پانچ سو دسواں ہزارہ

حال ہی میں ایک ہزارہ خاتون نے سوشل میڈیا پر شکایت کی کہ اس سے ایک چیک پوسٹ پر غیرمناسب سوالات کیے گئے۔ ٹوئٹر پر موجود آدھے پاکستانی اسے لیکچر دینے لگے کہ ہمیں بھی روکتے ہیں، ہم تو شکایت نہیں کرتے۔ گذشتہ ہفتے کوئٹہ میں ایک ہزارہ دکاندار کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ایسی خبریں پڑھتے پڑھتے اور کچھ ٹوٹی پھوٹی رپورٹنگ کرتے ہوئے مزاج اتنا سنکی ہو گیا ہے کہ نہ مجھے قاتلوں پر غصہ آیا، نہ پولیس پر، نہ فوج پر۔ دل سے صرف یہ نکلا کہ او بھائی تو دکان پر گیا ہی کیوں تھا۔

خبر میں کہیں سرسری سا یہ بھی ذکر تھا کہ گذشتہ پانچ برس میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے 509 افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ یہ تعداد کسی لفافہ صحافی نے نہیں بتائی،نہ ہی یہ اعداد و شمار کسی ڈالر خور این جی او کے ہیں۔ یہ تعداد حکومتِ پاکستان کے قائم کیے گئے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں۔

گذشتہ ہفتے ہی کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا ایک دھرنا بھی جاری تھا کیونکہ اپریل کے شروع میں ہزارہ برادری پر حملہ ہوا تھا۔ مجھے نہیں پتہ کہ پاکستان کے میڈیا نے اس پر کوئی خبر چلائی یا نہیں۔ میں نے صرف سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کے کچھ نوجوانوں کو پوسٹر اٹھائے ہوئے دیکھا۔

اگر سرکاری اعداد و شمار کو درست مان لیا جائے تو گذشتہ پانچ برسوں میں پانچ سو اور اس سے پہلے کے پانچ برسوں میں ایک ہزار سے بھی زیادہ ہزارہ افراد مارے گئے ہیں۔ ہوٹل پر چائے پیتے ہوئے، سکول جاتے ہوئے، دفتر سے واپس آتے ہوئے، اپنی گلی کے سنوکر کلب میں، کبھی کبھی تاک تاک کر اور کبھی بڑے بڑے دھماکے کر کے۔

کبھی کوئی چیف جسٹس نوٹس نہیں لیتا، کبھی ٹی وی پر بیٹھا کوئی دفاعی تجزیہ نگار نہیں سمجھاتا کہ ہمارا کون سا دشمن ہے جو ایک چھوٹی سی برادری کی نسل کشی کے درپے ہے۔ کوئی بتائے گا بھی کیوں کیونکہ پوچھنے والا بھی تو کوئی نہیں ہے۔

کوئی دو برس پہلے میں نے کوئٹہ کے ایک پولیس افسر سے یہی سوال پوچھا تھا۔ اس نے تسلی دی تھی کہ اب حالات وہ نہیں رہے۔ ہزارہ ہمارے لاڈلے بچوں کی طرح ہیں۔ ہم ایک ایک جان کی حفاظت کریں گے۔ پولیس افسر سینئر تھا اور لہجہ پراعتماد۔ مجھے لگا شاید واقعی ہزارہ برادری کی غم کی شام ختم ہونے کو ہے۔ ابھی واپس کراچی پہنچا ہی تھا کہ خبر آئی کہ کچھ ہزارہ جو کوئٹہ کی سبزی منڈی سبزی خریدنے گئے تھے، ہلاک کر دیے گئے۔ تھوڑی دیر بعد اسی پولیس افسر کا بیان بھی آ گیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ سبزی منڈی گئے ہی کیوں تھے۔

ہمیں عادت ہے کہ سیاستدانوں کو، فوج کو، انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اور دہشتگردوں کو دن رات جلی کٹی سناتے ہیں لیکن اجتماعی بےحسی کا یہ عالم ہے کہ برسوں سے ہزارہ نسل کشی کی یہ فلم سلوموشن میں دیکھ رہے ہیں اور کبھی رک کر یہ بھی نہیں پوچھتے کہ کوئٹہ کی علمدار روڈ اور کوہِ مردار کے بیچ میں ایک بستی میں رہنے والی اس قوم کا قصور کیا ہے۔ شیعہ ہونے کے علاوہ ہم ان پر کوئی ڈھنگ کا الزام بھی نہیں لگاتے۔

ہزارہ برادری کے قتلِ عام کے بارے میں جو آخری تفصیلی رپورٹ میں نے پاکستانی میڈیا میں دیکھی تھی وہ ڈان اخبار کے آن لائن ایڈیٹر مرحوم مصدق سانول نے مرتب کی تھی۔ اس کا عنوان تھا، آئی ایم ہزارہ۔ اگر کوئی دلچسپی ہو تو ڈان کی ویب سائٹ پر ڈھونڈ لیجیے گا۔

اس رپورٹ کے چھپنے کے بعد کراچی میں پڑھنے والے کچھ ہزارہ طلبا نے ایک مباحثے کا انتظام کیا۔ (یونیورسٹی کا نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ ہزاروں کے شکاری کبھی کبھی کراچی بھی پہنچ جاتے ہیں) تقریب کے بعد چائے پر کچھ ہزارہ سرکاری ملازمین اور بینکر حضرات نے کہا سائیڈ پر آ جائیں ایک بات کرنی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایک آئیڈیا ہے وہ یہ کہ چونکہ فوج اور پولیس وغیرہ تو ہماری حفاظت کرنے میں ناکام ہیں،کرنا ہی نہیں چاہتے تو ہم سوچ رہے ہیں کہ اسلحہ خریدیں، ایک مسلح تنظیم بنائیں اور اس سے پہلے کہ دشمن ہمارے گھر تک پہنچے ہم اس کے گھر پہنچ جائیں۔ میں نے ان کی بات سنجیدگی سے سنی۔

ہزارہ کو ایک جنگجو قوم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی فوج میں بھی بڑے جری ہزارہ افسر اور جوان رہے ہیں اور یقیناً اب بھی ہوں گے۔ پاکستان میں ایف 16 طیارہ اڑانے والے اولین پائلٹ ایک ہزارہ تھے۔ کارگل کے پہلے شہیدوں میں بھی ایک ہزارہ افسر شامل تھے۔

میں نے چائے پینے والے ہزارہ بابوں سے پوچھا وہ یہ آئیڈیا مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا سول سوسائٹی اس طرح کی تنظیم کی حمایت کرے گی۔ میں نے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ اس ملک میں مسلح تنظیمیں پہلے ہی بہت ہیں آپ کوئی بغیر بندوق کا حل سوچیں۔

کئی برس بعد انڈونیشیا کے ایک قصبے میں سیاسی پناہ کے انتظار میں بیٹھے ایک ہزارہ پولیس انسپکٹر سے بات ہوئی۔ وہ کوئٹہ سے اس لیے بھاگا تھا کہ اس کے پولیس افسر کزن کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ کوئٹہ میں بھی ہمارے کچھ ہزارہ بھائی بندوق اٹھانے کی بات کرتے تھے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ ہمارے آگے فوج کی چیک پوسٹ ہیں اور پیچھے کوہِ مردار۔ کہیں بھاگنے کی جگہ بھی نہیں، کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جاؤ گے۔

شاید وہ ہزارہ جوان صحیح کہتا تھا کیڑے مکوڑوں کی موت پر کیسی خبریں اور کیا تبصرے۔ چند سال پہلے جب ہزارہ ایک سو سے زیادہ کفن رکھ کر بڑے شہروں میں احتجاج کر رہے تھے تو ہمارے اپنے ہی بھائی کہتے تھے یار ان ہزارہ لوگوں نے ٹریفک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے