متحدہ مجلس عمل ماضی اور مستقبل

بانیان پاکستان نے مسلمانان ہند کو یہ تصور دیا تھا کہ ہم مدینہ طیبہ کے طرز پر اپنا الگ ملک بنائیں گے جس میں لا الہ الا اللہ کے تحت زندگی گزاری جائے گی اسلامی اخوت صدق وصفا کے ساتھ مسلمان بھائی بھائی بن کر رہیں گے، اور ملک میں اسلامی نظام حکومت واقتصاد کی وجہ سے امن وآمان اور خوشی حالی ہوگی۔

چنانچہ لاکھوں لوگوں نے اپنے گھر بار کو چھوڑ ا ، راستوں میں لٹتے پٹتے ہجرت کرکے اس ملک کو آباد کیا، بڑی قربانیاں دی گئی لیکن وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جس کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا تھا۔

جب نظریہ پاکستان کے حاملین نے دیکھا کہ ملک غلط ڈگر پر جار ہا ہے تو ان میں تشویش پیدا ہوئی اور ملک کو اپنی پٹری پر لانے کا جذبہ پیدا ہوا تو ملک میں مذہبی جماعتیں نظریہ پاکستان کے لیے متحرک ہوئیں ۔
ان جماعتوں نے سیاسی سفر کا آغاز کیا ، سب سے پہلے اپنےمشن میں ان کو یہ کامیابی ملی کہ انہوں نے بائیس نکات پیش کیے جس کی روشنی میں ملک آئین سازی ہوئی اور پاکستان کو آئینی طور اسلامی تشخص مل گیا ۔

پاکستان کا اشرافیہ زیادہ تر عالمی قوتوں سے خوف اور طول اقتدار کے مفادات کی وجہ سے دباؤ میں رہا ہے عالمی قوتوں کی جانب سے ملک کی آئین میں تبدیلی کے مطالبہ ہوتے رہے اور یہ تبدیلی ہوبھی جاتی اگر مذہبی طبقات اور مذہبی جماعتوں کا پریشر نہ ہوتا۔

اس پورے عرصہ میں مذہبی جماعتیں اپنی عددی قلت کی وجہ سے ملک میں اسلامی اصول کے مطابق نظام عدل قائم نہ کرسکیں تھی، ازیں خاطر ان مذہبی قوتوں نے دو ہزار دو میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا تاکہ سیاسی قوت حاصل کرکے اس ملک میں نظام عدل کا قیام ممکن ہوسکے اور پاکستان ایک اسلامی رفاہی اسٹیٹ بن سکے۔

چنانچہ جس وقت مجلس عمل بنی اس وقت امریکہ افغانستان پر قابض ہوچکا تھا اور پاکستان کو بجبر اس جنگ میں جھونگ دیا تھا، ملک میں انتشار کی کیفیت تھی پاکستان میں ایک فوجی آمر کی چھڑی ہر وقت نظر آتی تھی، بیرونی دباؤ زیادہ تھا، مذہبی قوتیں بیک فٹ پر تھی، اس نامساعد حالات کے باوجود 2002 کے الیکشن میں مجلس عمل نے شرکت کی اور قومی اسمبلی کے 342 سیٹوں میں سے 63 سیٹیں حاصل کی، کے پی کے میں 28 بلوچستان میں 6 سندھ میں 5 اور پنجاب میں 3 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔

مرکز پر بیرونی دباؤ اور اندرونی قوتوں کی مخالفت کے باوجود بحیثیت مجموعی ایم ایم اے نے کامیاب حکومت کی لیکن افسوس کہ ہمارے اداروں نے اس کی قدر نہیں کی بلکہ الٹا ان کے خدمات کو چھپا کر میڈیا سے اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرایا ۔ اور یہ پروپیگنڈہ اتنے زور کا تھا کہ مجلس عمل کی تمام کارکردگی صفر دکھائی دینے لگی۔

ذیل میں صرف کے پی کے حکومت کی کارکردگی کی طرف اختصارا اشارہ کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں اور حقیقت جانیں:

1- دار الکفالہ :
ملک میں فقیروں اور نشہ کرنے والے بے گھر افراد کے لیے صوبہ بھر میں دار الکفالہ کا قیام عمل لیا گیا تھا اس میں ان کو قیام طعام علاج معالجہ کے علاوہ ہنر مندی سکھائی جاتی تھی تاکہ وہ معاشرہ کا فعال حصہ بنے۔

2- خیبر بینک سے سود کا خاتمہ

سود انسانوں کو نسل در نسل غلام بنانے والی نحوست ہے جس کو قرآن کریم نے حرام قرار دیا ہے، چنانچہ مجلس عمل نے خیبر بینک سے سود کا خاتمہ کروایا اور 20 کروڑ کا سود معاف کیا۔

3- صوبہ میں مفت تعلیم کا انتظام ، کتابوں کی مفت فراہمی، میرٹ کی بنیاد پر 45 ہزار اساتذہ کی بھرتی، جماعت ششم سے دہم تک کے طالبات کے لیے 200 روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کرنا، 44 کالجز کا قیام، جس میں سے 28 خواتین کے لیے ہیں فرنٹیر وومن یونیورسٹی کا قیام وغیرہ۔

4- صحت کی بنیادی سہولیات اور ایمرجنسی میں ادویات کی مفت فراہمی کا انتظام۔

5- ملاکنڈ تھری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ۔

6- آبی ذخائر میں اضافے کے لیے سمال ڈیمز کی تعمیر مثلا چنغوزہ ڈیم ، نریاب ڈیم وغیرہ جس سے 29 ہزار ایکڑ ز زمین کی زراعت ممکن ہوسکی۔

7- پولیس اور جیل خانہ اصلاحات کا نفاذ ، خاص کر پولیس کو رشوت سے پاک کرنے کی کوشش۔

8- 20 اضلاع میں تقریبا 6 سو کلومیٹر سڑکوں کا قیام ۔

9- 12 پلوں کی تعمیر۔

10- کسانوں کو بلا سود قرضے۔

11- پانچ مرلہ اراضی سے ٹیکس ختم کرنا۔

12- مسافروں کے لیے سرکاری مہمان سرائیں۔

13- پیرا پلجیک ہسپتال کی بحالی۔

14- بوسیدہ مندروں اور کلیساؤں کی مرمت۔

15- عظیم الشان جرگہ کا قیام۔

16- حسبہ بل جس میں سپریم کورٹ آڑے آگئی تھی۔

الغرض : بیرونی مخالفت اور مرکز میں حکومت نہ ہونے کے باوجود مجلس عمل نے کافی حد تک کامیاب حکومت کی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بیرونی قوتیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولر لابیز کو آگے لانے کی کوشش میں ہیں ملک میں انہوں نے مغربی تہذیب کو پروموٹ کرنے کے لیے این جی اوز کو بھی ساتھ لگایا ہے چنانچہ ایک مرتبہ پھر مذہبی قوتیں متحدہ مجلس عمل کے نام سے میدان عمل میں ہیں اگر ملکی ادارے روڑے اٹکانے کی بجائے ان کو راستہ دے اور میڈیا پروپیگنڈہ کرانے کے بجائے ان کو مناسب کوریج دے تو مجلس عمل خاطر خواہ کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

کیونکہ مجلس عمل اسلامی نظام عدل کی بات کرتی ہے اور یہی وہ پیغام ہے جس کے لیے اس قوم کے بڑوں نے جان مال عزت کی قربانیاں دی تھی ان کے رگوں انہی آباء کا خون دوڑ رہا ہے لہذا اگر مجلس عمل کے راستے میں نہ آیا جائے تو یہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے