ڈھونڈنے والے

چیف جسٹس آف پاکستان‘ جناب میاں ثاقب نثار گزشتہ چند مہینوں سے انسانی مسائل پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ ان کی مہمات اور روز مرہ کی کارکردگی دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘۔ یہی ایک آخری امید رہ گئی تھی۔ پولیس افسران‘ ریڈ کراس کے پیشہ ور انسان دوست‘ ہر دوسر ی گلی میں کسی نہ کسی خیراتی ادارے کے کارکن‘ خدا ترس بزرگ غرض یہ کہ پاکستان میں راہِ خدا میں دینے والے‘ غرض مندوں کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں بہت زیادہ بے روزگاری ہے لیکن کسی گلی یا بازار سے گزریں تو چند ہی منٹ میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں سب سے آسان جاب‘ روزگار اور کھانے پینے کی ہر طرف فراوانی ہے۔

رش والے بازاروں سے گزریں تو خدا ترس اور خوش حال انسان‘ ایک روپے سے دس روپے تک ‘راہ خدا میں دے دیتے ہیں۔ جیسے جیسے پسماندہ علاقوں میں جائیں‘ وہاں سے بھی کسی نہ کسی گھر سے کوئی زنانہ ہاتھ باہر نکلتا ہے‘ ہاتھ میں کوئی برتن ہوتا ہے اور اس کے اندر چاول‘ سالن کے اوپر روٹی‘ کہیں پلائو‘ کہیں پراٹھا‘ کہیں کھیر اور کہیں مرغے کا ”پکا پکایا‘‘ گوشت دستیاب ہو جاتا ہے۔ کبھی کسی کو اللہ کے نام پر پاکستان میں مایوس نہیں کیا جاتا۔ جابجا واقع خدا کے نیک بندوں کی درگاہوں پر ہر چیز مل جاتی ہے۔ داتا دربار کے باہر تو لوگ بیٹھے‘ آنے والے راہ گیروں کو متوجہ کر کے کہتے ہیں”اے خدا کے نیک بندے! میں اپنے گھر سے دال کے پراٹھے بنوا کر لایا ہوں۔ مہربانی کر کے ایک دو کا بوجھ تو ہلکا کر دو۔ اللہ تمہاری دعائیں سنے گا‘‘۔ کئی ایسے تنومند اور کسرتی جسم والے نوجوانوں کو‘ ہمارے ہر محلے اور بازار میں طرح طرح کی نعمتیں دستیاب ہیں۔ اس کے باوجود بعض نوجوانوں کی تسلی پاکستان سے نہیں ہوتی۔

سخی‘ غنی‘ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے والے اسی قسم کے اچھے خاصے خوش لباس‘ متبسم اور خوش گفتار لوگ‘ کچھ نہ کچھ دینے کے لئے رکتے ہیں اور ایک نوجوان اچانک رک کر پوری بتیسی کھول کے سخی کی طرف دیکھتا ہے اور قبل اس کے کہ وہ اپنے بیگ سے کوئی چیز نکالے‘ پلائو سے بھرا ہوا ایک بند لفافہ‘ اس کی طرف بڑھا دیتا ہے اور نہایت عاجزی سے جھکتے ہوئے کہتا ہے ”خدا کے لئے مجھے مایوس نہ کرنا۔ اگر آپ کے پاس پورا کھانا نہیں تو گندم کا ایک دانہ ہی دے دیجئے۔ اللہ آپ کا بھلا کرے گا‘‘۔ لاہورکو یونہی اللہ والوں کا شہر نہیں کہا جاتا۔

ضرورت مند کوئی خواہش لے کر لاہور آجائے تو پھر وہ بھوکا نہیں رہتا۔ جب سے ٹیلی وژن چینلز کثرت سے شاندار پروگرام دکھانے لگے ہیں‘ ان کی وجہ سے بھی کافی رونق لگی ہے۔ اینکر حضرات اپنے چینل کے بیرونی دروازے پر ملتجی صورت بنائے ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی ”ماہرِ مذاکرہ‘‘ نظر آتا ہے‘ وہ گرم جوشی سے آگے بڑھ کر‘ اسے اپنی طرف بلاتے ہیں۔ بغل گیر ہو کے اس کے کان میں کہتے ہیں ”مذاکرے کی حاضری مکمل ہے۔ صرف ایک کرسی خالی ہے‘ تشریف لائیے اور جو آپ کے دل میںآ تی ہے‘ اگل دیجئے۔ پاکستان بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اگر آپ کے پاس پھر بھی کوئی موضوع نہیں تو میں آپ کو پانچ سات کارڈ دے دوں گا۔ جس موضوع پر دل چاہے‘ بول دیجئے گا‘‘۔ اینکر کے نرغے میں آیا ہوا مہمان‘ جب خارجی دروازے کے قریب آتا ہے تو جیب سے دو ہزار روپے کا نوٹ نکالتے ہوئے کہتا ہے ”بالکل تکلف نہ کریں۔ یہ تو میری خوش نصیبی ہے کہ آپ مجھ جیسے ناچیز انسان سے‘ یہ معمولی سی رقم قبول کر لیں گے‘‘۔ اینکر ٹھنڈی سانس لیتا ہے۔ اسی لمحے نیا مہمان جیب سے ایک کارڈ‘ اینکر کو دے کر عاجزی سے کہتا ہے”میرا ٹیلی فون نمبر‘ جب دل چاہے یاد فرما لیجئے گا‘‘۔

کچھ غیرت مند نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیرون ملک‘ محنت مزدوری سے کما کر نہ صرف گزر اوقات کرتے ہیں بلکہ اتنا کما لیتے ہیں کہ واپس آکر میرپور کے بازار میں شاپنگ کرتے ہیں لیکن ایسے شاندار مواقع ہر کسی کو نہیں ملتے۔ بیرونی ملکوں میں اپنی ہنرمندی اور محنت کشی کے جلوے دکھانے کی بھر پور خواہشیں لئے نوجوان‘ جس ایجنٹ کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوتا ہے‘ اس کے سامنے اپنی بے تاب خواہشیں دھڑا دھڑ بیان کرنے لگتا ہے۔ ایجنٹ اس نوجوان کو اپنے دفتر لے جاتا ہے اور سب سے پھرتیلا ایجنٹ‘ غرض مند نوجوان سے پوچھتا ہے ”باہر جانا ہے؟‘‘

”جی ہاں! لیکن کسی اچھے ملک میں بھیج دیں۔ آپ کے کرائے اورخرچ‘ اخراجات کی رقم‘ میں نے آپ کے دفتر میں ہی دے دی ہے۔ اب مجھے بیرونِ ملک بھیج کر سب گھر والوں کی دعائیں لیں‘‘۔

”تم فکر نہ کرو۔ ادھر تم نے ساحل پر پیر رکھا اور ادھر ہمارا بندہ ‘ تمہیں لے کر لندن پہنچ جائے گا اور ساحل کی کچی ریت پر چلتے چلتے‘ سمندر کے پانی تک پہنچتا ہے۔ وہاں سے پانی کے اندر چلتے ہوئے ولایتی کشتی پر بیٹھ جانا ہے‘‘۔ اس چھوٹی سی کشتی پر سینکڑوں آدمی لاد لئے جاتے ہیں۔ اور پھر اگلے دن روزگار کے متلاشی پاکستانیوں کے سمندر میں ڈوبنے کی خبریں آنے لگتی ہیں۔ میں نے پہلے ہی بتایا تھا حلال ہو یا حرام‘ پاکستان میں سب کچھ ملتا ہے۔ اب تو سمجھدار ایجنٹوں نے بہت سے اڈے قائم کر لئے ہیں۔ وہ کام کاج کی تلاش میں بے تابی سے ادھر ادھر دیکھتے نوجوانوں سے پوچھتے ہیں۔ ”نوکری ڈھونڈنے آئے ہو‘‘؟

”جی! لیکن میں باہر نہیں جائوں گا۔ میرے سارے ساتھی سمند رمیں ڈوب گئے ہیں۔ مجھے بے ہوشی کے عالم میں خدا جانے کس نے بچایا؟ مگر اب سمندرکے راستے باہر نہیں جائوں گا‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے