میں تومنیرآئینےمیں خودکوتک کرحیران ہوا

کہتے ہیں کہ مطالعہ نت نئے رجحانات دریافت کرنے کا نام ہے، دیگر جملہ زبانوں کا ادب ایک تحریک پیدا کیا کرتا ہے جو کسی بھی ادیب یا شاعر کو اس کو اپنے ہم عصروں سے مختلف زاویہ نظر دیا کرتا ہے،

؎ میں تو منیر آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں

تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ منیر کو مطالعے سے کوئی لگاؤ نہیں تھا،، پھر بھی شاعری میں ان کااسلوب انہیں اپنے ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتا ہے ۔

؎ یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

منیر نیازی مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں9 اپریل 1928 کو پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز قیام پاکستان سے قبل اس وقت کیا جب وہ اسلامیہ کالج جالندھر میں بی اے کے طالب علم تھے۔ لاہور آمد کے بعد اخبارات و ریڈیو اور پھر ٹیلیویژن سے وابستہ رہے، وہ بیک وقت شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔

؎ ہیں ا س راہ پرجس کی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اس کی جوہمیں حاصل نہ ہو

کہتے ہیں کہ شاعر و ادیب اپنے عہد کا نباض ہوتا ہے۔ اس کی تخلیقات میں اس کے عہد کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں

؎ ہستی ہی اپنی کیا ہے ز مانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

عہد ساز شاعر منیر نیازی اپنے طرز ،احساس اور زبان و بیان کے اعتبار سے نظم و غزل کے بے مثال شاعر ہیں۔

؎ محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن ان کی یاد میں ہوگی

انہوں نے اردو اور پنجابی شاعری کے حوالے سے عہد حاضر میں اپنی الگ پہچان بنائی ہے اور عالمی سطح پر پاکستانی ادب کے اعتبار و وقار میں اضافہ کیا ہے۔ ان کے اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مجموعوں میں بے وفا کا شہر، تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، شفر دی رات، چار چپ چیزاں، رستہ دسن والے تارے، آغاز زمستان، ساعت سیار اور کلیات منیر شامل ہیں۔

؎ کج اونج وی راھواں اوکھیاں سن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج مينوں مَرن دا شوق وی سی

منیر نیازی کی نظموں میں انسان کا دل جنگل کی تال پر دھرتا ہے اور ان کی مختصر نظموں کا یہ عالم ہے کہ گویا تلواروں کی آبداری نشتر میں بھر دی گئی ہو۔

چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور
وہ کہتی ہے ”کون…؟”
میں کہتا ہوں ”میں…”
کھولو یہ بھاری دروازہ
مجھ کو اندر آنے دو…”
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور

اردو کے معروف ادیب اشفاق احمد ان کے پہلے مجموعے پر تبصرہ کرتےہوئےکہتے ہیں ’منیر نے بات کی اور ختم کردی! سننے والے سوچنے پر مجبور ہوگئے اور پھر ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف، ذہن کے چلو میں قطرہ قطرہ ہو کر ٹپکنے لگا۔۔۔

آہ! یہ بارانی رات
مینہ، ہوا، طوفان، رقص صاعقات
شش جہت پر تیرگی امڈتی ہوئی
ایک سناٹے میں گُم ہے بزم گاہ حادثات
آسماں پر بادلوں کے قافلے بڑھتے ہوئے
اور مری کھڑکی کے نیچے کانپتے ہوئے پیڑوں کے ہات

منیر نیازی کا سیاسی اور سماجی شعور انہیں احتجاجی شاعری کرنے کے لئے اکساتا تھا، اِسی لئے غزل میں بھی ان کا لب و لہجہ بلند آہنگ ہو جاتا ہے۔

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
کسی سے دور رہنا ہو کسی کے پاس جانا ہو
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کر یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

انہیں فلمی شاعر کہا جاتا تو وہ برا مان جاتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلموں میں جتنی پائے کی غزلیں ملتی ہیں ان میں بیشتر منیر ہی کی ہیں۔

؎ اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو،
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔

آگئی یاد شام ڈھلتے ہی، بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی۔اسی طرح جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سوجا، جیسی قابل ذکر غزلیں بھی شامل ہیں۔شاعری میں احتجاج کی آواز جب بھی بلند ہوگی منیر نیازی کا نام آئے گا، ان کی اپنی زندگی کی بہترین اور بھرپور عکاسی اس شعر سے ہوتی ہے۔

؎ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

دراصل ان کی شاعری اور شخصیت میں کوئی فرق نہیں تھا کیونکہ ان کی شاعری جمالیاتی اظہار سے عبارت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت نے ان کو صرف شاعری کے لئے پیدا کیا تھا۔ اسی لئے وہ بے تکان لکھتے رہے ۔

اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہئے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے

منیر کے لب ولہجے میں کڑواہٹ ضرور ہے لیکن وہ سب کچھ شعری پیرائے میں بیان کردیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں چھپاتے۔ شاید انہیں چھپانا آتا بھی نہیں۔

آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے
شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے
پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے
کتنے جتن کیے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے
چلتے چلتے ہار گیا میں پھر بھی راہ ادھوری ہے
گھائل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے

منیر خالصتاً شاعر ہیں، نہ وہ شاعر عوام ہیں نہ ہی وہ شاعر انقلاب ہیں، نہ ہی وہ کوئی قصیدہ گو واقع ہوئے ہیں، وہ سر تاپا شاعر ہیں۔ چھبیس دسمبر سنہ دو ہزار چھ کو منیر نیازی کسی اور نکل گئے۔

؎ یاد بھی ہیں اے منیر اُس شام کی تنہائیاں
ایک میداں، اک درخت اور تُو خدا کے سامنے

منیر نیازی کو اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ دیا گیا۔ انھیں حسن کارکردگی ایوارڈ کے علاوہ دومرتبہ ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

؎ زندہ رہیں تو کیا ہے جو مرجائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے