میں نے چین میں کیا دیکھا۔۔۔۔۔!!

ویسے تو ہفتہ وار تواتر سے لکھتا ہوں تاہم گزشتہ ایک ماہ سے اپنی پیشہ وارانہ بھرپور مصروفیات کی وجہ سے نہ لکھ سکا۔پچھلے دو دن میں پانچ احباب کی طرف سے  پوچھا گیا تو سوچا کہیں قلم پھر سکوت اختیار نہ کرلے لہذا اپنے حالیہ دورہ چین پر ایک مشاہداتی جائزہ پیش کر رہا ہوں۔میں یورپ ،رشین سٹیٹس مشرق وسطی اور سعودی عرب سمیت عرب ریاستوں میں جاچکا ہوں تاہم چین کا یہ میرا پہلا دورہ تھا۔چین کے بارے میں جیسا کے ہم سب سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ چین نے بہت ترقی کی ہے،میں جب یہ پڑھتا اور سنتا تھا تو سوچتا تھا کہ ایک طرف مغرب ہے جس نے یہ ترقی کا سفر کئی سو سال میں طے کیا اسی طرح روس اور اس سے آزاد ہونے والی ریاستوں کی بھی لمبی تاریخ ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ صدیوں کا سفر سالوں میں کرلیا جائے۔

ساحل کنارے

خیر سفر کا آغاز ہوا۔ہم چائینہ سودرن پراسلام آباد سے ارمچی اور وہاں سے  سنیا پہنچے میں چونکہ کچھ تحقیق کرکےاور معلومات لیکر گیا تھا کہ چین کی عمومی ترقی کے علاوہ جس شہر میں جارہے ہیں اس کے صوبہ ہینان نے پچھلے پچاس ساٹھ سال میں کتنی ترقی کی ہے تو کچھ کچھ اندازہ تو تھا مگر سنیا کے ہوائی اڈے پر اترتے ہی مجھے لندن کا ہیتھرو ائیرپورٹ یاد آگیا یہ چین کا وہ صوبہ ہے جو دور دراز علاقے میں واقع ہے۔ یہاں بہترین اور جدید عالمی معیار کی ہر سہولت اعلی ترین بنیادی ڈھانچہ اور سب سے بڑھ کر لندن کی نسبت سکون والے چہرے نظر آئے جو بظاہر کسی جلدی میں نہیں تھے جیسا کہ لندن میں ہر طرف افراتفری نظر آتی ہے۔۔!

یقین جانیں مجھے سنیا کہ لوگ ترقی یافتہ دنیا سے زیادہ خوشحال اور مطمعئن دیکھائی دیئے۔یقین ہوا کہ چین نے واقعی ترقی کی ہے۔دورے کے دوران الگ سے کہیں جانے کا موقع تو نہیں ملا مگر کام والے علاقے میں ہی میرے اردگرد جو ماحول تھا مجھے چین کے اس خوبصورت جزیرے میں آکر بہت خوشی ہوئی،ہینان کے لوگ پرُ اعتماد اور متحرک ہیں۔چین میں ہمارا پڑاو سنیا(SAN-YA) کے ایک نجی ہوٹل میں تھاسنیا شہرچین کے صوبے ہینان کے وسط میں واقع ہےیہ جزیرہ33920مربع کلو میٹر پر پھیلا اور چاروں طرف سے پانی میں گھراہوا ہے۔ یہ علاقہ دنیا بھر میں آب و ہوا، خوبصورت پہاڑوں اورساحل سمندر کے بہترین ریزورٹس  کے طور پرجانا جاتا ہے۔

چین کی ترقی کا سفر جوکتابوں میں پڑھا تھا اس کے مطابق پچاس کی دہائی میں  چین ایک پسماندہ ملک اور چین کے عوام کے لیے پیٹ بھرکر کھانا بڑا مسئلہ رہا ہے ساٹھ سال قبل چینیوں کیلئے زرعی خود کفالت ایک خواب تھا چین کے لوگ بھوک افلاس کا شکار تھے لیکن زرعی شعبے کی ترقی کے لیے چینی حکومت کی پالیسیوں اور ٹھوس منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے کہ آج چینی قوم نے زرعی خود کفالت کی منزل پالی ہے۔

دوسرے بھی تقریبا تمام شعبوں میں چین نے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔چین کی اب تک کی قیادت کےاندر یہ خواہش  رھی ہے کہ دنیا کی  نا انصافی کے باوجود وہ ترقی کریں اور اپنے پیروں پر کھڑے  ہوں۔مغرب نے چین کو مغربی ٹیکنالوجی سے دور رکھا تاہم  چینی حکمرانوں نے ملک کی ترقی کے لئیے بھرپور کوشش جاری رکھیں۔  چین کی ترقی کا دوسرا راز یہ  ہے کہ چین کے جتنے راہنما آئے  وہ اپنی پالیسیوں کے باعث چین کو ترقی کے نئے سے نئے راستے پر گامزن کرتے گئے ۔ اور انہوں نے دوسرے ملکوں کی غلطیوں سے سیکھا ۔

اور یہ بھی کوشش کی کہ چین کی جو پالیسیاں ہیں ۔وہ منجمند نہ ہوں انکے اندر روانی ہو ۔ اور وہ وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ بدلتی بھی رہیں ۔اس وقت کی چینی قیادت کاجو ویژن ہے وہ  اس کوشش میں ہے کہ اپنی ترقی سے کچھ پیچھے رہ جانے والےمغربی حصے اوردوسرے ملکوں کو بھی بھرپور فائدہ پہنچائے۔چین نے ترقی یافتہ ممالک کو بھی دعوت دی ہے  کہ انکے ساتھ مل کر دنیا سے عدم مساوات، غربت، افلاس ، ناخواندگی،صحت اور ماحولیات کے مسائل کو دور کیا جائے۔وہ اس مشن کی کامیابی کیلئےدنیا کو ساتھ لے کر چلنا چاہتےہیں۔

میں نے بیجنگ کو ائیرپورٹ کے علاوہ نہیں دیکھا نہ شنگھائی یا کوئی دوسرا بڑا شہر دیکھامگر میں نے جو ترقی صوبہ ہینان میں دیکھی میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ چین نے واقعی ترقی کی ہے اور یہ امریکہ کے ہم پلہ دنیا کی بڑی طاقت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے