنسٹی سکیم کے اعلان کے موقع پر صفائیاں دیتے رہے کہ نہیں نہیں ! اتنی سخت سکیورٹی دیکھ کر میری پتلون ڈھیلی پڑ گئی تھی میں اسے سنبھالا دے رہا تھا مطلب یہاں امریکی شکار کھیلنے آئیں ملک کا قانون اور سکیورٹی روندتے ہوئے مملکت کے باسیوں کو کچل ڈالیں قتل کر ڈالیں ہم ان حالت میں بھی وفاداری کا پاس رکھتے ہوئے امریکہ کے باسیوں کو پوری سکیورٹی دیں لیکن جب یہ سب فرض نبھانے کے بعد ہمارے ملک کا وزیر اعظم انکی زمین پر قدم رکھے تو وہ اس طرح مہمان نوازی کریں کہ جناب کے ستر اتروا کر انہیں باقاعدہ پروٹوکول دیں اور یہاں غیرت اور انا کا یہ عالم کہ موصوف فرمائیں کہ نہیں وہاں کلنٹن کو بھی میں نے اسی سخت سکیورٹی سے گزرتے دیکھا ہے انکی مہمان نوازی کا طریقہ ہی یہ ہی میڈیا بات کو یونہی اچھال رہا ہے

میڈیا ہر بات اچھالے گا ہر وہ بات جس میں میرے ملک ے حکمران امریکیوں کی بغلوں میں منہ دیکر اس عمل کو متبرک سمجھتے ہوئے پوری دنیا کو یہ باور کروائیں کہ ہاں ہم نے بھلا دی قائد اعظم ؒ کی تعلیمات ہم بھول گئے ان لوگوں کا لہو اور کوششیں جنہوں نے اس ملک کو آزاد کروایا تھا

لبھدی پھراں عدالت کوئی
دل دے زخم گواہ لے لے کے

ایک اور واقع یہاں گوش گذار کرنا چاہ رہا ہوں پوری دنیا میں چائینہ کو کلچر اور روایات کے حوالے سے مانا جاتا ہے کہ یہ وہ قوم ہے جو ہر حال میں اپنی زبان کلچر اور روایات کو فروغ دیتی ہے ہر فورم پر اپنی قومیت کو پروموٹ کرتے ہیں عام طور پر چائینیز بہت پرامن ہوتے ہیں لیکن کچھ دن پہلے کبیروالا کے علاقہ میں موٹروے کی تعمیر میں مصروف کچھ چائینیز انجینئیر طیش میں آگئے اور جواز پیش یہ کیا کہ پولیس اہلکار انہیں سکیورٹی کے نام پر تنگ کرتے ہیں جبکہ پولیس کی جانب سے مؤقف سامنے آیا کہ یہ حضرات بغیر سکیورٹی کے باہر جانے کی زد کرتے ہیں لیکن اس سب واقعے میں سب سے افسوسناک پل وہ تھا جب ایک چائینیز انجینئیر پولیس کی گاڑی پر چڑھ کھڑا ہوا اور میرے وطن کے جھنڈے کی حرمت کو متاثر کیا لیکن اس معاملے میں بھی غیرت سے عاری ان افراد نے جو اسی پرچم کو گاڑیوں پر سجا کر عوام کو عام شاہراہوں پر تنگ کرتے ہوئے بھونڈے پروٹوکول اور نقلی افسری کے زعم میں گذرتے ہیں ان افراد یعنی حکومت کے ایک ذمہ دار نمائیندے نے اپنے ملک کے حق میں کیا کہنا تھا ۔۔۔۔۔ موصوف نے کہا کہ یہ تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلا کر سازش کی جا رہی ہے بے رنگ سلام ہے ایسے وزیرخارجہ اور داخلہ کی غیرت پر جس نے وطن کے پرچم سے عزیز اس بات کو جانا کہ چائینیز ناراض نہ ہو جائیں پولیس کا اس سب میں کردار کیا رہا ہے واللہ اعلم لیکن ڈی پی او کی جانب سے حکومت اور متعلقہ منتظمین کو خط میں لکھا گیا کہ جھگڑالو طبعیت کے یہ چائینیز ہمیں قابل قبول نہیں ہے بعد ازاں صلح صفائی پر معاملہ رفع دفع ہو گیا لیکن جناح اور پرچم سوائے افسوس کے کچھ نہ کر سکے

واپس لاہور چلنا چاہوں گا وہاں ریمنڈ ڈیوس کی مدد کو آنے والی امریکی سفارتخانے کی گاڑی نے مزنگ کے ایک روڈ پر غلط سمت سے آتے ہوئے عبادالحق کو روند دیا اور یہ نوجوان بھی ڈالروں کی چمک سے اندھے ہو جانے والے حکمرانوں اور منتظمین کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا کل ملا کر چار لاشیں امریکیوں نے ہمارے سپرد کیں اور اس معاملے کو دبانے کے لئے جان کیری ہمارے ملک کے سکیورٹی اداروں کے ایک دو اعلیٰ عہدیدار اور کادمین حرمین شریفین بھی کودے تھے بعد ازان پتہ چلا کہ عجلت میں امریکہ کو خوش رکھنے کے لئے دیت کے نام پر شرعی تقاضے پورے کئے بغیر حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے سپرد باقاعدہ پروٹوکول ضروری زاد سفر اور احترام کے ساتھ کیا جسے 2011 میں ہی امریکہ میں جھگڑا اور شوروغل کرنے کے کیس میں بری کر دیا گیا
میڈیا اپنے تئیں ان حکمرانوں کی غیرت اور حمیت جگانے کی کوشش کر رہا ہے جو کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں انکے لیڈروں کو اربون روپے کی کرپشن پر نکال باہر کر کے عدلیہ نے اس قوم پر احساکن توکر دیا البتہ عدلیہ سے ایک گلہ ہے کہ انکی جانب سے بھی پرچم کی حرمت اور انسانیت کو روندنے والوں کے خلاف کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اس آزاد ریاست میں ملٹری اطاشی کو بھی شاید ریمنڈ ڈیوس کی طرح چھوڑ دیا جائے البتہ عام شہریوں کے خون بہہ جانے کے بعد اس حقیقیت سے پردہ ضرور اٹھا ہے کہ اس ملک میں عام شہری آزاد ریاست کا باشندہ نہیں ہے نہ ہی آزاد ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک انسان کا خون بہانے والے کو پکڑ سکیں چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو سخت الفاظ میں بے رنگ اور شدید سلام اس ایس ایچ او کی غیرت کو بھی جس نے سرکار اور افسران کی شاباش حاصل کرنے اور وفاداری کا قرض اتارنے کے چکر میں ایک ملزم کو چھوڑ دیا بلکہ مجرم کو چھوڑ دیا سفیر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شہریوں کے قتل پر بھی ان افراد کو استثنیٰ حاصل ہوگی

آزاد ریاست کا مطلب شاید کچھ اور ہوا کرتا ہے البتہ اس نگری میں یہ حالات ہیں کہ
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے