2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف اور جماعتِ اسلامی کا ساتھ نہیں ہو گا۔ مجلسِ عمل کے احیاء کے بعد یہ واضح ہے۔ سوال یہ ہے کہ پانچ سال کا یہ بندھن تلخی کے ساتھ ختم ہو گا یا خوش گوار یادوں کے ساتھ۔ میں اس ہجر و وصال کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھ رہا ہوں ، لیکن اس کا تذکرہ چند سطروں کے بعد۔ پہلے حالیہ پیش رفت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
جناب سراج الحق کے ایک انکشاف نے اس تعلق میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ انہوں نے ” اوپر والے‘‘ کا ذکر کیا تو بھونچال آ گیا۔ اس بیان کے بعد تحریک انصاف پر منکشف ہوا کہ سراج الحق جھوٹ بولتے ہیں۔ اور یہ کہ جماعتِ اسلامی والے آستین کا سانپ ہیں۔ جماعتِ اسلامی جواباً محتاط رہی۔ سراج الحق صاحب نے اس تاویل کو بظاہر مان لیا کہ ” اوپر والے‘‘ سے مراد ” بنی گالا والے‘‘ ہیں۔
برادرم امیر العظیم نے بھی اپنے جوابی مضمون میں نرم لہجہ رکھا، اگرچہ وہ نواز شریف صاحب کی چٹکی لینا نہیں بھولے۔ سراج الحق صاحب اور جماعتِ اسلامی کے بارے میں تحریک انصاف کے خیالات وہی ہیں یا امیر جماعت کی طرف سے ان کی تاویل مان لینے کے بعد تبدیل ہو گئے ہیں، یہ ابھی تک معلوم نہیں۔
اس تناظر میں دو دلچسپ باتیں اور بھی ہیں۔ ایک خبر یہ کہ جماعت اسلامی نے حکومتی اتحاد سے نکلنے کے لیے سنجیدہ غور و فکر کا آغاز کر دیا ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ جماعت کے وزراء کا ایک وفد پرویز خٹک صاحب سے ملا اور انہوں نے جماعتِ اسلامی کے وزرا کی خدمات کو سراہا۔
یہ سیاست ہے اور سیاست اسی طرح ہوتی ہے ۔ تاویل ہر کسی کے پاس ہے اور یہ حق بھی کہ اسے قبول کرے یا نہ کرے۔ عمران خان نے بھی ” امپائر کی انگلی ‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ اس کی انہوں نے ایک تاویل پیش کی تھی۔ کچھ نے مان لی اور کچھ نے انکار کیا۔ معاملہ گمان کا ہے یا مفاد کا، اس کا تعین آسان نہیں۔ جناب سراج الحق صاحب اور جماعتِ اسلامی والے کیا خلوصِ دل کے ساتھ یہی سمجھتے ہیں کہ ”اوپر والے‘‘ سے مراد بنی گالا والے ہی ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ امیر العظیم نواز شریف صاحب کا ذکر کرتے ہوئے ” اوپر والوں‘‘ کا ذکر ایک اور تناظر میں کر رہے ہیں۔ گویا وہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ” اوپر والا‘‘ کون ہے؟
مجلسِ عمل ایک انتخابی اتحاد ہے۔ جماعت اسلامی کو جمعیت علمائے اسلام کی رفاقت میں آگے بڑھنا ہے۔ ماضی تحریکِ انصاف کے ساتھ، مستقبل جمعیت کے ساتھ۔ سیاست اسی کا نام ہے۔ مجھے اس میں کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی اگر کوئی اخلاقی ضابطہ متاثر نہیں ہوتا۔ بظاہر اس کے شواہد نہیں ہیں۔ اگر جماعت اسلامی یہ سمجھتی ہے کہ اسے اپنے مفادات کی آب یاری کے لیے تحریکِ انصاف کے ساتھ چلنا چاہیے تو وہ اس کا حق رکھتی ہے۔ اگر بطور سیاسی رفیق مولانا فضل الرحمان کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے تو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ تحریکِ انصاف کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک خوش گوار یاد کے ساتھ ختم کرتی ہے تو یہ پاکستانی سیاست میں ایک خوش گوار روایت کا آغاز ہو گا۔
میں اس معاملے کو لیکن ایک اور تناظر میں دیکھ رہا ہوں۔ جماعت اسلامی پانچ سال سے تحریکِ انصاف کے ساتھ ہے۔ جناب سراج الحق کو معلوم ہے کہ دھرنے کے دنوں میں عمران خان کسی امپائر کی انگلی کے اُٹھنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اس سارے عرصے کے دوران میں انہوں نے کبھی اس پر تشویش کا اظہار نہیں کیا کہ تحریکِ انصاف کی سیاست کی باگ کسی ”اوپر والے‘‘ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ ان مراحل پر بھی آگے بڑھتے اور جاوید ہاشمی کی طرح عوام کو اپنی معلومات سے باخبر کرتے۔ افسوس کہ وہ پانچ سال خاموش رہے ۔
پاکستان کے اہلِ سیاست کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی نظامِ اقدار پر اتفاق نہیں کر سکے۔ ”میثاقِ جمہوریت‘‘ کے بعد رویوں میں ایک جوہری تبدیلی آنی چاہیے تھی جو نہیں آ سکی۔ نواز شریف بھی اس میثاق کے تقاضے نہ نبھا سکے۔ یہاں تک کہ تاریخ کا بہاؤ انہیں ایک منجدھار میں لے آیا۔ اب انہیں احساس ہو گیا ہے مگر دیگر لوگ خود کو ابھی عافیت میں سمجھتے ہیں۔ اہلِ سیاست نواز شریف صاحب سے عبرت پکڑنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ بدستور خاموش ہیں اور غلط فہمی میں ہیں کہ حالات ان کے لیے سازگار ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست ایک بار پھر مضطرب ہے۔ ریاستی اداروں کا سیاسی کردار بڑھ رہا ہے۔ ہر کوئی کھلی آنکھ سے دیکھ رہا ہے کہ وہ توازن کس سرعت کے ساتھ برباد ہو رہا ہے جو جدید ریاست کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اس توازن کو اہلِ سیاست بحال کر سکتے ہیں اگروہ اپنی قومی ذمہ داریوں سے باخبر ہوں۔ اس مرحلے پر کسی نواب زادہ نصراللہ خان کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ قائد اعظم تو دور کی بات، ہم کوئی دوسرا نواب زادہ نصراللہ خان بھی پیدا نہیں کر سکے۔
جماعت اسلامی کی قیادت اگر چاہتی تو اس مرحلے پر اپنا قومی کردار ادا کر سکتی تھی۔ بد قسمتی سے وہ بھی نواز شریف کی نفرت کے حصار سے ابھی باہر نہیں نکل سکی۔ یہ بات اہلِ جماعت کے ذہنوں سے چپک کر رہ گئی ہے کہ یہ نواز شریف ہے جس نے جماعت اسلامی کو اس کے ووٹ بینک سے محروم کیا۔ یہ اگرچہ امرِ واقعہ کا بیان ہے لیکن اسے سیاسی حرکیات کے تحت سمجھنا چاہیے نہ کہ کسی سازش یا دشمنی کی نگاہ سے۔
پنجاب میں تحریکِ انصاف نے پیپلز پارٹی سے اس کا ووٹ بینک چھین لیا۔ یہ کوئی سازش نہیں، ایک سیاسی اور تاریخی عمل کا نتیجہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے ایک ہی راہ ہے کہ وہ کسی مثبت سیاسی حکمتِ عملی سے اپنے ناراض لوگوں کو واپس لائے۔ عمران خان پر غصے کے اظہار سے وہ صرف اپنی منزل کھوٹی کر سکتی ہے۔ جس دن پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ تاثر قائم کر دیا کہ وہ اپنے آدرشوں کے لیے یک سو اور مخلص ہے، اسے آواز دینے کی ضرورت نہیں ہو گی، اس کی بکھری بھیڑیںخود بخود لوٹ آئیں گی۔
جماعت اسلامی کے پاس بھی یہی راستہ ہے۔ وہ نفرت پر اپنی سیاسی حکمتِ عملی استوار کر نے کے بجائے مثبت انداز میں آگے بڑھے اور سیاسی حرکیات کو سمجھے۔ میرا احساس ہے کہ سراج الحق صاحب اگر نواب زادہ نصراللہ خان کا کردار نبھانے پر آمادہ ہو جاتے تو ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ، وہ بڑے لیڈر بن جاتے۔
نواب زادہ نصراللہ خان نے پاکستانی سیاست کو کیا دیا؟ شائستگی کے ساتھ انہوں نے جمہوریت کو بطور سیاسی قدر مستحکم کرنے میں ایک کردار ادا کیا۔ انہوں نے برے حالات میں بھی یہ بات فراموش نہیں ہونے دی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کے لیے جمہوریت ناگزیر ہے۔ وہ خود کوئی بڑی انتخابی کامیابی حاصل نہیں کر سکے‘ مگر ان کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ انتخابات کا انعقاد ہو۔ انہوں نے قوم کو یہ سمجھایا کہ ریاستی اداروں کا کام دفاع ہے، سیاست نہیں۔
پاکستان کی جمہوریت کو آج پھر ایک چیلنج درپیش ہے۔ افسوس کہ آج ہماری صفوں میں کوئی نصراللہ خان نہیں۔ جماعت اسلامی مجلسِ عمل کا حصہ بن چکی ۔ اس کے باوصف، اگر سراج الحق صاحب چاہیں تو ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے مجلس عمل کو ایک جدوجہد پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اس باب میں یقیناً ان کے ہم خیال ہوں گے۔ ساجد میر صاحب کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ انتخابی اتحاد سے الگ یہ ایک قومی خدمت ہو گی۔
آج مؤقف ایک ہی ہے جو نواز شریف کا ہے۔ اگر کسی کو ان کی ذات سے شکایت ہے تو وہ خود اس کا علم اٹھا لے۔ سراج الحق صاحب اگر یہ جانتے ہیں کہ ‘اوپر والا‘ کون ہے تو پھر ان کی فطری اتحادی کم از کم تحریک انصاف نہیں ہو سکتی۔