طیبہ تشدد کیس: سابق جج اور ان کی اہلیہ کو ایک سال قید اور جرمانے کی سزا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کے مقدمے میں سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو ایک، ایک سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔

طیبہ نامی اس ملازمہ پر تشدد کا واقعہ دسمبر 2016 میں سامنے آیا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج عامر فاروق نے منگل کے روز اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مجرمان کمسن ملازمہ پر جسمانی تشدد میں ملوث پائے گئے ہیں۔

مجرمان کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کر لیا گیا جبکہ مجرم راجہ خرم علی کے وکلا نے اس عدالتی فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

عدالت نے مجرمان کو گھریلو ملازمہ پر تشدد اور 12 سال سے کم عمر بچے سے جبری مشقت کروانے کے جرم میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 328 کے تحت سزا سنائی ہے۔ اس قانون میں زیادہ سے زیادہ سزا سات سال ہے۔

طیبہ اپنی والدہ کے ساتھ احاطہ عدالت میں

اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل طارق محمود جہانگیری کے مطابق اس سزا کے بعد راجہ خرم علی دوبارہ اپنی نوکری پر بحال نہیں ہوسکتے. اُنھوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی پہلے ہی مجرم راجہ خرم علی کے خلاف تحقیقات کرر ہی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کمیٹی عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہی تھی جو اب آگیا ہے جس کے بعد جلد ہی انتظامی کمیٹی اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔عدالت نے رواں برس 27 مارچ کو اس مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو منگل کو سنایا گیا۔

چیف جسٹس کے حکم پر تشدد کا شکار ہونے والی طیبہ کو سویٹ ہوم بھجوایا دیا گیا تھا اور وہ اب بھی وہیں قیام پذیر ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جب فیصلہ سنایا تو کمسن طیبہ یا ان کے والدین کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے۔ طیبہ پر تشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ میں پیش آیا تھا اور تھانہ آئی نائن کی پولیس نے 29 دسمبر کو سابق ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم کے گھر سے طیبہ کو تحویل میں لے کر تشدد کے واقعے میں ملوث دونوں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا۔راضی نامہ سامنے آنے پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا.

تین جنوری 2017 کو اس مقدمے میں اہم موڑ اس وقت آیا جب طیبہ کے والدین کی جانب سے راجا خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کرنے کی اطلاعات سامنے آئیں اور اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے جج نے اس راضی نامے پر ملزمان کی ضمانت منظور کی۔ تاہم راضی نامہ سامنے آنے پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے طیبہ کو بازیاب کروا کے پیش کیا جبکہ عدالتی حکم پر 12جنوری 2017 کو راجا خرم علی خان کو بطور جج کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

بعدازاں چیف جسٹس آف پاکستان نے مقدمے کا ٹرائل اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوادیا تھا جہاں 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اس مقدمے میں مجموعی طور پر 19 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں 11 سرکاری جبکہ طیبہ کے والدین سمیت 8 غیر سرکاری افرادشامل تھے۔ اس مقدمے میں سرکاری وکیل اور ایڈوکیٹ جنرل طارق محمود جہانگیری نے دلائل میں کہا تھا کہ جو بھی گواہان پیش ہوئے ہیں ان کے ملزموں کے ساتھ نہ تو کوئی دشمنی ہے اور نہ ہی وہ کمسن طیبہ کی حمایت میں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ گواہان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو ملزم راجہ خرم علی کے ہمسائے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے