میکسم گورکی ، نظریاتی ریاست اور قومی مفاد

فیض نے کہا تھا ، یہی ہے جبر، یہی اختیار کا موسم۔ فیض صاحب سے پہلے ژاں پال سارتر نے فرانس پر نازی قبضے کے دوران کہا تھا کہ ہم کبھی اس قدر آزاد نہیں تھے جتنا آزاد ہم نے خود کو جرمن قابض فوج کی موجودگی میں مزاحمت کے دوران پایا۔

دانش کا امتحان یہی ہے کہ حاکمیت جب اپنے آہنی پنجے ظاہر کرے تو سر جھکانے سے انکار کر دیا جائے۔ آمریت انسانی امکان کی نفی کا نام ہے اور تخلیق اس امکان کو زندہ رکھنے کی سعی ہے۔ دانش ہی وہ لکیر ہے جو کوزہ گر کی بے گانگی کو تخلیق کی حرارت سے الگ کرتی ہے۔ درویش بے نشان نے زندگی کا ایک حصہ اشتراکی افکار کی بقدرتوفیق ہم نوائی میں گزارا۔ اس دشت نوردی میں فرد کو خاک کے پتلے سے انسان کا روپ دھارتے بھی دیکھا اور مارکس کے خواب کا مثلہ ہوتے بھی دیکھا۔ ارادہ یہ ہے کہ اپنے محدود مطالعے اور مشاہدے کی مدد سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ نظریاتی ریاست کی اساس میں آمریت کے کون سے اجزا کارفرما ہیں نیز یہ کہ آمریت میں کرپشن کس طرح ناگزیر طور پر اپنی بدترین صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ لیکن ان معروضات سے پہلے اجازت دیجئے کہ میں محترمہ مدیحہ گوہر کو یاد کر لوں۔ دو روز قبل خبر ملی کہ مدیحہ گوہر سرطان کے خلاف اپنی لڑائی ہار گئی ہیں۔

پاکستان میں امتیاز، ناانصافی، آمریت اور بدصورتی کے خلاف تھیٹر کے محاذ پر
ایک شاندار نغمہ خاموش ہو گیا ہے۔ جب ہمارے ملک میں لوگوں کی حقیقی تاریخ لکھی جائے گی تو ایک روشن باب، شاید روشن ترین باب پاکستان کی ان بیٹیوں کے بارے میں لکھا جائے گا جنہوں نے بدترین جنسی تعصب میں مبتلا معاشرے میں صرف عورت کے حقوق کا جھنڈا ہی نہیں اٹھایا، جمہوریت، انصاف، امن، رواداری اور مساوات کے ہمہ جہت فکری محاذ پر بے جگری سے مقابلہ کیا۔ 1978ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں تعلیم پانے والی مدیحہ گوہر کو اسی کی دہائی میں دیو سماج روڈ پر ڈرامہ ڈائریکٹ کرتے دیکھا تھا۔ یونانی حسن کے قالب میں کشمیری حریت کا چراغ لئے شاہد محمود ندیم ان کا ساتھی تھا۔

پچھلے ایک برس میں نگار احمد، لالہ رخ، عاصمہ جہانگیر اور اب مدیحہ گوہر ہم سے بچھڑ گئی ہیں۔ کراچی میں تو ہم نے طبعی موت کو بھی زحمت نہیں دی۔ پروین رحمن اور سبین محمود کو قتل کر دیا۔ کیا قافلہ جاتا ہے… ہم بھی کیاطرفہ لوگ ہیں کہ مراعات یافتہ طبقے کی آسائش کو تج کر گاؤں، گوٹھ اور کچی بستیوں میں دیے جلانے والی عورتوں پر اشرافیہ ہونے کی فردجرم عائد کرتے ہیں۔ خیر اس ملک میں جو ہو، سو کم ہے۔ ہم پچھتر برس کے بزرگ عطاالحق قاسمی پر کرپشن کے الزامات میں غیر اخلاقی اشارے شامل کرنے سے نہیں گھبراتے۔ ہم نے قائد اعظم کے پاکستان میں دیانت، شفافیت اور کردار کے معانی ہی بدل ڈالے۔

خدا خیر کرے، خبر ہے کہ قائد اعظم کا پاکستان کافی نہیں۔ اب نیا پاکستان بنانے کی تیاری ہے۔ تقسیم کے ہنگامے میں سہارن پور کے ایک صاحب لاہور آن پہنچے۔ سرکاری ملازم تھے۔ کچھ ماہ بعد تبادلہ ہو گیا۔ دیس میں ایک عزیز کو خط میں لکھا، "لائل پور کوئی جگہ ہے۔ وہاں بھیجا جا رہا ہے۔ خدا معلوم وہاں کون سی زبان بولتے ہوں گے… یہاں لاہور میں تو پنجابی بولتے ہیں۔” تو صاحب قائد اعظم کے پاکستان میں تو جو گزری سو گزری، نئے پاکستان میں نجانے کون سی زبان بولی جائے گی۔ کیمبل پور کے مولوی صاحب کی زبان تو اب بچے بچے نے سن لی ہے۔

آئیے نظریاتی ریاست کی ایک جھلک دیکھیں۔ میکسم گورکی کو کون نہیں جانتا۔ 1868ء میں پیدا ہونے والا میکسم گورکی ادب میں ’اشتراکی حقیقت پسندی‘ کا استعارہ تھا۔ انقلاب روس کے بانیوں میں شمار ہوتا تھا۔ اکتوبر انقلاب نے پر پرزے نکالے تو ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور اساتذہ پر برا وقت آیا۔ گورکی آئے دن کسی دانشور کی دادرسی کے لئے لینن کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ بقدر توفیق گوشمالی بھی کرتا تھا۔ کہتا تھا کہ لینن اور ٹراٹسکی کے دماغ کو اقتدار کی گرمی چڑھ گئی ہے۔ تنگ آکر لینن نے گورکی کو یورپ بھیج دیا۔ آخر لینن کو نیا روس تعمیر کرنا تھا، انسان دوستی پر بھاشن سننے کا دماغ کہاں۔

1931 میں اسٹالن کو ایک مفکر کی ضرورت پیش آئی جس کا بت سنگی روس کے چوراہوں میں نصب کیا جا سکے۔ گورکی کو اٹلی سے بلایا۔ مگر مشکل وہی، گورکی ماسکو ٹرائل کی شفاف سماعت کا مطالبہ کرتاتھا، نامعلوم افراد کے ہاتھوں مرنے والے اور کوئی نشان چھوڑے بغیر گم ہو جانے والے افراد کے بارے میں سوال کرتا تھا۔

اسٹالن کا ظرف تو لینن سے بھی کم تھا۔ گورکی کی جگہ بورس پاسٹرناک کو دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہی پاسٹرناک جس نے بعد ازاں ’ڈاکٹر ژواگو‘ میں انقلاب کا کچا چٹھا کھول دیا۔ 1935 میں گورکی کا بیٹا پراسرار حالات میں مارا گیا اور پھر جون 1936 میں گورکی کے مرنے کی خبر آئی۔ اسے سرکاری اعزاز سے دفن کیا گیا۔ عام خیال یہی تھا کہ اسٹالن کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تھا۔ زہر دیا گیا۔

اسٹالن کا جانشین خروشیف تھا۔ دسمبر 1962 میں ایک ادبی کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے شاعر اندرئے ووزنے سینسکی پر برس پڑا۔ "تمہیں شاعر کس نے بنایا؟ تم غیرملکی پاسپورٹ لینے کے لئے یہ سب کہتے ہو۔ جاؤ اپنے غیر ملکی سرپرستوں کے جوتے چاٹو:۔ ووزنے سینسکی نے دھیمی آواز میں کہا، "میں شاعر ہوں۔ شعر کہنے کے لئے مجھے اجازت نامہ نہیں چاہیے۔ میں روسی ہوں۔ میں اسی ملک میں رہوں گا”۔ ٹھیک آٹھ برس بعد حالت معزولی میں خروشیف اپنی یادداشتیں لکھ رہا تھا۔ کے جی بی کا ایک اہلکار اس کے پاس آیا اور مسودہ مانگا۔ بوڑھے خروشیف نے پوچھا کیوں؟ کے جی بی کے ایجنٹ نے کہا، ’ـمجھے دیکھنا ہے کہ آپ نے قومی مفاد کے خلاف تو کچھ نہیں لکھ دیا۔‘

آمریت کسی فرد کا نام نہیں، لفظ، خیال اور خبر سے مسلسل خوفزدہ رہنے والے بندوبست کو کہتے ہیں۔ نظریاتی ریاست میں ایک خاص سوچ رکھنے والے گروہ کو اقتدار پر اجارہ سونپ دیا جاتا ہے۔ یہ گروہ وسیع تر قومی مفاد کے نام پر ہرمخالفت کو کچل دیتا ہے۔ انسانی معاشرے میں اختلاف رائے کو کچلنا سب سے بڑی کرپشن ہے۔ اختلاف رائے کے لئے جگہ نہ رہی تو جواب دہی کیسے ہو گی۔ اور اگر جواب دہی نہیں ہو سکتی تو کرپشن کی جڑیں ہر ادارے میں اور ہر سطح پر پھیل جائیں گی۔ معاشرے کا ارتقا مصنوعی طور پر روک دیا جائے گا۔

غلطی یا خرابی کی نشاندہی کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ انسانی معاشرہ تو امکان کی ایک پھیلتی ہوئی کائنات ہے۔ نظریاتی ریاست اس امکان پر گرہ لگانے کی کوشش کرتی ہے، کبھی موسیقی کے آلات توڑتی ہے، کبھی تصویر پر کالک پھینکتی ہے۔ ہر روز ایک نیا مسیحا دریافت کیا جاتا ہے جس کی شخصی کشش کی آڑ میں قانون، معیشت اور معاشرت کے ناگزیر تضادات کو چھپایا جا سکے۔ ریاستی مشینری اپنے طے شدہ فرائض کی بجائے مفروضہ قومی نصب العین کی حفاظت پر کمر باندھ لیتی ہے۔ اخفا اور خوف کی فضا میں کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کس سطح پر فیصلہ سازی ہونا ہے۔ چنانچہ تناؤ شروع ہو جاتا ہے کہ فلاں گروہ فلاں ذمہ داری اٹھانے سے گریزاں ہے۔ فلاں گروہ فلاں ذمہ داری اٹھانے کا اہل نہیں۔ نظریاتی ریاست کا حقیقی روگ یہی ہے کہ ریاست قوم پر قبضہ کر لیتی ہے۔

نظریاتی جبر کی مخالفت کرنے والوں کو ملک دشمن اور غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔

بعد میں کسی خاص وقت پر پرانی غلطی تسلیم کر لی جاتی ہے لیکن اس دوران اصل نقصان یہ ہوتا ہے کہ بار بار بدلتے ہوئے سرکاری بیانیے سے عوام کی عزت نفس ختم ہو جاتی ہے۔ بلند کرداری کی فصل اجڑ جاتی ہے۔ قانون کے دھاگے الجھ جاتے ہیں۔ اہلیت اور نااہلیت کی لکیر مٹ جاتی ہے۔ قائد اعظم کے ایک ساتھی تھے قاضی عیسیٰ۔

1992ء میں کوئٹہ میں ان کے در دولت پر حاضری کا موقع ملا تھا۔ قائد کے ساتھی کا بیٹا انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر کہتا ہے کہ یہ ملک ہم نے خوف میں زندہ رہنے کے لئے نہیں بنایا تھا توبے اختیار احمد مشتاق یاد آتا ہے۔

دل نہ چھوٹا کرو، سوکھا نہیں سارا جنگل
ایک جھنڈ سے ابھی پانی کی صدا آتی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے