گزشتہ کالم کا عنوان تھا’’عام آدمی کون اور کیا چاہتا ہے؟‘‘ اس پر انتہائی دلچسپ ردعمل ان فرمائشوں کی شکل میں سامنے آیا کہ میں ان دو موضوعات پر بھی روشنی ڈالوں کہ …………..
:1صحافی کون اور کیا چاہتا ہے؟
:2سیاستدان کون اور کیا چاہتا ہے؟اپنے شعبہ میں میرے تعلقات پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ اسکول، کالج، یونیورسٹی کے دوستوں سے ہی کبھی فرصت نہیں ملی، جو چند شناسائیاں ہیں، اس موضوع پر قلم ا ٹھانے سے وہ بھی جاتی رہیں گی اس لئے فی الحال اس موضوع پر اکتفا کرتا ہوں کہ’’سیاستدان کون اور کیاچاہتا ہے؟‘‘ پہلی بات یہ کہ سیاستدان تو پیک دان، راکھ دان ٹائپ لگتا ہے۔ اصولاً اس کے لئے ’’سفارتکار‘‘ کی طرح’’سیاست کار‘‘ کی اصطلاح ہی استعمال ہونی چاہئے لیکن ہم مستعمل اور پاپولر لفظ سیاستدان ہی استعمال کریں گے اور جب کریں گے تو اس سے ہماری مراد پاکستانی سیاستدان ہوگا۔ یہاں فٹ نوٹ بھی ضروری ہوگا کہ متمول، مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں بھی سیاستدان کوئی زیادہ باعزت شے نہیں کیونکہ عوام ان کو لیڈر کم اپنا چاکر زیادہ سمجھتے ہیں۔ سیاست اور سیاستدانوں سے متعلق ایسا ایسا لطیفہ ہے کہ بندہ توبہ توبہ کر اٹھے۔ اہل مغرب کے اپنے سیاستدانوں کے بارے میں چند بے ضرر سے جملے پڑھ لیں، آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ وہ ان کےبارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔
"The trouble with being a politician is that you canʼt be sure whether people are following you or chasing you”.یعنی فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ لوگ ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں یا چور سمجھ کر ان کا پیچھا یا تعاقب کرتے ہیں جیسے ہمارے ہاں عوام آج کل ایک چور کو دیکھنے جاتے ہیں، ایک ٹکٹ میں دو دو مزے لیتے ہیں۔ذرا اس پر بھی غور فرمائیں”The world would be happier if its politicans had more vision fewer nightmares”.پاکستانی سیاستدان کا تو حال ہی کوئی نہیں۔ تعلیم یافتہ بھی ہوں تو ان پڑھ اور جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھا لکھا بھی ہو وہ حسین حقانی یا مشاہد حسین نکل آتا ہے۔ یہ ایک ایسی عجیب و غریب مخلوق ہے جو بے تحاشہ بےعزتی کے عوض تھوڑی سی عزت پانے کو کامیابی سمجھتی ہے۔
بہت سوں کے نزدیک سیاست کا’’مرکزی خیال‘‘ ہی صرف یہ ہے کہ دولت کے بل بوتے پر طاقت حاصل کی جائے اور پھر اس طاقت کے بل پر مزید دولت سمیٹی جائے ،علیٰ ہذا القیاس۔ کچھ کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر چند لوگوں کی تین شفٹوں میں خوشامد کے بعد لاکھوں لوگوں کی نمائندگی بٹور کر اقتدار کی ایک شفٹ لگ جائے تو اس سے نفع بخش کاروبار کوئی نہیں۔ ایک کی خوشامد، لاکھوں کی نمائندگی!۔پاکستان میں جتنے لوگ مختلف ایوانوں میں گھسنے کے لئے دیوانوں کی طرح صوبائی، مرکزی و دیگر(سینیٹ وغیرہ) کے میدانوں میں اترتے ہیں، مختلف قسم کے چڑھاوے چڑھاتے اور قربانیاں دیتے ہیں، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیڈر شپ کی خوشامد،ذ کروڑوں کے اخراجات، در در کے دھکے، ناگوار جوڑ توڑ….تو کیا یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں میری آپ کی فلاح و بہبود کا شوق ہے؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو یہ سارے تو عبدالستار ایدھی اور مدر ٹریسا کے بھی مائی باپ ہیں تو پھر مجھ جیسا احمق یہ سوچتا ہے کہ ان ہزاروں ایدھیوں اور ٹریسائوں کے ہوتے ہوئے وطن اور اہل وطن کی یہ حالت کیوں ہے کہ ہر جگہ سے سوا ستیاناس کی خبریں ہیں۔ نظام کے اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ ’’سرے محل‘‘ سے’’پاناما‘‘ تک پہنچتے پہنچتے جوتے کیا پائوں بلکہ ٹانگیں بھی گھس گئیں۔’’تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا‘‘۔سیاستدانوں کی ا یک اور قسم بھی بہت معروف ہے۔
ملکی سیاست میں نقب لگانے سے پہلے یہ سٹوڈنٹ لیڈر رہے ہوتے ہیں اور ویگنوں سے بھتے لے کر کام چلاتے ہیں۔ ان کے جڑواں وہ کن ٹٹے ہوتے ہیں جنہوں نے ٹریڈ یونینز میں تربیت حاصل کی ہوتی ہے اور پھر زندگی بھر بے غیرتی کے VIPہول سیلرز بن کر عوام کی شہ رگوں میں اپنے غلیظ دانت پیوست کئے رکھتے ہیں۔سچ سچ بتائیں پاکستان میں کون سا پیشہ ایسا ہے جس میں لوگوں کی دولت کو ایسی ضربیں لگتی ہوں؟ دس سال ہوگئے اس بے غیرت نام نہاد جمہوریت کو جمہور یعنی عوام کی گردنیں ناپتے اور خون پیتے….. کیا تبدیلی آئی؟؟ اگر کوئی بہتری اور جوہری تبدیلی آئی ہے تو میں بکواس کررہا ہوں لیکن اگر یہ غلط ہے تو سوچو صحیح کیا ہے؟سیاست حقیقت ہے، سیاستدان بھی حقیقت ہے اور سیاستدان کا متبادل صرف سیاستدان ہی ہوسکتا ہے تو پھر رستہ کیا بچتا ہے؟ سوائے اس کے کہ بہتر سیاستدانوں کے لئے رستے ہموار کرو جو ووٹ کی عزت کے ڈرامے رچانے کی بجائے ووٹر کی عزت کو اپنی عزت سمجھیں۔ سیاستدان کون؟ وہ جسے نہ وطن کی پروا نہ اہل وطن کی….اور چاہتا کیا ہے؟ ملکی وسائل کی بلا روک ٹوک لوٹ مار اور پروٹوکول۔بھٹو تک ہمارا سیاستدان چور ڈاکو لیٹرا نہیں تھا کہ بھٹو کی کابینہ پر کبھی کسی کی انگلی نہ اٹھی۔ ضیاء الحق بھی ذاتی مالی طور پر صاف ستھرا تھا لیکن اس نے ایسے تاجر اور تجارت سیاست میں متعارف کرائی کہ قوم آج تک یہ عذاب بھگت رہی ہے۔