BLESSING IN DISGUISE

ان دنوں جن مسلم لیگی دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے وہ مجھے بہت خوش باش نظرآتے ہیں مگر مجھے اس کی سمجھ نہیں آتی۔ ان کے لیڈر نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دیاچکا ہے، خواجہ آصف بھی تاحیات نااہل قرار دیئے جاچکےہیں، بلوچستان میں ان کی حکومت ’’اغوا‘‘ کرلی گئی ہے اور سینیٹ میں بھی اکثریت کا خواب پورا نہیں ہوا اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ایم این ایز وغیرہ اِدھر اُدھر ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ الیکشن سے قبل مختلف گروپ بنائے جارہے ہیں۔ جماعت کے بہت سے قریبی ساتھی بھی مختلف قسم کے امتحانوں سے گزر رہے ہیں مگر کارکن ہیں کہ انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں!

یہ صورتحال دیکھ کر بالآخر پرسوں میں نے مسلم لیگ کے ایک جنونی قسم کے کارکن کو پکڑ لیااور پوچھا کہ آپ لوگ ان حالات میں پریشان ہونے کے بجائے اتنے بے فکر کیوں نظر آتے ہیں؟ بولا ’’آپ چونکہ بنیادی طورپر غیرسیاسی انسان ہیں۔ آپ کی ساری دلچسپیاں علم و ادب سے ہیں، اس لئے آپ کو ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔‘‘ میں نے کہا ’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ تبھی توآپ سے رہنمائی کا طلب گار ہوں۔‘‘ اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا ’’قبلہ! آپ عوام میں گھومتے پھرتے ہیں، آپ بتائیں نااہلیوں پر عوام کا ردعمل کیاہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’میں بائیس کروڑ آبادی کی رائے سے تو ظاہرہے واقف نہیں ہوں کہ ہمارے عوام مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں تاہم زیادہ تر لوگوں کو میں نے ان فیصلوں پر حیران پایا۔

حتیٰ کہ عمران خان صاحب نے بھی کہا کہ میاں صاحب کو نااہل قرار دینے کےلئے بہت کمزور دلیل کا سہارا لیا گیا ہے۔‘‘ مسلم لیگ کے کارکن نے پوچھا ’’میاں صاحب کا کوئی جلسہ کبھی اٹینڈ کیا؟‘‘ میں نے کہا ’’بھائی! میں نے کبھی کسی سیاسی جماعت کا جلسہ اٹینڈ نہیں کیا البتہ ٹی وی پر دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ اس پر متذکرہ کارکن نے تبلیغ کے انداز میں مجھے سمجھانا شروع کردیا ’’میاں صاحب کے جلسوں میں عوام بہت بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں اور صرف تعداد نہیں بلکہ وہ بہت پرجوش بھی ہوتے ہیں۔ انہیں لایا نہیں گیا ہوتا، وہ آئے ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ صاحب بہت لمبی بات کریں گے چنانچہ میں نے عرض کی کہ ’’حضور! اگر آپ کسی اور دن تشریف لے آئیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔

میں نے ایک میٹنگ میں شرکت کرنی ہے۔‘‘ بولے ’’آپ کے پاس کتنا وقت ہے؟‘‘ میں نےکہا ’’پانچ منٹ‘‘ کہنے لگے ’’میں پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لوں گا۔ آپ میری بات سن لیں۔‘‘ میں نے کہا ’’فرمایئے‘‘ کہنے لگے ’’میں مسلم لیگ (ن) کا جیالا ہو۔ مگر میری رسائی قیادت تک نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’وہ تو میری بھی نہیں ہے۔‘‘ بولے ’’آپ کہتے ہیں تو مان لیتا ہوں مگر آپ میری بات کالم کے ذریعے قیادت تک توپہنچا سکتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’قیادت اللہ جانے ان دنوں کالم بھی پڑھتی ہے کہ نہیں مگر آپ نے کہا ہے کہ تو میں لکھ دیتا ہوں۔ آگے آپ کے نصیب!‘‘

فرمانےلگے ’’آپ صرف یہ لکھیں کہ جو لوگ جماعت چھوڑ کر جارہے ہیں وہ آپ کے لئے Blessing in disguiseوالا معاملہ ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’آسان لفظوں میں آپ اسے شرمیں خیر کا پہلو کہہ رہے ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’ہاں! یہی کہنا چاہ رہا ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ بولے’’ہماری جماعت بھی دوسری جماعتوں کی طرح لوٹوں سے بھری پڑی ہے اور لوٹے بھی وہ جو مسجد کے غسل خانوں میں دھرے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ کے لئے بہترین وقت ہے کہ وہ چھوڑ کر جانے والے یا وہ جو آگے چل کر چھوڑ سکتے ہیں، نیز وہ جنہیں Electable کہا جاتا ہے کہ بیس پچیس ہزار ووٹ ہروقت ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ میری طرف سے لکھیں کہ آنے والے الیکشن میں ان میں سے کسی کو بھی ٹکٹ نہ دیا جائے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’تو پھرکن لوگوں کو ٹکٹ دیاجائے؟‘‘ بولے ’’ہماری جماعت کارکنوں کو نظرانداز کرتی چلی آئی ہے۔

وہ اس بار پارٹی کے وفاداروں کو ٹکٹ دیں آپ دیکھیں گے کہ لوگ ان اچھی شہرت والے افراد کو کامیاب کروائیں گے اور یوں پارٹی کو کوئی کسی بھی موقع پر بلیک میل نہیں کرسکے گا۔‘‘ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے لکھ دوں گا مگر پانچ منٹ ہوگئے ہیں۔‘‘ کہنے لگے ’’میری بات بھی پوری ہوگئی ہے۔ Blessing in Disguise مخلص، نوجوان اور محنتی کارکن اس محاورے کی تصدیق کرکے د کھائیں گے۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے