آپ کو علم ہے کہ میں ملک کی سلامتی سے متعلق کاموں کے علاوہ فلاحی کاموں میں بھی بہت متحرک رہا ہوں اور کئی ادارے اس مقصد کے لئے قائم کئے ہیں۔ میری زیادہ تر توجہ علاج و معالجہ اور تعلیمی اداروں پر رہی ہے۔ آج کل میں اپنے پیارے ساتھی جناب شوکت ورک، جناب حسین احمد شیرازی، جناب انصر جاوید، ڈاکٹر سعید (سابق چیئرمین شیخ زید اسپتال)،ڈاکٹر سعید اِلٰہی صدر ہلال احمر پاکستان اور دوسرے مخیر حضرات کی مدد سے لاہور میں ایک 300 بیڈ کا فلاحی ا سپتال تعمیر کرا رہا ہوں۔ اس سے پہلے ہم نے عوام کو فوری علاج کی سہولت کی خاطر ایکOPD اور ایک ڈائلیسس سینٹر قائم کیا ہے جہاں پچھلے تین سال میں ساڑھے تین لاکھ مریضوں کو علاج کی سہولت دی گئی ہے۔ یہ مفت علاج فراہم کرنے کا فلاحی ادارہ ہے۔
پاکستان کے لوگ بے حدمخیر ہیں اور فلاحی کاموں میں دنیا میں سب سے زیادہ مالی مدد دیتے ہیں۔ ایک ایسا ہی اعلیٰ ادارہ اسلام آباد میں شفاء انٹرنیشنل اسپتال ہے۔ یہاں نہایت جدید اور اعلیٰ علاج کی سہولتیں ہیں، یہاں بڑی تعدادمیں غریبوں کو مفت علاج کی سہولت حاصل ہے۔ اس ادارے کے سربراہ نہایت قابل اور تجربہ کار ڈاکٹر منظور الحق قاضی ہیں اور اسپتال کے ساتھ ایک نہایت جدید یونیورسٹی بنا دی گئی ہےاس اسپتال میں بڑی تعداد قابل ماہرین کی ہے اور خاص طور پر قلبی امراض کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن ہیں۔ میں نے خود کئی بار وہاں ٹیسٹ وغیرہ کرائے ہیں اور علاج کرایا ہے۔
اپریل 2004 میں اس اسپتال میں مشہور و قابل پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر اور ڈاکٹر سید نیرّمحمود اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کڈنی انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔ انہوں نے گردوں کی بیماری کے ڈیڑھ لاکھ مریضوں کا کامیابی سے علاج کیا اور جن میں 90 فیصدی کا مفت علاج کیا گیا۔
ملک میں گردے اور جگر کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور کراچی اور اسلام آباد میں قائم کردہ طبی سہولتیں ناکافی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر ایک فقیدالمثال مسیحا ہیں۔ پچھلے چند سال سے ہمارے اخبارات گردوں اور جگر کے بیماریوں کی تکالیف اور دکھ درد سے بھری حکایات بیان کرتے رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر اور ان کے ساتھیوں نے مریضوں کو ایک اعلیٰ سہولت مہیا کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے پنجاب کے متحرک اور کام کرنے والے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ لاہور میں ایک اعلیٰ اسپتال گردوں اور جگر کے علاج کے لئے قائم کیا جائے تاکہ مریض ہندوستان اور دوسرے بیرون ملک جانے کی تکلیف و مصارف سے بچ سکیں۔ قدرت جب نیک کام کرانا چاہتی ہے تو حکمرانوں کی رہنمائی کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اللہ پاک نے مرحوم بھٹو صاحب کے دل میں میرا ایٹم بم بنانے کا مشورہ قبول کرنے کا ارادہ ڈال دیا تھا۔
14 اگست 2015 پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر (PKLI&RC) کی بنیاد ڈالی گئی۔ اتنی بڑےپروجیکٹ کی تکمیل مرحلہ وار طور پر کی جاتی ہے۔ 25 دسمبر 2017 کو اس کا پہلا حصّہ مکمل ہوگیا اور اس نے کام شروع کردیا اور ہزاروں مریضوں کا علاج شروع ہوگیا۔
اس میں متعدد اہم سیکشن ہیں اور ایک لحاظ سے یہ صرف گردے اور جگر کا اسپتال نہیں ہے بلکہ دوسرے امراض کا بھی علاج کرتے ہیں کیونکہ گردوں اور جگر کی بیماریوں کا دوسرے امراض سے قریبی تعلق ہے۔ جب یہ سہولت تکمیل کو پہنچ جائے گی تو یہاں 800 بستروں پر مشتمل سہولت ہوگی اس میں ایمرجنسی، نہایت ضروری سہولت (ICU) اور 100 بستروں پر مشتمل باہری سہولت برائے گردوں کی صفائی اور جگر کے علاج کی ہو گی۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر نے برسوں امریکہ میں پریکٹس کی ہے اپنے کام میں ماہر ہیں۔ پُرخلوص و ایماندار ہیں مذہب سے رغبت رکھتے ہیں۔ امریکہ میں تجربہ کی بنیاد پر انہوں نے اس اسپتال کی تعمیر کی ہے۔ اس میں نہ صرف مریضوں کے علاج کا لحاظ رکھا گیا ہے بلکہ ایک نہایت خوشگوار ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ پچھلے دنوں جب میں اپنے اسپتال کے سلسلے میں لاہور گیا تو اُنہوں نے مجھے خوش آمدید کہا ۔ یہ دورہ روح پرور تھا۔
مجھے فوراً اپنےادارے کی یاد آگئی جب بھی کوئی وہاں آیا تو ہکّا بکّا رہ گیا کہ یہ واقعی پاکستان تھا۔ مجھےبھی یہی احساس اس اسپتال کو دیکھ کر ہوا۔ ایسے ادارے ملک کو 21 ویں صدی میں لیجاتے ہیں ۔ اس سے پیشتر جب میں نے پنڈی میں RIC (امراض قلب کا اسپتال) کا دورہ جناب حنیف عباسی کے ساتھ کیا تھا تو یہی جذبات تھے اور اپنے کالم میں اس کا اظہار کیا تھا۔مجھےیقین ہےکہ تعلیمی و میڈیکل سینٹر جو میں نے بنائے ہیں ان کی خاطر یقینا ًاللہ رب العزّت ضرور میری مغفرت فرمائے گا اور مجھ پر رحم کرے گا۔ اور یہی میں حکمرانوں (خاص کر شہباز شریف صاحب کے بارے میں کہونگا)کہ اگر وہ حقوق العباد کا خیال رکھیں گے اور اچھے تعلیمی و میڈیکل ادارے قائم کرینگے تو یقیناً اللہ رب العزّت ان کی بہت سی غلطیاں، گناہ، جرائم معاف کردے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر اور ان کے رفقائے کار کو وہی فائدہ حاصل ہے جو مجھے تھا یعنی برسوں کا غیرممالک میں تجربہ اور ذاتی تعلقات۔ میری جگہ کوئی اور شخص قیامت تک پاکستان کو یہ صلاحیت نہیں دے سکتا تھا۔ایسے بڑے اسپتال یا ادارے چلانے میں بہت مصارف آتے ہیں ۔
یہ ادارہ اصحاب استطاعت سے پوری فیس لے گا مگر تقریباً 75 فیصد مریضوں کوفیس میں کمی دے گا اور غریب مریضوں کوبالکل مفت علاج مہیا کرے گا۔ اس پروگرام کا مقصد صرف لاہور کے مریضوں کا خیال رکھنا نہیں ہے بلکہ ان کا ارادہ ہے کہ پنجاب کے 25 اضلاع میں کلینک کھولے جائیںجبکہ 22 اضلاع میں یہ کلینک کھولے جا چکے ہیں اور بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ اب تک ایک لاکھ سے زیادہ مریضوں کی جانچ پڑتال یعنی اِسکریننگ ہوچکی ہے۔ جب میں وہاں گیا ہزاروں مریض علاج کرارہے تھے ان کواچھی سہولیات حاصل تھیں۔ ان کلینک کے ذریعے یہ ادارہ تقریباً 3000 مریض دیکھتا ہے اور علاج و ادویات مہیا کرتا ہے۔پاکستان کوشش کررہا ہے کہ 2030 تک ملک کو ہپاٹائیٹس (یعنی جگر کی سوجن یا یرقان؟) سے پاک کردیا جائے۔ یہ بہت مشکل کام ہے مگر ہم سے کم ترقی یافتہ اور غریب ملکوں نے یہ ہدف حاصل کرلیا ہے۔ اُمید ہے کہ اب اس اعلیٰ ادارے کی سرپرستی میں ہدف حاصل ہوجائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر اور ان کے سینئر رفقائے کار غیرممالک سے اعلیٰ ماہرین حاصل کررہے ہیں ترجیح پاکستانی تارکین وطن کو دی جائے گی لیکن غیرملکی ماہرین کو بھی کنٹریکٹ پر لیا جائے گا تاکہ وہ ہمارے ڈاکٹروں کی رہنمائی کریں اور ریسرچ کا معیاربڑھائیں۔ ڈاکٹر سعید اختر مجھے بتلا رہے تھے کہ اس نہایت بڑے اور اعلیٰ اسپتال کے ساتھ ایک اعلیٰ یونیورسٹی بھی بنائینگے۔ یہ بہت احسن اقدام ہے، اسپتالوں کے ساتھ یونیورسٹی کا قیام اشد ضروری ہے کہ وہاں طلبہ کو مریضوں کی وجہ سے اعلیٰ ریسرچ کے مواقع مل جاتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ یہی رواج ہے۔ دوسرے تعلیمی اداروں کے کارندوں اور طلبہ کو بھی یہاں تجربہ حاصل کرنے کا بہترین موقع ملے گا۔
ہمارے ملک میں عوام حکمرانوں کے جھوٹے وعدوں اور دعوئوں کی وجہ سے کسی بھی اچھے کام کے بارےمیں قدرتی طور پر شکوک کا اظہار کرتے ہیں یہی حال اس اعلیٰ ادارے کے بارے میں ہے۔میں تمام اہل دانش و عقل و فہم سے درخواست کرونگا کہ وہ پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر اور ان کے محب وطن رفقائے کار پر بھروسہ کریں اور ان کو اپنی صلاحیت ثابت کرنے کا موقع دیں۔ اگر بھٹو صاحب مجھے اجازت و سہولت نہ دیتے تو آج ملک ایٹمی طاقت نہ ہوتا۔