عمانی وزراء سے ملاقات

میں امیر حمزہ کی وجہ سے عمان پہنچا‘ امیر حمزہ کے والد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں‘ امیر حمزہ اعلیٰ تعلیم کے لیے عمان پہنچے‘ ڈگری حاصل کی‘ عربوں کے لہجے میں عربی بولنا سیکھی‘ عمانی حکومت نے انھیں سرکاری ملازمت آفر کی اور یہ عمانی حکومت کا حصہ بن گئے۔

یہ عمان میں بہت بارسوخ نوجوان ہیں‘ یہ انتہائی پڑھے لکھے‘ مہذب‘ نفیس اور دھیمے مزاج کے انسان ہیں‘ حافظ قرآن بھی ہیں‘ قرآن فہم بھی اور یہ عربی‘ انگریزی اور اردو تین زبانوں کے ماہر بھی ہیں‘ عمانی وزراء اور سلطان کے عزیز انھیں بہت پسند کرتے ہیں‘ میری ان سے ڈیڑھ سال قبل اسلام آباد ائیر پورٹ پر ملاقات ہوئی ‘ یہ اس کے بعد مجھے مسلسل عمان آنے کی دعوت دیتے رہے لیکن پروگرام بنتے بنتے رہ جاتا تھا‘ اپریل میں ذرا سی فرصت تھی چنانچہ میں مسقط پہنچ گیا‘ امیر حمزہ نے میری ملاقاتوں کا اہتمام کر رکھا تھا‘ ہم نے دو دن سیاحت میں گزارے‘ ہم پہلے دن عمان کے علاقہ شرقیہ گئے۔

یہ مسقط سے 166کلو میٹر دور تھا‘ یہ علاقہ وادی بنی خالد کی وجہ سے بہت مشہور ہے‘ بنی خالد سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان خوبصورت سیاحتی مقام ہے‘ پہاڑوں کے اندر سے صاف پانی کے چشمے نکلتے ہیں‘ یہ چشمے چھوٹی چھوٹی جھیلوں میں تبدیل ہوتے ہیں اور یہ جھیلیں آخر میں ندی بن کر کھجوروں کے باغوں کو سیراب کرتی ہیں‘ ہم خشک اور سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے وادی میں پہنچے تو کھجوروں کے باغ کی ہریالی اور ٹھنڈی ہوا نے ہمیں مبہوت کر دیا‘ ہم پہاڑوں میں پانی کے ساتھ ساتھ واک کرتے ہوئے اوپر تک چلے گئے۔

پورے ملک سے لوگ پکنک منانے کے لیے یہاں آتے ہیں‘ یہ جھیلوں کے اندر نہاتے بھی ہیں اور پانی کے اندر پاؤں لٹکا کر بھی بیٹھ جاتے ہیں‘ پہاڑوں کے اوپر چھوٹے بڑے غار ہیں‘ غاروں کے اندر بھی پانی کے چشمے ہیں‘ ہم بمشکل پہلے غار تک پہنچ پائے‘ واپسی پر امیر حمزہ کے ایک عمانی دوست ہمیں اپنے فارم ہاؤس پر لے گئے‘ یہ ایک جدید اور بڑا فارم تھا‘ 35 گرین ہاؤسز میں سبزی اگائی جا رہی تھی‘ فارم ہاؤس کے سپروائزر سوات کے پاکستانی تھے۔

کھجوروں اور پپیتے کے درخت بھی تھے‘ بھیڑیں بھی تھیں اور اونٹ بھی‘ ہم دیر تک عمانی میزبان کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے رہے‘ ہم اگلے دن سمائیل میں حضرت ماذن بن غضوبہؓ کی مسجد‘ گھر اور مزار پر حاضر ہوئے اور تیسرے دن ہماری سرکاری مصروفیات شروع ہو گئیں‘ عمانی پاکستانی حکومت کو اس قدر ترسے ہوئے ہیں کہ یہ مجھے پاکستانی حکومت کے نمایندے کی طرح ٹریٹ کرتے رہے‘ ہماری پہلی ملاقات ہزایکسی لینسی عبدالعزیز رواس کے ساتھ ہوئی‘ یہ ثقافتی امور کے مشیر ہیں‘ یہ اس سے قبل 23 سال وزیر اطلاعات رہے‘ انتہائی سلجھے ہوئے‘ بردبار اور دانشور ہیں‘ یہ حافظ قرآن بھی ہیں اور قرآن کی نبضیں بھی جانتے ہیں۔

ہم گھنٹے سے زیادہ ان کے ساتھ بیٹھے رہے اور وہ عرب دنیا کے حالات اور قرآن مجید کے مضامین پر گفتگو کرتے رہے‘ میں نے ان سے چار نئی چیزیں سیکھیں‘ انھوں نے فرمایا‘ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں نبی اکرمؐ کو یا نبی کہہ کر مخاطب کیا وہ حکم صرف نبی اکرمؐ کے لیے تھا اور وہ حکم نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد ختم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے جہاں انھیں یا رسول کہہ کر مخاطب کیا وہ حکم اللہ کے رسول اور امت دونوں کے لیے تھا۔

ان کا فرمانا تھا آپ قرآن کو اس نقطے کے ساتھ پڑھیں آپ کی بے شمار کنفیوژنز ختم ہو جائیں گی‘ دوسرا‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بھی مرد اور خواتین سے خطاب کیا وہاں اکثر خواتین کا ذکر پہلے کیا اور مردوں کا بعد میں‘ اللہ کی یہ ادا ثابت کرتی ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خواتین کو زیادہ قابل احترام سمجھا جاتا ہے‘ تین‘ عربی میں نساء صرف خواتین کے لیے استعمال نہیں ہوتا‘ یہ نئی چیزوں اور نئی ایجادات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں جہاں فرمایا‘ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں وہاں ضروری نہیں نساء کا مطلب خواتین ہی ہو۔

یہ نئی اختراعات اور نئی ایجادات بھی ہو سکتا ہے گویا اس آیت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے دنیاکی نئی چیزیں تمہاری کھیتیاں ہیں اور تم انھیں ہر طرح سے استعمال کرسکتے ہو (لطف اندوز ہو سکتے ہو) اور چوتھا‘ عربی میں لفظ علم سائنسی علوم کے لیے استعمال ہوتا ہے اور علماء سے مراد سائنسی علوم کے ماہرین ہوتا ہے لیکن ہم نے بدقسمتی سے علم کو دین اور علماء کو دینی علم تک محدود کر دیا اور یہ عالم اسلام کا بہت بڑا ڈیزاسٹر ہے‘ یہ چاروں نقطے میرے لیے نئے تھے‘ یہ کیونکہ عربی زبان کے ماہر‘ حافظ قرآن اور قرآن فہم ہیں چنانچہ ہم نے ان کی باتیں غور سے سنیں۔

ہم نے عبدالعزیز رواس کے بعد پاکستانی سفیر علی جاوید کے ساتھ لنچ کیا‘ یہ کیریئر ڈپلومیٹ ہیں‘ جنرل جاوید ناصر کے صاحبزادے ہیں اور انتہائی دلچسپ انسان ہیں‘ یہ اس سے قبل جاپان اور لیبیا میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں‘ یہ کرنل قذافی کے خلاف بغاوت کے دور میں لیبیا میں تھے‘ عمان میں پاکستانی کمیونٹی ان کا بے انتہا احترام کرتی ہے‘ مجھے لوگوں نے بتایا‘ علی جاوید سے پہلے سفارت خانہ محض ایک خانہ پوری تھا‘ لوگ سفارتی عملے سے بہت تنگ تھے۔

سفیر کو سرکاری تقریبات تک میں نہیں بلایا جاتا تھا لیکن علی جاوید نے آ کر پاکستانیوں کے تمام مسئلے بھی حل کر دیے اور حکومت کے ساتھ بھی بہترین تعلقات استوار کر لیے‘ میں نے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے بھی دیکھے‘ سفارت خانے میں پاکستانیوں کی کوئی قطار تھی اور نہ ہی لوگ عملے کو گالیاں دے رہے تھے‘ لوگ عزت کے ساتھ بیٹھے تھے اور ان کے تمام کام بھی ہو رہے تھے‘ سفیر وزراء اور مشیروں کے ساتھ بھی رابطے میں تھے‘ یہ واٹس ایپ گروپ کے ذریعے ہزاروں عمانی اور پاکستانیوں کے ساتھ بھی رابطے میں رہتے ہیں۔

علی جاوید کا کہنا تھا‘ پاکستان عمان کو اگنور کر کے غلط کر رہا ہے‘ ہمیں ان کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط بنانے چاہئیں‘ یہ پاکستان کا ایک خاموش لیکن کارآمد دوست ہے‘ عمانی حکومت نے پاکستان کو سفارت خانے کے لیے سمندر کے کنارے بہت خوبصورت جگہ دے رکھی ہے لیکن ہم نے ابھی تک وہاں عمارت نہیں بنائی‘ ہمارا سفارت خانہ کرائے کے مکان میں ہے‘ میری خواجہ محمد آصف سے درخواست ہے یہ حکومت کے خاتمے سے پہلے عمان کا دورہ بھی کریں اور سفارت خانے کی تعمیر بھی شروع کرادیں‘ یہ دورہ پاک عمان تعلقات کے لیے اچھاثابت ہوگا اور سفارت خانہ پاکستان کے وقار کو بلند کرے گا۔

ہم نے دوسرے دن ہزایکسی لینسی ڈاکٹر دوبیانی‘ ایکسی لینسی ڈاکٹر یحییٰ بن محفوظ المنتہری‘ ایکسی لیسنی ڈاکٹر کہا لن الخروسی اور ایکسی لینسی حاتم طائی سے بھی ملاقاتیں کیں‘ ڈاکٹر دوبیانی نیشنل ریکارڈز اور آرکائیو اتھارٹی کے چیئرمین ہیں‘ میں ان کا سسٹم دیکھ کر حیران رہ گیا‘ ملک کی تمام وزارتوں کے خطوط‘ معاہدے اور فائلیں ان کے ریکارڈ میں ہیں‘ ریاست نے آج تک کس ملک کو کیا خط لکھا‘ کیا جواب آیا اور کون کب کس سے ملا؟ یہ تمام چیزیں آرکائیو ڈیپارٹمنٹ کے پاس محفوظ ہیں‘ ڈاکٹر دوبیانی نے شکوہ کیا عمان نے پاکستان کے آرکائیو ڈیپارٹمنٹ کو ’’کوآپریشن‘‘ کے لیے چھ خط لکھے لیکن پاکستان نے جواب تک نہ دیا‘ مجھے یہ سن کر بڑی خفت ہوئی‘ ہمیں عمان جیسے دوست کے ساتھ یہ نہیں کرنا چاہیے تھا‘ حکومت کو فوراً تمام خطوط نکلوا کر جواب بھی دینا چاہیے اور جس نے یہ گستاخی کی اسے سزا بھی ملنی چاہیے۔

ڈاکٹر یحییٰ بن محفوظ المنتہری عمان کے چیئرمین سینیٹ ہیں‘ یہ ملک کی انتہائی اہم شخصیت ہیں‘ یہ ہمارے ساتھ سینیٹ کی عمارت میں ملے‘ عمان کے دونوں ایوانوں کی عمارت پہاڑوں کے درمیان سمندر کے کنارے واقع ہے اور انتہائی خوبصورت اور تعمیراتی شاہکار ہے‘ ڈاکٹر یحییٰ اس عمارت سے بھی کہیں قدآور شخصیت کے مالک ہیں‘ یہ طویل عرصہ وزیر تعلیم رہے‘ انتہائی شائستہ‘ سلجھی ہوئی اور فلسفیانہ گفتگو کرتے ہیں‘ ان کے اندر ایک صوفیانہ اپنائیت ہے۔

یہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے پاکستان آ رہے ہیں اور پاکستانیوں کی دل سے قدر کرتے ہیں‘ یہ پاکستان کو اسلامی دنیا کا لیڈر سمجھتے ہیں‘ میں ان کی شخصیت کے سحر میں گم ہو کر رہ گیا‘ میں نے انھیں بتایا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک بلوچ سیاستدان صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ بنے ہیں تو یہ بہت خوش ہوئے اور صادق سنجرانی کو عمان میں دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا‘ ڈاکٹر کہالن الخروسی عمان کے اسسٹنٹ گرینڈ مفتی ہیں‘ عمان کے گرینڈ مفتی احمد بن حمد الخلیلی بزرگ اور گوشہ نشین ہو چکے ہیں چنانچہ اب ڈاکٹر الخروسی ان کی جگہ کام کرتے ہیں۔

یہ نوجوان ہیں اور انتہائی پڑھے لکھے‘ مدلل اور جاذب نظر شخصیت کے مالک ہیں‘ انھوں نے بتایا وہ مفتی تقی عثمانی سے ملاقات کے لیے کراچی آئے‘ ان سے اسلامی بینکاری کی تربیت لی اور یہ نظام عمان میں متعارف کرا دیا‘ یہ سمجھتے ہیں ہر ملک کے علماء کو اپنے معروضی حالات کے مطابق فتوے جاری کرنے چاہئیں‘ دوسرے ممالک کے علماء کو کسی ملک میں فتاویٰ مداخلت نہیں کرنی چاہیے‘ مجھ سے جب دوسرے ممالک کے لوگ فتوے کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو میں ان سے عرض کرتا ہوں‘ آپ اپنے ملک کے مفتیان کرام سے رابطہ کریں‘ وہ اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کریں گے اور آخر میں ہماری ملاقات ایکسی لینسی حاتم طائی کے ساتھ بھی ہوئی۔

یہ عمان کے میڈیا ٹائی کون ہیں‘ یہ ملک میں تین اخبارات چلا رہے ہیں‘ کویت نے انھیں پیر کوایوارڈ دیا‘ یہ ایوارڈ لینے کے بعد واپس آئے اور گھر جانے کے بجائے ائیرپورٹ سے سیدھے ہمارے ساتھ ملاقات کے لیے ہوٹل آ گئے‘ یہ ارب پتی ہیں لیکن انتہائی سادہ طبیعت اور عاجزی سے لبریز انسان ہیں‘ یہ آئے اور ہمارے دل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی مٹھی میں بند کر لیے۔

آپ اگر کبھی مسقط جائیں تو آپ مسقط کا اوپرا ہاؤس ضرور دیکھیں‘ ایک اسلامی اور عربی ملک میں ایسا اوپرا ہاؤس حیران کن ہے‘ عمارت‘ ہال اور اسٹیج کسی بھی طرح پیرس اور روم کے اوپرا ہاؤس سے کم نہیں‘ یہ عمارت بھی عمان کی رواداری‘ روشن خیالی اور آرٹ سے محبت کی عکاس ہے‘ ہم عمان سے یہ بھی سیکھ سکتے ہیں لیکن شاید ہم سیکھنے کے عمل سے باہر ہو چکے ہیں‘ ہم خود ہی اپنی انا کے پتھر کا خدا بن چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے