منہ پھیر کے گزرنے کا وقت نہیں

پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں ننھی اور معصوم بچیوں کا ریپ مشترکہ گناہ ہے۔ اس گناہ کا ہدف بننے والی کسی معصوم بچی کو پتہ نہیں ہوتاکہ اسے ہدف کیوں بنایا گیا؟اس سوال کا جواب اسے آخری دم تک نہیں ملا ہو گا۔ ایک ایسا ہی سانحہ بھارت کے گائوں کٹھوا میں پیش آیا‘جسے ایک لڑکی انورادھا رائے نے اردو جریدے ”ہمارا سماج‘‘ میں لکھا۔

”اس طرح کے پاگل پن اور درندگی کے عالم میں ہمارا پورا وجود ساکت ہو جاتا ہے۔ ایک مایوسی بھرا سناٹا اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے مگر پھر ایک مقام وہ بھی آتا ہے‘ جہاں یہی مایوسی ایک خوف ناک غصے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہم میں سے جو لوگ ہندو گھروں میں پیدا ہوئے ‘ ان میں سے کتنے لوگ ہوں گے؟ جن کے رشتہ داروں میں کم سے کم ایک دو لوگ ایسے نہ ہوں جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہوں؟ہم میں سے کتنے ایسے ہوں گے جن کے دوستوں ‘ جو ظاہری طور پر بہت اخلاص اور انسانیت پسند دکھائی دیتے ہیں‘ نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی وحشیانہ بد اخلاقی پر آنکھیں نہ موند لی ہوں۔کیا وہ سارے رشتہ دار اور دوست‘ اپنی نگاہ اور نظریہ اب بھی نہیںبدلیں گے؟ جبکہ یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ جن کو انہوں نے اپنا ووٹ دے کر جتایا تھا‘ وہی آج آٹھ سال کی ایک ننھی بچی سے ریپ کرنے والوں اور قاتلوں کی حمایت میں سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ کیا اب بھی وہ یہ دیکھنے سے چوک جائیں گے کہ اتنی چھوٹی عمر کی لڑکی ‘ہندو ہوتی ہے نہ مسلمان۔وہ صرف ایک معصوم بچی ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں انسانی سماج نے مان لیا تھا کہ فاتح فوجوں کی زیادتی اور وحشی سلوک کا زمانہ اب لد چکا۔ دو دہائی بعد نازیوں کے سیاہ سائے کے ابھرنے سے پہلے‘ پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کا قیام‘ ہم سب کے لئے ایک راحت کا سبب تھا۔راحت اس یقین کی کہ اب مہذب اور پر امن زندگی ہی پوری انسانیت کی تقدیر ہو گی۔ میں جس بھارت میں پیدا ہوئی۔ پلی بڑھی۔ اس کے اوپر سے استحصال کی بنیاد پر ٹکے برٹش سامراج کا پرچم اتر چکا تھا۔ یہ نہرو کے بعد کا زمانہ تھا۔ یہ ایک ایسا ملک تھا جہاں مفروضے تھے اور سماج وادی خواب فضا میں تیر رہے تھے۔ فسادات تب بھی ہوتے تھے۔ ملک تب بھی دہل جاتا تھا۔ پھر بھی کل ملا کر اس بات پر ایک چوطرفہ رضامندی بن گئی تھی کہ ریاست اور عدلیہ‘ ان مغربی اداروں کی روایتوں پر ایمانداری سے عمل کریں گے جن کے سانچے میں وہ ڈھلے ہوئے تھے۔

90ء کی دہائی میںمجھے پورا یقین رہا کہ وہ عہد وسطی کی زیادتی اب قصہ پارینہ ہوئی۔ اب سیاسی دشمنوں کو زہر نہیں دیا جائے گا۔ ایک فاتح فوج کی جیت کی نشانی کے طور پر عورتوں اور بچوں کی لاشوں کے انبار نہیں لگائے جائیں گے۔میرا یہ بھرم تب ٹوٹا جب ہمارے دیکھتے دیکھتے کانگرس پارٹی‘ بد عنوانی میں ڈوبتی چلی گئی اور بابری مسجد کی توڑ پھوڑ پر بھی‘ اس نے چپ چاپ آنکھیں پھیر لیں۔ اپنی بھاری بھرکم انتخابی کامیابیوں کے تانگے پر سوار اور جمہوری طریقے سے چنی گئی ہندو شدت پسند سیاسی فوج نے‘ میرے اس اعتماد کو پوری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا‘جب کٹھوا میں معصوم بچی کے ساتھ ہوئی زیادتی کی خبر یں آنے لگیں۔ اس وقت میں ایک فلائٹ پکڑنے جا رہی تھی۔ رہ رہ کر میرے اندر ایک کراہ اٹھتی تھی۔ اس وقت وہ وحشی‘ اس معصوم بچی کے گلے میں نشے کی گولیاں ٹھونس رہے ہوں گے ‘جب میں اپنے لئے ٹوسٹ سینک رہی تھی۔ وہ اس بچی کو اپنی ہوس اور درندگی کا شکار بنا رہے ہوں گے۔ وہ بالغ عقلمند مرد‘ باری باری اس بچی کے جسم کو اپنی ہوس سے زخمی کر رہے ہوں گے۔ جب میں ایئرپورٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی‘ اس کا سر پتھروں پر پٹخا جا رہا ہوگا۔ مندر میں اس کا ریپ ہو رہا ہو گا۔ وہیں انہوں نے معصوم کلی کو بستر کے نیچے چھپایا ہو گا۔ آخر میں اسی کے کپڑوں سے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو گا۔

اس کے بعد وہی وحشی درندے معصوم بچی کی تلاش کے لئے‘ نکلے دستے کا حصہ بھی بنے ہوںگے۔وجہ ‘ پولیس والے تھے۔اس کے بعد کشمیر کے وکیل سڑکوں پر اتر آئے تاکہ پولیس والوں پر ریپ یا اس میں شامل ہونے کا الزام نہ لگ جائے۔بہت ساری عورتیں بھی کھل کر ریپ کرنے والوں کی حمایت میں اتر آئیں۔ کیونکہ یہ مرد ہندو تھے اور جس بچی کا گینگ ریپ کر کے‘ اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ‘وہ ایک مسلم گڈریے کی بیٹی تھی۔اس طرح کے پاگل پن اور درندگی کے عالم میں ‘ہمارا پورا وجود ساکت پڑ جاتا ہے۔ نربھیا کے ریپ کے بعد دلی میں بے مثال سناٹا پسر گیا تھا‘ مجھے یاد ہے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ‘ سکھوں کے قتل عام کے وقت پھیلی ملک گیر دہشت بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔آج ویسی دہشت نہیں ہے۔

میں حیدر آباد کے ایک مسلم اکثریتی سکول میں پڑھی ہوں۔ میرے بچپن کی زیادہ تر سہیلیاں مسلمان تھیں۔اس عمر میں مجھے اپنے اقلیتی ہندو پن کا کوئی علم ہی نہیں تھا اور نہ ہی میری سہیلیوں کو۔سیاست دانوں کا بکائو پن‘ ان سے نا امیدی روزمردہ کی بات ہے۔ اس بچی کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک ننھی بچی‘ جو روزانہ اپنی فیملی کے مویشیوں کو ہانک کر واپس لانے کے لئے نکلی تھی اور کبھی نہیں لوٹی۔ اس کو نشے کی دوائیاں دی گئیں۔ اس کو قید کر لیا گیا۔ ہفتے بھر تک اس کے ساتھ بار بار ریپ کیا گیا۔ لمبے وقت تک میں اپنے آپ کو یہ سمجھاتی رہی کہ میری سب سے بڑی اچھائی‘ اسی میں ہے کہ میں اپنا کام پوری توجہ سے کرتی رہوں۔ کیا میرا ایسا سوچنا ایک سچ تھا؟ یا یہ اس طریقے سے جیتے چلے جانے کی اپنی چاہ کو جائز ٹھہرانے کا ایک طریقہ۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ دوسرے قلم کار بھی کم و بیش یہی کہہ رہے ہیں‘ لکھنے والے کا کام ہے لکھنا اور لوگوں کو سوچنے کے لئے خوراک دینا‘ جس سے پڑھنے والوں کی دنیا بدل جائے۔

میں ایک چھوٹے سے پہاڑی قصبہ میں رہتی ہوں ۔ نو سال کی ایک لڑکی انگریزی سیکھنے میرے پاس آتی ہے۔ اس کا تعلق گڈریا خاندان سے ہے۔ وہ ایک سرکاری سکول میں پڑھنے جاتی ہے۔ معصوم بچی بڑی ہو کر ایکٹرس بننا چاہتی ہے۔ سکول سے لوٹ کر وہ شام کے وقت‘ اپنے مویشیوں کو واپس لانے کے لئے نکل پڑتی ہے۔ اپنے کتوں کے سوا کسی بھی طرح کی حفاظت کے بغیر‘ وہ گھنے جنگلات میں بڑھتی چلی جاتی ہے۔ کچھ دور تک میں بھی اس کے ساتھ جاتی ہوں۔ وہ رک رک کر مگر انگریزی میں بات کرتی ہے۔ بیچ بیچ میں‘ میں اس کے تلفظ اور قواعد کی غلطیوں پر ٹوک دیتی ہوں۔ ایک دوری تک چلنے کے بعد میں لوٹ آتی ہوں۔ وہ اکیلی آگے بڑھ جاتی ہے۔ میری اس ننھی سہیلی کو جنگلی جانوروں کے علاوہ کسی اور کا خوف نہیں‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے